ہر طرف لوہے کے پہاڑ جیسی فوجی گاڑیاں، ان پر سوار اسلحہ سے لیس فوجی، فضا میں ہیلی کاپٹرز کی گھن گرج، شہریوں کے چہروں پر سوالات ہی سوالات اور ایک عمومی بے یقینی کی صورتحال کسی تیسری دنیا کے ملک کے دارالحکومت کی صورتحال نہیں بلکہ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا مرکز حکومت ہے۔ وہی شہر جہاں دنیا بھر کے غریب ممالک کی قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں، یہیں جنگیں مسلط کرنے اور اقوام کی لوٹ کھسوٹ کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ امریکہ کی آزادی کی تحریک چلانے والوں نے جمہوریت کو اس ملک کی ایک بنیادی قدر قرار دیا اور اس کے تحفظ کے لیے عوامی سطح پر اسلحہ کے حق کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ یہی اسلحہ کا حق اب جمہوریت کے پروسس کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
اس وقت امریکی دارالحکومت کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں پچیس ہزار نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ نیشنل گارڈز کے ایک ترجمان کے مطابق ہم آئینی ذمہ داری نبھانے کے لیے آئے ہیں۔ ایف بی آئی نے حملوں کے خطرے کا الرٹ جاری کیا ہے۔ اس کے بعد دارالحکومت کے مین علاقوں پنسلوانیا ایونیو، وائٹ ہاوس، کیپٹلز بلڈنگ کے گرد آٹھ فٹ اونچی خاردار تار لگائی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وائٹ ہاوس کو قید کر دیا گیا ہو، اس تار کے لگنے سے یہ اہم ترین علاقہ مکمل طور پر سکیورٹی محاصرے میں چلا گیا ہے۔ صرف کیپٹل کی ہی یہ صورتحال نہیں ہے بلکہ تمام ریاستوں کی کیپیٹل بلڈنگز پر سکیورٹی ہائی الرٹ ہے، واشنگٹن کی مشہور مانومنٹ کو بھی کئی دنوں سے بند کر دیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں ہر کارنر پر فوج کھڑی ہے، ہر طرف فوجی گاڑیاں گھوم رہی ہیں، ہیلی کاپٹرز فضا میں اڑ رہے ہیں، ہر بندے کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ جانے کل کیا ہو جائے؟ چند سال بلکہ چند ماہ پہلے تک امریکی دارالحکومت کے بارے میں ایسا سوچنا بھی مشکل تھا۔ یہ حالات امریکہ میں موجود گہری سیاسی، نظریاتی، نسلی اور طبقاتی تقسیم کے عکاس ہیں۔ چھ جنوری کو امریکی دارالحکومت نے جو صورتحال دیکھی، اب امریکی فورسز کو شائد مدت کے بعد اس اندرونی امریکی خطرے سے نمٹنا پڑے گا۔ یہ خطرہ ٹرمپ کے شدید سپورٹرز، سفید فام برتری کے حامل گروپس، دائیں بازو کے نظریاتی گروپس، پراوڈ بوائز، نازی سمبلز گروپ اور نسلی برتری کے حامل گروپس سے ہے۔ ایک اہم خطرہ سکیورٹی فورسز کے درمیان موجود کچھ ہارڈ لائنرز سے بھی ہے کہ وہ کہیں امریکی صدر کو منتقلی اقتدار کے وقت کسی منفی سرگرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔
یہ امریکہ کے چھیالیسویں صدر نے حلف اٹھانا ہے، جس کی روایتی تقریب انتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک ٹی وی کی خاتون نمائندہ نے درست کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دارالحکومت ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں انتقال اقتدار پرامن نہیں ہوتا۔ ادشاہتوں میں تو خیر قتل و غارت یا انتقال سے ہی اقتدار اگلی نسل کو منتقل ہوتا ہے۔ جہاں جہاں جمہوریتیں قائم ہیں، وہاں یہ بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے کہ اقتدار کو کس طرح پرامن انداز میں نئی منتخب انتظامیہ کے حوالے کیا جائے؟ ہارنے والی جماعت شکست تسلیم نہیں کرتی اور جیتنے والی جماعت میں بھی جیت کی بجائے بدلہ والا پہلو غالب ہوتا ہے، اس لیے پرتشدد ہجوم شہروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ ان ہنگاموں میں جہاں املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، وہیں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔
خیر یہ تو سب چیزیں تھرڈ ورلڈ کا خاصہ ہیں، مغربی دنیا کا امتیاز یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ وہاں انہوں نے انتقال اقتدار کے نظام کو سمجھ لیا ہے۔ اب وہاں انتقال اقتدار معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ الیکشن بھی ہنگامہ خیز قسم کی کوئی چیز نہیں رہے، جو امن و امان کا مسئلہ بنیں۔ انہوں نے تو یہ تک طے کر لیا کہ اگر ملک کا کوئی حصہ الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ کار یہ ہوگا، اس پر عملدرآمد سے وہ الگ ملک کی صورت اختیار کر جائے گا۔ امریکی معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کی موجودہ لہر نئی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ طاقت کے زور پر معاشرتی برابری نہیں دی جا سکتی، اس کے لیے رویئے تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔ غلامی کا خاتمہ بہت اچھی بات ہے، مگر اس وقت کی امریکی معاشرتی ساخت کا تھوڑا سا مطالعہ بھی اس بات کے دریچے کھول دیتا ہے کہ یہ دراصل ایک نظریاتی جنگ تھی، جو نظریات سے زیادہ طاقت کے زور پر لڑی گئی۔
قانونی طور پر غلامی ختم کر دی گئی اور افریقن امریکن آزاد ہوگئے مگر ان کے حوالے سے موجود معاشرتی مسائل کو حل نہیں کیا گیا۔ سفید فام برتری کا تصور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا رہا اور وہ ریاستیں جو غلامی کی حامی تھیں، وہاں آج بھی عمومی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ غلامی کا خاتمہ اور افریقن امریکن کے حقوق کی برابری کی بات درست نہیں ہیں۔ کسی دور میں چار افریقن امریکنز کا ووٹ ایک گورے کے برابر ہوتا تھا۔ اسی طرح سفید فام انتہاء پسند افریقن امریکنز کو اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں، جسے طاقت کے زور پر ان سے چھین لیا گیا۔ سول رائٹس کی امریکی مومنٹ دنیا بھر میں معروف ہے اور جامعات میں پڑھائی جاتی ہے، یہ وہاں کی افریقن امریکن کی جدوجہد مسلسل کی علامت ہے، جس نے صدیوں کی غلاموں کے بعد آزادی کی سانس لی۔
امریکی انتہاء پسند سفید فام کے لیے یہ قطعاً قابل قبول نہیں تھا کہ ایک کالا باراک اوبامہ اگرچہ ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو، امریکہ کا صدر بن جائے۔ اس کا جواب انہوں نے ٹرمپ کے انتخاب کی صورت میں دیا۔ ہمیشہ کی طرح جاتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ نئے صدر کی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔ امریکہ کی یہ روایت بھی ٹوٹنے جا رہی ہے۔ اٹھارہ سو اکسٹھ میں ایک بار کسی صدر نے اگلے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی اور اب ٹرمپ ایسے کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکی معاشرے میں سیاسی انتہاء پسندی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور روایات کو توڑا جا رہا ہے۔ اس کے نتائج یقیناً امریکی معاشرے کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں