ایک خط جو مکالمہ کانفرنس کی یاد لیے ہوئے ہے…

ایک خط جو مکالمہ کانفرنس کی یاد لیے ہوئے ہے…
احسن قریشی
ارے اے نازک حسینہ اسلام آباد! بھلا تم کیوں نہ آئیں مکالمہ کانفرنس ؟؟؟
چلو تمہیں احوال سنا کے جلایا جائے۔ دیکھیں کہ اس خط کے بعد بھی جلتی ہو کہ نہیں۔
ہماری خوش قسمتی اور اعزاز کہ انکل ڈاکٹر طفیل ہاشمی کا ساتھ تھا اسلام آباد سے لاہور اور پھر واپسی۔
ایک سفر جو صرف جسمانی طور پر ختم ہوا روح ابھی ان کے ساتھ ہی محو کلام ہے ؎
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے.
اسلام آباد سے سفر شروع ہوا. خوابوں کی بات چھڑی. فرمانے لگے کہ بھئی یہ خواب انسان کا عالم روحانیت سے ایک رابطہ ہے اور بیگم صاحبہ تو پیش آمدہ واقعات کو دیکھ لیتی ہیں.
عرض کیا کہ گویا آج ہمیں آپ کے پیر کی شناخت ہوگئی 🙂 ، (اور ثابت ہوا کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ضرور ہے۔)
اور یوں بات دوسری تیسری چوتھی ڈائیمینشنز تک جا پہنچی، جس کی بنیاد پر اس بات کی نشان دہی ہوئی کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی کام جاری رہتے ہیں… کسی اور انداز اور کسی اور جگہ میں۔ اور شاید یہی عالم برزخ یا اعراف ہو. لیکن یہ سب بات صرف مشکوک ہے۔ اس پر تحقیق نام کا کوئی کام یا تو بے حد محدود ہے یا ہے ہی نہیں۔ اس ضمن میں مولائے روم کے اشعار، جن میں وہ ارتقا کا بیان کرتے ہیں، ہندو مت بطور الہامی مذہب اور اس کا فلسفہ آواگون سب ہی گفتگو کی چکی میں پیس ڈالے گئے۔
حالات حاظرہ و غیر حاظرہ 🙂 ، سی پیک، فوج، حکومت، جیند جمشید، مولانا طارق جمیل، وفاق المدارس وغیرہ وغیرہ… دس گھنٹے کے سفر کا حصہ رہے جو منٹوں میں ختم بھی ہوگیا۔
یہ سب گفتگو اور جانے کیا کیا روحانی فوائد، صرف ایسے شاندار انسان کے ساتھ سفر کا بیش قیمت موتی ہی ہوسکتے ہیں۔ میرا نصیب کیسا اچھا رہا۔ اللہ تیرا شکر۔
ساتھ میں مولانا اشفاق بھی تھے. ان کی باتیں بے حد نپی تلی اور مزے دار تھیں۔ مولانا ایم ایس کر رہے ہیں ہائی ٹیک یونیورسٹی سے اور اسلامک یونیورسٹی سے بھی منسلک ہیں۔
مکالمہ میں مفتی زاہد صاحب نے تو چار چاند لگا دیے… مکالمہ کی قرآنی اہمیت اور ان کا گمبھیر لب و لہجہ! بس کمال ہی ہوگیا۔ صاحب علم تو علیم ہی ہوتا ہے۔ یہ بات ان کی تقریر سے ثابت ہے۔
اور کیا بتاؤں؟
بس ہم زرقا آپی سمیت سب سے مل آئے. ہا ہا ہا
ان کا ہنسنا واقعی شاندار تھا.
شاید اس کو چھت پھاڑ قہقہہ کہا جا سکے۔
اللہ سلامت رکھے ان کو اور ان کے اظہر کو 🙂
زرقا آپی نے میرا تعارف اپنے میاں کو کروایا:
“یہ میری فیس بک کی سہیلی ہے.” دل باغ باغ ہوا اور اعزاز لگا ان کا ہم کو سہیلی کہنا.
سعدیہ سلیم بٹ سے بھی ملے (بٹ صاحبان واقعی بٹ صاحبان ہی ہوتے ہیں. اس بات کی تفصیل بٹ صاحبان سے پوچھی جائے. 🙂 )
آپا صدف مرزا سے ملے (الحمدللہ انھوں نے سر پر ہاتھ پھیرا.)
ان کو میرا او مائی گاڈ کہنا یاد رہے گا۔ ایک شاندار آپا یقینا!
انعام رانا سے ملے. بلا شبہہ خوبصورت ترین بندہ ہے (اپنی تصویر سے کافی بہتر). میں نے تو پوچھ بھی لیا کہ تم یقینا اپنی ماں جیسے ہو. بولا ہاں 🙂 دادا جی کے نام خط، ایک سدا بہار تحریر! اللہ اسے سلامت رکھے۔ آمین۔
ان کی ماں جی سے نہ ملنے کا افسوس ہوا. اور ہاں ! عائشہ اذان کو اس قدر پھرتی سے کام کرتے دیکھا کہ یہ احساس ہوا کہ وہ نہ ہوتی تو یہ کانفرنس کامیاب نہ ہوتی۔ اللہ سلامت رکھے۔
اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا ذکر کرنا اہم ترین ہے۔ ایک بہترین انسان۔ ان کی مسکراہٹ میں جادو ہے گویا۔
وسیم بھائی نے عامر مغل کی کمی پوری کی تصاویر کا انبار لگا کے. اللہ سلامت رکھے.
اور کیا کیا بتاؤں. کافی لوگ ملے.   
بندہ کسی کے جذبات کا خیال ہی کر لیتا ہے تھوڑا بہت جل کر! شاید یہی تمھاری صحت کا راز ہو۔
ژاں پال سارتر اور رانا اظہر کمال ہر دو سے ملاقات ہوئی. دونوں ہی خوبصورت انسان ہیں اور بھائیوں کی طرح اکٹھے رہتے ہیں.
حافظ صفوان صاحب کی بیٹری (فون کی) خواتین کی وجہ سے ختم ہوئی اور ان سے ملاقات نہ ہوسکی بعد ازاں۔ کیا چراغوں میں روشنی نہ رہی؟
ڈاکٹر ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس کا قصور نہیں۔ ان الصفوان لفی سسرال!
اس میں کیا راز تھا؟؟ نامعلوم۔
تلاش جاری۔
ہنوز لاپتہ !!!!
سعید ابراہیم کی کتاب سیکس اور سماج پر صاحبِ کتاب کی گفتگو سنی گئی اور ثابت ہوا کہ ہم ابھی نابالغ ہیں۔
اور اس آخری جملے سے عارفِ بے بدل یاد آیا۔ جی ہاں عارف خٹک!
عارف خٹک جیسے ہنس مکھ کے لیے ایک ہی سطر کافی ہے:
“حضرت عارف خٹک دامت ٹھرکیاتہ، عالم ٹھرکیات کے امام غزالی یا مولائے روم ہیں۔”
غضب خدا کا. ایک آدمی اور بییباں ہی بیبیاں. گرچہ مولائے ملتان بھی قابل ذکر ہوسکتے تھے۔
اور جی آخر میں یہ بھی کہنا ہے کہ زرقا آپی اگر ملیں تو ان کو بتانا کہ وہ امیر خسرو تھے جنھوں نے گر فروس والا شعر کہا تھا۔
مکمل غزل غالبا یوں ہے:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
کافر عشقم، مسلمانی مرا در کار نیست
ہر رگ من تار گشته، حاجت زُنار نیست
از سر بالیں من برخیز ای نادان طبیب
دردمند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش!
ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست
خلق می‌گوید که خسرو بت‌ پرستی می‌ کند
آری! آری! می‌کنم! با خلق ما را کار نیست
خوش رہو. سلامت رہو. اپنے احوال لکھو اور مزید دعا پاؤ۔
خیر اندیش
احسن قریشی
نوٹ : جن پیاروں کا نام نہیں لکھا وہ ناراض نہ ہوں۔ گرچہ یہ میری ہی کمی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply