پاکستان کے بارے میں کچھ خوش آئند خبریں اور خوش کن مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان، جو گزشتہ برسوں میں عالمی تنہائی کا شکار تھا، اب اس تنہائی سے نکل رہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا اس کا مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان کے ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ انہوں نے نہایت عمدگی سے فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔یہ سننا بھی اچھا لگا کہ اقوام متحدہ کے آفیشل یو ٹیوب چینل پر ان کی تقریر سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اقوام متحدہ جیسے نہایت اہم عالمی پلیٹ فار م پر پاکستان کے نام کی مثبت گونج بہرحال ایک اچھی خبر ہے۔ کچھ دن پہلے ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم پاکستان تشریف لائے تھے۔بتایا جا رہا ہے کہ ملائیشیا اور پاکستان کے باہمی تعلقات اور تجارت کے ضمن میں یہ دورہ مثبت رہا۔ اس دورے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ہفتے سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح وفد بھی پاکستان کے دورے پر تھا۔سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبد العزیز کی قیادت میں آنے والے اس وفد میں سعودی عرب کی اہم کاروباری شخصیات شامل تھیں۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری گزشتہ مہینوں میں بھی پاکستان کے 2 دورے کر چکے ہیں۔ سعودی عرب یوں بھی پاکستان کا دوست ہے۔ اس نے ہر مشکل دور میں ہمیں سہارا دیا ہے۔ پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ تاہم کچھ عرصہ سے ہمارے باہمی تعلقات جمود کا شکار تھے۔ سعودی عرب کی کاروباری شخصیات پر مشتمل اعلیٰ سطح وفد کادورہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ کم و بیش پچاس کمپنیوں اورمختلف محکموں کے 129 اراکین نے تین روزہ دورے کے دوران مختلف ملاقاتیں کیں۔ اس دوران 2.2 ارب ڈالر کے 27 معاہدے طے پائے۔اب نومبر میں پاکستانی وفد بھی سعودی عرب کا دورہ کرے گا۔ یہ بات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم سعودی عرب سے قرض مانگنے اور امداد لینے کے بجائے کاروبار اور سرمایہ کاری پر بات چیت کر رہے ہیں۔
آج کل شنگھائی تعاون تنظیم کے پاکستان میں منعقد ہونے والے اجلاس کا چرچا ہے۔ اس اجلاس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ اجلاس کی اہمیت کا اندازہ کیجئے کہ چین اور روس جیسے اہم ممالک کے وزرائے اعظم اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ چین سے ہمارے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ اس دوست نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ عالمی سطح پر ہمارے مؤقف کو ہمیشہ چین کی حمایت حاصل رہی۔افسو س کہ گزشتہ دور حکومت میں چین کیساتھ ہمارے تعلقات میں سر د مہری آگئی تھی۔ اس کی ایک وجہ سی۔ پیک کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے پر پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ حکومت بدلی تو سی ۔ پیک کا منصوبہ بھی بحال ہوگیا۔ ہمارے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے ۔چین کے وزیر اعظم لی کیانگ کم و بیش گیارہ برس کے طویل وقفے کے بعد پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح روس کے سربراہ میخائل ولادیمیر ووچ مشہوسٹن کی آمد کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یوکرائن میں جاری جنگ کے تناظر میں بھی روس ایک اہم ملک ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداران پاکستان کا دورہ کریں گے اور اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس میں بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر بھی شرکت کریں گے۔2015 ء میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئی تھیں۔ اس دوران یہ وقت بھی آیا جب بھارتی وزیر اعظم ، پاکستانی وزیر اعظم کی کال کا جواب دینے سے بھی گریزاں رہے۔ جے شنکر کے آنے سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کی گنجائش کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم علامتی طو پر ان کی آمد ایک مثبت خبر ہے۔
اجلاس کی عالمی اور علاقائی سطح پر اہمیت سے قطع نظر، ان ممالک کے سربراہان اور ان کے وفود میں شامل اراکین سے اجلاس کی سائیڈ لائن پر جو ملاقاتیں ہوں گی ان سے تجارت اور سرمایہ کاری وغیرہ کے نئے در وا ہو سکتے ہیں۔یقینا حکومت پاکستا ن نے اس ضمن میں منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی۔ یوں بھی شہباز حکومت کی توجہ کامرکز و محو ر قومی معیشت ہے۔ حکومتی توجہ کے نمایاں اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ مہنگائی کا سنگل ڈیجٹ پر آجانا۔ سٹاک ایکس چینج میں مثبت رجحان، زر مبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ، پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کی اپ گریڈیشن وغیرہ اچھے اشاریے ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری وفد میں شامل شخصیات نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی معیشت میں آنے والا استحکام ایک مثبت خبر ہے جو پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے ایک اچھا مقام ثابت کر تا ہے۔ اس تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے بھی امید ہے کہ سرمایہ کاری کے امکانات سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر ہمارا ایک مثبت تاثر بھی اجاگر ہو گا۔
دوسری طرف قومی سیاست پر نگاہ ڈالیں۔ملائیشین وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا تو تحریک انصاف نے اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا قصد باندھ لیا۔حکومت کے منع کرنے کے باوجود احتجاج کو ملتوی کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اس وقت وزارت داخلہ کو اطلاعات تھیں کہ یہ جماعت چند سو مظاہرین کو ڈی چوک پر لا بٹھانا چاہتی ہے، تاکہ ایس۔ سی۔ او اجلاس میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ تحریک انصاف نے اس بات کی تردید کی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ وزارت داخلہ کا خدشہ اور اطلاعات درست تھیں۔ اس احتجاج کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف نے اعلان کیا ہے کہ یہ عین شنگھائی تعاون تنظیم کے انعقاد کے دن یعنی 15 اکتوبر کو دارلحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کرے گی۔ اس جماعت میں شامل مثبت سوچ کے حامل رہنماؤ ں کا خیال ہے کہ انہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ان کی قیادت مصر ہے کہ وہ اجلاس کے دوران ہی احتجاج کریں گے۔ یہ وہی سوچ ہے جو 2014ء میں تھی جب چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ اس جماعت کے احتجاج اور دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کو دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔ اربوں ڈالروں کے معاہدے تاخیر کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کا خمیازہ پاکستان اور اس کے عوام کو بھگتا پڑا تھا۔ اس سے قبل اس جماعت کے ترجمان یہ افسوسناک اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ بھارتی وزیر داخلہ کو اپنے احتجاج میں خطاب کے لئے بلائیں گے۔ اندازہ کیجئے کہ یہ کس قدر منفی سوچ اور سیاست ہے۔ اس بات بھی ضروری ہے کہ گزشتہ دنوں جب وفاقی حکومت نے فلسطین میں ہونے والے مظالم کے تناظر میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔
اس جماعت نے فلسطین کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔2016ء میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم عروج پر تھے۔ کشمیری حریت رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ کا ایک جوائنٹ سیشن بلایا گیا تھا، تاکہ کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیا جائے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس جوائنٹ سیشن سے خطاب کرنا تھا۔ اس سیاسی جماعت نے اس وقت بھی اس اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔
جب آپ مثبت سرگرمیوں کا تو بائیکاٹ کریں لیکن دنگا فساد پر آمادہ رہیں، اس طرز سیاست کا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ آپ لاکھوں ڈالر خرچ کر کے امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کے خلاف قراد داد منظور کرواتے ہیں۔ عالمی ادارے آئی ۔ ایم۔ ایف کو اپنی صوبائی حکومت کی طرف سے خط لکھواتے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے۔ آپ اقوام متحدہ کے باہر پاکستانی وزیر اعظم کے خلاف نعرے بازی کرکے بھارتی لابی کو خوش کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ احتجاج کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی کرواتے ہیں۔ اوراب اہم ممالک کے سربراہان کے آنے پر آپ ایک مرتبہ پھر فساد کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے اندر آپ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف جو بھی فساد مچائیں، اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی کو بھی عالمی سطح پر پاکستان کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس سیاسی جماعت کے پیروکاروں کواور اس کے سنجیدہ سیاست دانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ سیاست کر رہے ہیں یا ملک دشمنی۔
بشکریہ نئی بات
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں