• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرچی کرچی ہوئے کراچی کی روشن یادیں ۔ حیدر جاوید سید

کرچی کرچی ہوئے کراچی کی روشن یادیں ۔ حیدر جاوید سید

مہینہ اور دن یاد نہیں البتہ سال 1973 کا تھا، کراچی صدر میں ہارون مینشن سے کچھ آگے (ایم اے جناح روڈ کی سمت) بائیں طرف کی ایک ذیلی سڑک کی بلڈنگ میں جناب محمود الحق عثمانی ایڈووکیٹ کا دفتر تھا۔ اسی دفتر میں نیشنل عوامی پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ بلڈنگ کے باہر سڑک پر کرسیاں ڈالے “پختون زلمے” کے کارکن رجسٹر میں شرکا کے ناموں کا اندراج کرنے میں مصروف تھے۔آج عجیب لگے گا لیکن اس وقت کے کراچی میں کچھ بھی عجیب نہیں تھا کہ نیپ کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے شرکاء کے لیے دوپہر کا کھانا کراچی کے اس وقت کے معروف سیاسی رہنما آزاد بن حیدر کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ (آزاد بن حیدر اردو بولنے والے مہاجر اور “کراچی صوبہ بنائو” کے اولین علمبرداروں سے تھے)۔ نیشنل عوامی پارٹی ابھی فقط پشتون جماعت نہیں بنی تھی بلکہ اس وقت کے ترقی پسند قوم پرستوں کی ملک گیر جماعت تھی۔ سبھی تھے اس جماعت میں ۔۔۔ محمود الحق عثمانی مہاجر تھے، سید محمد قسور گردیزی سرائیکی، رائو فرمان علی پنجابی مہاجر، اشرف واہلہ پنجابی۔ میر غوث بخش بزنجو بلوچ تھے اور خود جناب عبدالولی خان پشتون تھے۔ اس زمانے میں قومی شعور کوتعصب اور عدم برداشت کی دیمک لگی تھی نہ ہی بلند و بالاتر نسب والی بیماری۔ سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کے درمیان محبت واخوت کے مثالی رشتے دیکھنے میں آتے تھے۔پرئیل اور دو دوسرے دوستوں نے کہا چلو خان عبدالولی خان سے مل کر آتے ہیں۔ہم چاروں دوست عثمانی صاحب کے دفتر پہنچ گئے۔ دفتر کے بار بیٹھے نیپ کے کارکنوں نے ہم سے آمد کی وجہ دریافت کی۔ انہیں بتایا کہ ہم ولی خان سے ملنے آئے ہیں۔ ایک کارکن اندر گیا اور چند لمحوں کے بعد واپس آکر کہنے لگا، خان صاحب کہ رہے ہیں کہ 2 بجے آجائو۔ہم چاروں صدر کے ریگل بس سٹاپ پر قائم بک سٹالز پر آگئے۔ کتابوں اور رسالوں کے ورق الٹتے وقت گزارا، گھنٹہ بھر کے بعد دوبارہ عثمانی صاحب کے دفتر پہنچے۔ چند منٹوں کے انتظار کے بعد نیپ کے کارکن ہمیں دفتر کے اندر ایک کمرے میں لے گئے جہاں خان عبدالولی خان ، سید قسور گردیزی، یوسف مستی خان اور عثمانی صاحب کے علاوہ بھی چند لوگ موجود تھے۔ چھوٹے سے کمرے میں مزید کرسیوں کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ہم سب رہنمائوں سے مل کر قالین پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی ہم قالین پر بیٹھے، خان عبدالولی خان اپنی کرسی سے اٹھے اور قالین پر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ عثمانی صاحب نے کچھ کہا تو خان صاحب نے جواب دیا، میں ان کا بزرگ ہوں، آقا نہیں کہ صوفے پر بیٹھا رہوں اور بچے قالین پر بیٹھے رہیں۔ اس پر سارے بزرگ کرسیاں چھوڑ کر قالین پر تشریف فرما ہوگئے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ابتدائی تعارف میں جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم چاروں میں سے تین دوست ملازمت کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں تو انہوں نے ایک بار شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا اور بولے: “بچو دل لگا کر پڑھنا۔ علم وہ واحد چیز ہےجو آپ لوگوں کو جہالت کے ساتھ استحصالی قوتوں کی بالادستی سے نجات دلوانے کا باعث بنے گی۔” لگ بھگ آدھا گھنٹہ ہم ان بزرگوں کے ساتھ رہے، خوب باتیں ہوئیں۔ میں نے سید قسور گردیزی صاحب کو بتایا کہ میرا تعلق ملتان سے ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مجھ سے میرے والد اور خاندان کے بارے میں دریافت کیااور بہت دعائیں دیں۔ ہم رخصت ہونے لگے تو خان عبدالولی خان نے ہمیں بیس روپے دیتے ہوئے کہا، بچو آج شام کا کھانا میری طرف سے کھانا کیونکہ تم لوگ میرے مہمان ہو۔ اپنے دور کے قدآور قومی رہنمائوں کی وضع داری کا عالم یہ تھا کہ وہ ہمیں دفتر سے باہر سڑک تک چھوڑنے آئے۔ اب تلاش کیجیے “چراغ رخ زیبا لے کر”۔ کیسے مہان لوگ تھے۔

اسی کراچی کے لیاقت آباد میں کوثر مارکیٹ کی دوسری منزل پر سید علی کوثر زیدی کا دفتر تھا۔ علی کوثر زیدی، ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے مرکزی رہنما تھے۔ مادر ملت اور ایوب خان کے درمیان صدارتی انتخابات کے معرکے کے بعد لیاقت آباد میں جب صدر ایوب کے صاحبزادے کیپٹن گوہر ایوب خان کے غنڈوں نے ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی، اس کے بعد پھوٹنے والے ہنگاموں کے دوران کوثر مارکیٹ کو بھی آگ لگا دی گئی۔ خان عبدالولی خان کی قیادت میں جو پشتون جرگہ لیاقت آباد کے باسیوں کی دلجوئی کے لیے پہنچا تھا، اس کا بہت مثبت نتیجہ نکلا۔ سید علی کوثر زیدی سیاسی رہنما تو تھے لیکن ان کی شر ت دو باتوں سے تھی۔ اولاً وہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلسہ منعقد کرواتے تھے جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام خطاب کرتے۔ یہیں ہم نے جناب علامہ رشید ترابی، جناب علامہ سید یوسف بنوری، جناب علامہ محمد شفیع اوکاڑوی اور مولانا ابراہیم سلفی جیسے بلند پایہ خطیبوں کی تقاریر سنیں۔ ثانیاً ان کے ہاں 22 رجب کو نیاز ہوا کرتی تھی۔ اس نیاز میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی شریک ہوتے۔ یوں یہ ایک سالانہ سیاسی اجتماع کی صورت اختیار کر جاتا۔ نفیس صدیقی، علی مختیار رضوی، شہنشاہ حسین، جان عالم، شاہ تراب الحق، جے یو پی والے حاجی حنیف طیب (حاجی صاحب نے بعد ازاں نظام مصطفیٰ پارٹی بنائی تھی) رشید سومرو اور دیگر بہت سے نامور سیاسی رہنمائوں اور قانون دانوں سے یہاں ملاقات ہوجاتی۔ کیا زمانہ تھا اور لوگ۔زندگی سے بھرپور محفلیں۔

اسی 1970 کی دہائی میں نفیس صدیقی ایڈووکیٹ نے سول لبرٹیز ایسوسی ایشن بنائی۔ خالق دینا ہال میں اس کا کنونشن منعقد ہوا تھا۔ ہال کے باہر دور دور تک لوگ ہی لوگ تھے۔ پروفیسر غفور احمد، سردار شیر باز مزاری، شاہ فرید الحق، سراج درانی، نذیر عباس اور دوسرے بہت سارے مقررین نے اس کنونشن سے خطاب کیا۔ کنونشن کے اختتام پر لوگوں اور پولیس کے درمیان کچھ دیر کے لیے آنکھ مچولی بھی ہوئی، پھر حضرت مولانا محمد زکریا اور چند دوسرے بزرگوں کی مداخلت پر پولیس پیچھے ہٹ گئی اور کنونشن کے شرکاء پرامن انداز میں گھروں کو سدھارے۔

نفیس صدیقی ایڈووکیٹ کا دفتر صدر کراچی ہی میں واقع تھا۔ نوجوان ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور طالبعلموں کا ڈیرہ بنا رہتا۔ ابھی ملائیت کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولا تھا۔ اس لیے جہانگیر پارک کے باہر ایمپریس مارکیٹ سے ریگل کی طرف جانے والی سڑک دائیں طرف ایک عدد “بار” بھی موجود تھی۔ ساتھ ہی ایک آئس کریم پارلر بھی۔ دونوں مقام بحثیں اٹھانے والوں کے ٹھکانے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ صدر کے سامنے نوجوان سیاسی کارکن عمرسلیا کا غوثیہ ریسٹورنٹ بھی سیاسی کارکنوں کا ایک ٹھکانہ تھا۔ صدر کے علاقے میں ذائقہ دار اور سستے داموں پر کھانے کا مرکز۔ عمر سلیا مرحوم کے اللہ تعالیٰ درجات بلند کرے، ان کے ریسٹورینٹ میں طالبعلم اپنے تعلیمی ادارے کا کارڈ دکھا کر نصف قیمت پر کھانا کھا سکتے تھے۔ قومی آواز کراچی والے الیاس شاکر کا اس زمانے میں مستقل ٹھکانہ یہی تھا۔ وہ ان دنوں جنگ کے لیے کام کرتے تھے۔ الیاس شاکر اور عمر سلیا کی دوستی مثالی تھی۔ ان کی وجہ سے اخباری کارکنوں کو بھی اس ریسٹورینٹ میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ کے باہر پلائو والوں کی تین چار دکانیں تھیں۔ بڑے گوشت کے پلائو کی سنگل پلیٹ چار آنے میں ملتی تھی۔ ان دکانوں پر چھٹی کے اوقات میں اسی فیصد گاہک سکولوں اور کالجوں کے طلبا ہوتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو سردار شیر باز مزاری نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی۔ اس کا پہلا ورکر کنونشن کراچی میں ہوا۔ حکومت کے دبائو پر نجی ہالوں کے مالکان نے کنونشن کے انعقاد کے لیے ہالز دینے سے انکار کیا تو بلدیہ ٹائون نمبر تین میں حاجی شیر خان کے احاطہ میں یہ کنونشن منعقد ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حاجی شیر خان مرحوم نیپ کے نہیں بلکہ جمعیت علمائے پاکستان کے کارکن تھے اور آبائی طور پر پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نےبیگم نسیم ولی خان کے احترام میں اپنا احاطہ این ڈی پی والوں کو کنونشن منعقد کرنے کے لیے دے دیا۔ میں ان دنوں روزنامہ “اعلان” ہی میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ رپورٹر رہا۔ ایک دو پریس کانفرنسوں میں پریس کانفرنس فرمانے والے حضرات سے یہ کہہ دیا، “فلاں موقع پر تو آپ یہ کہتے تھے۔” استاد مکرم فضل ادیب صاحب تک شکایات پہنچیں تو انہوں نے ادارتی صفحے پر مامور کردیا۔ کیا سادہ اطوار اور وضع دار انسان تھے فضل ادیب صاحب۔ جس دن کارکردگی سے خوش ہوتے، دفتر کے نیچے نان چھولے والی رہڑی پر سے انعام میں کھانا کھلاتے۔ غلطی ہوتی تو سٹیل کا فٹا (فٹ) ہاتھوں پر مارتے ہوئے فرماتے، ” صاحبزادے، کوئی بات عقل شریف میں بھی رکھ لیا کرو۔”

1980 کی دہائی کے پہلے نصف تک کا کراچی زندگی، محبت، علم دوستی اور انسان پروری سے بھرپور شہر تھا۔ مجھ سے ہزاروں بے نوائوں کو اس شہر نے اپنے دامن میں پناہ دی، روزگار اورعلم کے مواقع فراہم کیے۔ زندگی سے بھرپور کراچی کی کرچیاں اپنے سینے میں پیوست محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی اچھی خبر آجائے تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ کراچی پھر سے کراچی کے طور پر آباد و شاد ہو اور ایک بار پھر سے بے نوائوں کی دستگیری کرنے والا شہر بنے۔ کاش ان دعائوں کی قبولیت اپنی زندگی میں دیکھ سکوں (آمین)۔

Advertisements
julia rana solicitors

(حیدر جاوید سید، آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک ایسا روشن نام ہیں جس نے تمام تر جبر کے باوجود ظلمت کو ضیا کہنے سے انکار کیا۔ آپکی جدوجہد نئی نسل کیلیے مشکل حالات میں رہنما ہے۔ آپ چونتیس کتابوں کے مصنف اور روزنامہ خبریں ملتان اور دستک کراچی سے وابستہ کالم نگار ہیں۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply