نازیبا کلمات۔۔۔مرزا مدثر نواز

جب سے تعلیم کے شعبے نے ایک کامیاب و نفع بخش کاروبار کی شکل اختیار کی ہے‘ علم کی اصل روح ماند پڑ چکی ہے۔ تعلیم حیوانیت سے انسانیت تک کے سفر کا نام ہے‘ تعلیم کا بنیادی مقصد شخصیت میں وہ نکھار ہے جو کسی تعلیم یافتہ کو ایک جاہل سے جدا کرتا ہے لیکن آج صرف اور صرف نصابی مندرجات میں رہتے ہوئے رٹا سسٹم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہے‘ کسی کا بیٹا یا بیٹی شراب پیے‘ کسی بھی قسم کا نشہ کرے‘ اساتذہ و بزرگان سے بد تمیزی سے پیش آئے‘ غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہو‘ کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل نہیں کیے تو اساتذہ سے باز پرس ہو سکتی ہے‘ ہماری سوچ دو دہائیوں کے اندر کتنی زیادہ تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ ماضی میں جب کوئی طالب علم کسی کو صلواتیں سناتا تھا یا برے انداز سے پیش آتا تھا تو اسے یہی سننے کو ملتا تھا کہ یہی سکھایا جاتا ہے تمہیں سکول میں‘ تمہارے تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد جب تمہیں کسی بڑے سے بات کرنے کا سلیقہ ہی نہیں؟ میں تمہارے استاد سے بات کرتا ہوں کہ یہی سکھاتے ہیں تمہیں سکول میں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ذہن میں تعلیم کا تصور اعلیٰ اخلاق کا حصول‘ رہن سہن‘ چال چلن‘ بول چال‘ انداز گفتگو میں تبدیلی و نفاست تھا لیکن موجودہ تعلیم یافتہ نسل دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کون سے راستے کی طرف گامزن ہے ۔

آج کے جدید معاشرے میں جہاں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے وہیں ہم اخلاقی طور پر پستی کی طرف گامزن ہیں‘ بہت سی دوسری برائیوں کے ساتھ ساتھ فحش گوئی بھی اخلاقیات   حدیں عبور کررہی ہے۔فحش گوئی کی مختلف قسمیں ہیں‘ ایک تو قوت شہوانیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے مرتکب زیادہ تر رند‘ بے باک نوجوان اور بے تکلف دوست و احباب ہوتے ہیں‘ مثلاََ جب اس قسم کی بے تکلفانہ اور رندانہ صحبتیں قائم ہوتی ہیں تو عورتوں کے حسن و جمال کا ذکر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں اس قسم کے حالات و واقعات بیان کئے جاتے ہیں جو بعض اوقات شرمناک حد تک پہنچ جاتے ہیں۔

فحش گوئی کی دوسری قسم کا تعلق قوت غضبیہ سے ہے جس کا نام سب و شتم یا گالی گلوچ ہے اور یہ صورت عموماََ جنگ و جدل کے موقع پر پیش آتی ہے۔گالی گلوچ کی مختلف صورتیں ہیں‘ بعض اوقات انسان ایک شخص کے ماں باپ کو برا بھلا کہتا ہے‘ اس کے نسب میں عیب نکالتا ہے‘ کبھی خود اس شخص کے عیوب ظاہر کرتا ہے‘ یہاں تک کہ اگر وہ کسی نفرت انگیز مرض میں مبتلا ہو تو اس پر بھی طنز کرتا ہے‘ بعض حالتوں میں اگر اس نے کوئی برا کام کیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی برا برتاؤ کیا گیا ہے تو اس کا اظہار کرتا ہے۔

اسلام نے اپنے پیروکاروں کو بد زبانی سے بچنے کے حکم و مصالح نہایت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ ‘ فخر کائناتﷺ نے ایسے فرمایا کہ ’’ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ پر لعنت بھیجے‘ کہا گیا کہ یا رسول اللہ کوئی اپنے ماں باپ پر کیونکر لعنت بھیج سکتا ہے؟ فرمایا‘ اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کے باپ ماں دونوں کو برا بھلا کہے گا‘‘۔ ایک آدمی رسول اللہ سے ملنے آیا‘ آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اپنے قبیلہ میں یہ نہایت برا آدمی ہے‘ لیکن جب وہ آپ کے پاس بیٹھا تو آپ اس سے نہایت خندہ پیشانی سے ملے‘ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ جب آپ نے اس کو دیکھا تو برا کہا‘ پھر اس سے نہایت لطف و محبت کے ساتھ ملے‘ فرمایا‘ عائشہ تم نے مجھ کو بد زبان کب پایا؟ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے برا شخص وہ ہو گاجس کی بد زبانی کے خوف سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔

ایک بار حضرت ابو ذرؓ نے ایک غلام کو ماں کی گالی دی‘ رسول اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ تم میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ایک بار کچھ یہود رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کی بجائے تم کو موت آئے‘ کہا‘ حضرت عائشہؓ نے جواب میں کہا ‘ تم کو موت آئے‘ اللہ تم پر لعنت بھیجے اور تم پر اللہ کا غضب نازل ہو‘ آپ نے سنا تو فرمایا کہ اے عائشہ نرمی اختیار کرو اور سختی اور بد زبانی سے بچو۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ ’’ بدزبانی جس چیز میں شامل ہوتی ہے اس کو بد نما بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں شامل ہوتی ہے اس کو زینت دے دیتی ہے‘‘۔ گالی گلوچ سے لوگوں کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے‘ حالانکہ مسلمانوں کو ایذا رسانی سے احتراز کرنا چاہیے‘ اسی لیے آپ نے اس طرح فرمایا  کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

مُردوں کو برا بھلا کہنے کی ممانعت اسی لیے کی گئی ہے کہ اس سے زندوں یعنی مُردوں کے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ گالی گلوچ لڑائی کا پیش خیمہ ہے ‘ اس لئے جو چیز اس کا ذریعہ بنتی ہے وہ اگر کفر نہیں تو کم از کم فسق تو ضرور ہے‘ حدیث میں ہے کہ ’’ مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر‘‘۔ایک اور موقع پر فرمایا ’’ جو مسلمان ہے وہ طنز و تشنیع نہیں کرتا‘ لعنت نہیں بھیجتا‘ بد زبانی اور فحش کلامی نہیں کرتا‘‘۔ ایک اور حدیث میں بد زبانی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گالی گلوچ کے صرف یہی معانی نہیں کہ کسی کو مغلظات سنائے جائیں‘ بلکہ ہر وہ بات جس سے کسی کی توہین یا دل آزاری ہو گالی ہے‘ کسی کو فاسق یا کافر کہنا اگرچہ عرف عام میں گالی نہیں ہے لیکن اسلام میں وہ ایک سخت گالی ہے اور آپﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو فاسق و کافر نہ کہے کیونکہ اگر وہ فاسق و کافر نہ ہو گا تو یہ تہمت خود تہمت لگانے والے پر لوٹ آئے گی۔ (حوالہ جات‘ سیرت النبیؐ ازشبلی نعمانی و سلیمان ندویؒ )

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply