• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کالے کوٹ کو کالے اعمال کی علامت نہ بنائیے۔۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

کالے کوٹ کو کالے اعمال کی علامت نہ بنائیے۔۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

بہت رنج پہنچا ہے ۔۔۔
اور دل بہت دکھا ہوا ہے ۔۔
ماڈل کورٹوں کے خلاف وکیلوں کے احتجاج نے میرے صبر کو سفاکی کی کھردری دیوار  پہ   دے مارا ہے
اور اسی لیئے میں بہت کچھ ایسا کہنے والا ہوں کہ جسے سننے کے  لیے آپکو بھی بڑی ہمت کرنی پڑے گی کیونکہ ایسا آپ نے شاید پہلے کبھی سنا نہ ہو لیکن اسکے باوجود یہ سب احساس آپکے اندر ہی کہیں گونجتا ضرور ہے ۔۔۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ ایل ایل بی کی ڈگری پانے کے باوجود اور آئین و قانون کے شدید احترام کے باوصف میں قانون کو پیشہ بنانے کے لیئے اسی لیئے گریزاں رہا ہوں کیونکہ میں یہاں پہ ایماندار وکیلوں کی حالت زار سے واقف ہوں لیکن ان میں سے بیشتر کو قابل رحم اس لیئے نہیں سمجھتا کیونک وہ اپنے ہم پیشہ افراد کے بنائے اس استحصالی و طاغوتی نظام کے خلاف کھڑا ہونا تو دور صرف بولنے کی سکت بھی نہیں رکھتے –

مجھے کہنے دیجیئے کہ سب تو نہیں ، لیکن اس وقت زیادہ تر بلکہ وکیلوں کی بہت بڑی اکثریت کا کردار نہایت گھناؤنا ہے۔۔ میڈیا والے کچے کے ڈاکوؤں کو تو آئے دن بہت روتے ہیں لیکن پکے کے ان ڈاکوؤں کے بارے میں کچھ کہتے اور لکھتےانہیں موت پڑتی ہے ۔۔۔ درحقیقت اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کالے کوٹ پہنے ان قانونی لفنگوں میں اکثریت انکی کی ہے جو کہ دنیا کے سب سے غلیظ ، لالچی اور مکار لوگ ہیں اور جنکی مونچھوں ٹائیوں اور سوٹوں پہ نجانے کتنےغریب مدعیوں اور مظلوموں کا خون لگا ہوا ہے اور جنکے سامنے فرعون اور ہٹلر کی سفاکی بھی ہیچ ہے کیونکہ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی ہوس میں اپنے مدعی کو طرح طرح سے تنگ کرتے ہیں اور اس کی سب جمع پونجی ہڑپ کرلینے کے لیئے بدترین ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں جن میں جان بوجھ کے مقدمے کو لٹکائے رکھنے کے گھناؤنے حربے سب سے عام اور نمایاں مثال ہیں اور اس سلسلے میں کسی غریب سائل کو اپنا مکان تک بیچنے پہ مجبور کرنے اور سڑک پہ لاکھڑا کرنے میں انہیں ذرا رحم نہیں آتا

مجھے آج تک سندھ ہائیکورٹ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ منظر نہیں بھولتا کہ جب وہاں برسرعام ایک بڑی شان و شوکت والے نامی گرامی وکیل کے منہ پہ اسکے کلائینٹ نے تھپڑوں کی بارش کردی تھی اور اسے دھر دبوچ کے اور زمین پہ گرا کے پھینکا تھااور لوگوں کے بچاتے بچاتے بھی بیشمار لاتیں اور ٹھڈے ماردیئے تھے ( ان دنوں میں وہاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے اسسٹنٹ کمشنر کے نتائج میں گھپلے کرکے اپنے سمیت کئی افراد کو ناکام کرنے کے اقدام کے خلاف وہاں ان متاثرین کا مقدمہ لڑ رہا تھا ) ۔۔ جب اس مارپیٹ کے بعد سائل سے اس ‘حسن سلوک ‘ کی وجہ دریافت کی گئی تو جو کچھ اس نے بتایا وہ سن کے میں تھرا اٹھا ۔۔۔ کیونکہ اس نے بتایا کہ اس وکیل نے میرے مقدمے کو مختلف بہانوں سے اس قدر کئی برس تک اتنا طول دیا کہ مقدمہ لڑتے لڑتے میری زمین جائیداد سب بک گئی لیکن آج جب میں کورٹ آیا تو میں نے دور سے دیکھ لیا کہ یہ اوپر گیلری میں مخالف وکیل کے ساتھ کھڑا پراسرار انداز میں باتیں کررہا ہے تو میرا ماتھا ٹھنکا اور میں چپکےچپکے دبے قدموں آکے اسکے قریب ہی ایک بڑے ستون کی اوٹ میں کھڑا ہوگیا اور اسکی کچھ باتیں سن لیں جس میں وہ مخالف وکیل کو میرا نام لے کے یہ کہہ رہا تھا کہ آج بھی اس پاگل کی پیشی ہے تم بس ڈٹے رہو اور دیکھو تو سہی ابھی اسکے پاس جو مکان رہ گیا ہے میں اسے بھی کیسے بکواتا ہوں ۔۔۔

یہ ایک وکیل کی بات نہیں ، زیادہ تر ہی ایسے ہیں کہ جو لباس تو قانون کا پہنتے ہیں لیکن عملاً اسکے چیتھڑے اڑاتے ہیں اور انصاف کا خون کرنے میں کسی قاتل سے اور دہشتگرد سے ہرگز کم نہیں ہیں اور یہ وہ ہیں جو بڑی بے شرمی سے قانون کی دیوی کو دھن دولت کے کوٹھے پہ نچا رہے ہیں اور ان میں بہت کم ایسے ہیں ( لیکن چند ایک پھر بھی ہیں اور یقیناً ہیں ) جو کسی درجے میں خدا خوفی رکھتے ہیں ۔۔۔ ایسے آسیب صفت وکیلوں کی اس لالچی ذہنیت کی اک جھلک ہمیں اس قانونی مدد کے اس ادارے کی بندش میں بھی ملتی ہے کہ جو چند برس قبل ایک نہایت نیک نام اور خداترس وکیل اور سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد نے کورٹ کے احاطے میں قائم کیا تھا کہ جہاں غریب اور لاچار سائلین کو مفت قانونی مدد فراہم کی جاتی تھی لیکن کچھ ہی عرصے میں وکلاء نے اس ادارے کو بند کرنے کے لیئے شدید احتجاج شروع کردیا تھا یہاں تک کہ اک روز اس دفتر پہ دھاوا بول دیا تھا اور انہوں نے   بمشکل بھاگ کے اپنی جان بچائی تھی۔

افسوس کی بات مگر یہ ہے میڈیا ہو یا حکومت ، کوئی بھی ان بلاؤں کا مکو نہیں ٹھپ سکا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ چونکہ اہل صحافت کی بھی بڑی تعداد اب اہل تجارت میں میں بدل چکی ہے چنانچہ وہ اب اپنے مالی مفادات کے لیئے اس آسیب سے گٹھ جوڑ ہی میں اپنی بہتری سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف لکھنے کا تصؤر ہی نہیں کرسکتے لیکن میں تو لکھوں گا اور ضرور لکھوں گا اور مجھے کسی بھی نتیجے  کی ہرگز پرواہ نہیں کیونکہ میں کھلی آنکھوں سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ 2007 میں چلی وکلاء تحریک کو بدنام کرنے والے یہ لوگ اب اس سے حاصل کردہ قؤت کو بلیک میلنگ کے لیئے استعمال کررہے ہیں اور اب جبکہ ماڈل کورٹوں کے قیام کا احسن منصوبہ سامنے آیا ہے تو وہ اسی لالچی ذہنیت کے تحت اپنی لوٹ مار کو خطرے میں دیکھ کے اسکے خلاف زبردست شور و غوغا کررہے ہیں کیونکہ وہ ان ماڈل کورٹوں سے عوام کو سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کسی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ۔۔۔ انہیں اس منصوبے سے اپنی تجوریاں ، عالیشان بنگلے اور لگژری گاڑیاں شدید خطرے میں پڑتے معلوم ہورہے ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن یہ ظالم یہ جان لیں کہ اب عوام اس احتجاج کو ایک طبقاتی جنگ تصور کررہے ہیں اور قانون کی آڑ میں ظلم اور استحصال کے محافظ یہ بدطینت لوگ اس تاریخی حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ کرہء ارض پہ جب بھی کبھی طبقاتی جنگ لڑی گئی ہے ظالموں کو پھر کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل سکی ہے !! ۔۔۔ لکھ رکھیئے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔۔۔ اور اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ دیر تو لگ سکتی ہے لیکن تاریخ کے اس اصول اور سبق کو یہاں دہرائے جانے سے کون روک سکتا ہے اور بھلا کیسے روک سکتا ہے ۔۔۔؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply