• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بڑا پاکستان اور چھوٹے پاکستا نی۔ صاحبزادہ محمد امانت رسول

بڑا پاکستان اور چھوٹے پاکستا نی۔ صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہر شخص اپنے معاشرہ ،ملک اورماحو ل کو ترک کرسکتاہے لیکن اپنے روایتی اورسیاسی کلچر کو ایک دن میں نہیں چھوڑ سکتا ،اگر وہ تنقیدی انداز ِفکر سے بالکل محروم ہے اورتعلیم کی دولت سے بھی ، تو پھر اس کے امکانات اوربھی کم ہوجاتے ہیں۔وہ شخص جس نے اپنے ملک کی معاشرت ، معیشت اورسیاست کے ماحول میں کئی سال گزارے اور پختہ ذہنیت کے ساتھ کسی اور ملک میں جا بسا ، اب اس کے رجحانات اور رویے ظاہر کریں گے کہ اس نے اپنے ملک سے کیا تعلیم وتربیت پائی ہے ،اس طرح ہر شخص اپنے ملک کا نمائندہ اورسفیر ہے ۔کوئی قوم بھی اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اسے اپنے آپ پر تنقید کی عادت نہ ہو ۔اسلامی تعلیمات کا پہلا سبق بھی یہی ہے ،خود تنقیدی احساس ِندامت پیدا کرتی ہے اور احساسِ ندامت سے ہی” توبہ“نصیب ہوتی ہے ۔

1947ءسے لے کر اب تک ہمیں سیاسی زوال ،معاشرتی انتشار اورمذہبی طرز فکر کا تحلیلی اورتنقیدی جائزہ لینا چاہیے، جس نے فقط پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے انداز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے ۔
میرے ایک عزیز دوست کا کہنا ہے کہ یورپ میں جہاں جہاں پاکستانی رہ رہے ہیں وہاں وہاں ایک منی پاکستان (Mini Pakistan)ہے ۔چھوٹے پاکستان کو وسیع کرتے جائیں ،وہ بڑا پاکستان بن جائے گا۔جو کچھ چھوٹے پاکستان میں ہورہا ہے ،وہی کچھ بڑے پاکستان میں بھی ہورہا ہے ۔ اگر یہاں سیاسی جماعتیں ہیں وہاں بھی سیاسی جماعتیں ہیں،اگر یہاں فرقہ واریت ہے تو وہاں بھی فرقہ واریت ہے ،اگر یہاں کم ذات اور اعلی ذات کے لوگ ہیں تو وہاں بھی کم ذات اوراعلی ذات کے لوگ ہیں، اگر یہاں جہالت ہے تو وہاں بھی جہالت ہے، اگر یہاں لوگوں میں مطالعہ کا شوق نہیں، تو وہاں بھی مطالعہ کاشوق رکھنے والے کم ہیں، اگر یہاں تعویز گنڈے چلتے ہیں، تو وہاں بھی چلتے ہیں۔ اگر لیڈر یہاں ہیں تو لیڈری چمکانے والے وہاں بھی ہیں، اگر یہاں قوم تقسیم ہے تو وہاں بھی تقسیم ہے، اگر یہاں میڈیا کردار کشی کے لیے استعمال ہوتاہے تو وہاں بھی ایک دوسرے کی کردار کشی کے لیے میڈیااستعمال کیا جاتاہے، اگر یہاں رمضان المبارک اورعیدین کے چاند کی رویت پر اختلاف ہے تو وہاں بھی پاکستانی اختلاف کا شکارہیں ، اگریہاں اہم ملکی معاملات پر قوم متفق نہیں تو وہاں بھی اتفاق واتحاد دور دور تک نظر نہیں آتا، اگر یہاں لوگوں میں برداشت نہیں تو وہاں بھی برداشت کی کمی نظر آتی ہے، اگر یہاں مذہبی طبقہ جدید تعلیم سے محروم نظر آتاہے وہاں بھی مذہبی طبقہ اسی حالت میں قوم کی راہنمائی کررہاہے۔

تخلیق پاکستان سے لے کر اب تک بیرون ممالک میں سکونت پذیر ہونے والے پاکستانیوں کی اکثریت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھی جنہیں تعلیم ،صحت اور روز گار جیسی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں تھیں۔پاکستان کی معاشی اورسیاسی صورتِ حال نے لوگوں کو بیرون ممالک جانے اور جانے والوں کو وہاں قیام کرنے پر مجبور کیا۔ تارکین وطن نے یورپ ،امریکہ اورکینیڈا کے علاوہ دوسرے ممالک میں دن رات مزدوری کی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ معاشی حوالے سے مضبوط ہوتے چلے گئے ۔کسی نے کاروبار کیا اورکسی نے فیکڑی میں کام کیا ،کوئی ٹیکسی چلاتا رہا او ر کوئی شراب بیچتارہا، کسی نے حکومت سے فراڈ کیا اور کسی نے ایمانداری اور شرافت کاسبق یاد رکھا، الغرض ہر پاکستانی نے اپنی عقل یا نقل سے دولت کمائی ۔لیکن ایک کمی رہ گئی اوروہ کمی تعلیم کی ہے پہلی نسل میں تعلیم کی کمی اس لیے رہ گئی کہ وہ تعلیم کے لیے یورپ یا کسی اورملک میں نہیں گئی تھی ۔اس کا مقصد اپنی اور اپنے خاندان کی غربت کو ختم کرنا تھا اور اس نے غربت ختم کردی ۔ادھر وہ محنت مزدوری کرتے رہے اورادھر پاکستان میں معاشی ،معاشرتی ،مذہبی اورسیاسی سفر جاری رہا ۔پہلے ان ملکوں کی کرنسی پاکستانی کرنسی سے کمزور تھی، اب پاکستانی کرنسی ان کی کرنسی سے بہت نیچے ہے ۔پہلے ملکی اداروں کا کسی حد تک وقار تھا ، جو اب کہیں نظر نہیں آتا ۔اس وقت اسمبلیاں ایک بار بھی نہیں ٹوٹی تھیں اور اب کئی بار ٹو ٹ چکی ہیں ۔پہلے دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں تھا ،اب آئے دن غریب عوام دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں ۔پہلے امام بارگاہوں اورمساجد میں بم نہیں پھٹتے تھے ، اب بموں کا پھٹنا معمول بن چکاہے ۔

30,25سال قبل پاکستان چھوڑ کر جانے والے لوگوں نے یورپ میں دو کام خوب کیے ہیں ۔ پہلاکام مساجد کی تعمیر اوردوسراکام سیاسی جماعتوں کی تشکیل۔۔۔ . چونکہ تعلیم کی کمی کے باعث وہ اس معاشرے میں کوئی موثر کردار اداکرنے سے قاصر تھے ،لہذا انہوں نے ان دوکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،پاکستان اورپاکستانی کمیونٹی کی خوب خدمت کی ۔جب مساجد وجود میں آئیں توان کی انتظامیہ بنی اور پھر اس انتظامیہ میں صدر ،نائب صدر اورجنرل سیکرٹری منتحب ہوئے ۔ان کے انتخاب کے بعد اپوزیشن وجود میں آگئی اورجوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔مسجد انتظامیہ کے اجلاس کا ماحول قومی اسمبلی کے ماحول سے قطعاً جدا نہیں ہوتا ،جیسے یہاں ڈیسک بجائے جاتے ہیں ویسے وہاں بھی کسی کی بات نہیں سنی جاتی ،جیسے یہاں نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، وہاں بھی نازیبا گفتگو کی جاتی ہے ،جیسے یہاں اسمبلی توڑ دی جاتی ہے ،ویسے ہی وہاں انتظامیہ توڑ دی جاتی ہے جیسے یہاں معاملہ حد سے بڑھے تو مارشل لاءلگادیا جاتاہے ،ویسے وہاں مسجد کو تالا لگا دیا جاتا ہے ۔

سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ جس فرقہ وارانہ سوچ نے پاکستان کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے ،ہم اسی سوچ کو وہاں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔پاکستان سے جانے والا امام ،خطیب اورعالم اس ملک کی زبان سے ناواقف ہوتاہے ۔اس معاشرے کے جدید رجحانات سے لاعلم ہوتاہے ۔سائنسی تعلیم ،معاشی اورسیاسی حوالے سے ترقی یافتہ معاشرے میں اس عالم کا انداز فکر بالکل دقیانوسی اور قدامت پسندانہ ہوتا ہے ۔کجا یہ کہ وہ کسی غیر مسلم کو متاثر کرے ، اس کا اندازِ گفتگو اور طرزِ فکر مسلم نوجوانوں کی فکری تسکین کا باعث بھی نہیں بنتی۔

یورپ میں رہنےوالے ایک سادہ لوح ،لیکن باشعور پاکستانی کا کہنا ہے :”میں نے 11ستمبر 2001ءکے بعد سی این این ،بی بی سی اوردوسرے یورپین چینلز دیکھنا شروع کیے ہیں ،میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ ہمیں ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے جس سمت سفر کرناچاہیے ،ہم اس طرف سفر نہیں کررہے ۔ ہماراکوئی کام بھی ایسا نہیں ،جس کے باعث ہم مستقبل میں امریکہ اوریورپ کے مقابل کھڑے ہوسکیں “۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے ،جسے آج شاید ہم ماننے کے لیے تیار نہ ہوں ،لیکن کل بہر صورت ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی ۔
مساجد کی انتظامیہ کی طرح سیاسی جماعتیں بھی انتشار وافتراق کا شکار رہتی ہیں ،بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب صورت حال ہے ۔کئی ممالک میں ایک ہی سیاسی جماعت کے ماتحت دودو گروپ کام کررہے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کادعوی ہے کہ اسے اپنے لیڈر کی حمایت حاصل ہے ،اگر دونوں گروپ کسی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں ،وہاں ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی ہے ۔اکثر پاکستان ڈے پر سفارت خانہ میں منعقد ہ تقریب بدمزگی کا شکار ہوجاتی ہے ،اگر سفیر پاکستان دونوں دھڑوں میں سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں تو دونوں ان کے مخالف ہوکر عدم اعتماد کی وہ تحریک چلاتے ہیں کہ بس رہے اللہ کانام۔۔۔ ہفت روزہ ،پندرہ روزہ اورماہوار اخبار وجرائد میں سفیر پاکستان کا خاندانی پس منظر ،عقیدہ ، نظریات اورقابلیت کو تنقید کا نشانہ بناکر لوگوں کو گفتگو اور بحث کے لیے ایک ایشودے کر حکومت پاکستان کو تاثر دیاجاتاہے کہ ان کی غیر جانبداری مشکوک ہوچکی ہے، وہ اپنے فرائض ادا کرنے کے اہل نہیں رہے ،لہذا انہیں واپس بلالیا جائے ۔اس طرح یہ گروپ اپنے نفس کی تسکین کا اہتمام کرتے ہیں ۔

یورپ میں ایک بات خاص طورپر دیکھنے میں آتی ہے اوروہ عہدے اورمنصب کی خواہش ہے اوراس کے حصول کے بعد فخر وافتخار کا احساس ۔ یہ خواہش اور احساس یکدم کسی شخص کے دل میں پیدا نہیں ہوتا ۔یہ بھی معاشرے کے کرتا دھرتا افراد کے کردار کا ہی عکس ہوتاہے ، جوعام شخص کی خواہش اورتمنا بن جاتاہے ۔ہم شروع سے دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں دولت مند اورمنصب دار کی ہرکوئی عزت کرتاہے ان دوکی بڑی اہمیت ہے ،ایسے شخص کی عزت کوئی نہ بھی کرے تووہ زبردستی عزت کروا لیتاہے ۔بس یہی جھلک ہمیں بیرون ممالک میں سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں میں بھی نظر آتی ہے ،اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے عہدیدارسے نام پوچھیں تو وہ نام بعدمیں اورعہدہ پہلے بتائے گا،اپنے اپنے گھر وں میں فون کرکے ،رشتہ داروں کو بتائیں گے کہ میں فلاں سیاسی جماعت کا صدر بن گیا ہوں ،بلکہ بعض مواقع پر بڑی بڑی دعوتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں،جیسے پاکستان میں الیکشن کے بعد جیتنے والاامیدوار دعوتوں کا اہتمام کرتاہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض دانشور حضرات کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا وجود ختم کر دیا جائے تاکہ اوورسیز پاکستانی مل جل کر پاکستان کی خدمت کریں۔میرے نزدیک بیرونی ممالک میں پاکستانیوں کے درمیان انتشار وافتراق کے خاتمے کا یہ علاج مستقل اوردیر پا نہیں ،کیونکہ انتشار کسی نہ کسی شکل میں پھر بھی موجود رہے گا ۔جماعتیں نہ رہیں گی،لیکن وابستگیاں قائم رہیں گی ،سیاسی جماعتیں نہ ہوں گی تو مذہبی جماعتیں ان کی کمی پوری کردیں گی مذہبی جماعتیں نہ ہوں گی تو ذات پات کی دیواریں پاکستانیت کی راہ میں کھڑی ہوجائیں گی ،بہر حال انتشار باقی رہے گا۔
میرے نزدیک مستقل علاج یہ ہے کہ بڑے پاکستان کو بدلا جائے ،اس کے سیاسی کلچر کو بدلاجائے ،اس میں پروان چڑھنے والے منفی رویوں کو بدلاجائے اوراس تبدیلی کے لیے دو کام کیے جائیں ، حکومت تعلیم عام کرے اوردانشوران ِقوم شعور وآگہی عام کریں۔ یقین کیجئے جس دن بڑا پاکستان بدل گیا ،اسی دن چھوٹے پاکستان (Mini Pakistan)بھی بدل جائیں گے ۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply