آن لائن صحافت اور سوشل میڈیا میں فرق۔۔۔محمد جواد رشید

1970 میں ٹیلی ڈیکست کے نام سے یو کے میں متعارف ہونے واال ٹول ڈیجیٹل صحافت کا نقطہ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے. یہ ایک نظام تھا جس میں صارف کو موقع دیا جاتا تھا کے وہ پہلے کون سی اسٹوری دیکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے. ٹیلی ٹیکسٹ کے ذریعے مہیا کی جانے والی معلومات مختصر مگر فوری ہوا کرتی تھیں۔ 1990 کی ابتدا میں بلٹن بورڈ سسٹم متعارف کیا گیا۔ بی بی سی سوفٹ وئیر اور ٹیلیفون موڈیمز کے ذریعے متعدد چھوٹے اخبارات نے آن لائن سروس شروع کی. 1994 میں پہلے کمرشل ویب براوزر نیٹ اسکیپ اور 1995 میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کے متعارف ہونے والے کو ڈیجیٹل جرنلزم میں اضافے کا وقت تسلیم کیا جاتا ہے۔

1996 تک متعداد ابلاغی ادارے آن لائن شکل اختیار کر چکے تھے۔ اس مرحلے پر ادارتی مواد اخبار ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے لیے تیار شکل میں ہی انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا تھا۔ آن لائن صحافت میں انٹرنیٹ لازمی ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا میں بغیر انٹرنیٹ صحافی اپنی خبر کو چند سیکنڈ میں صارفین تک پہنچا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا آن لائن صحافت کی قسم ہے۔ پر اس سے بہت ہی الگ ہے۔ آن لائن صحافت میں مختلف نیوز چینل اور ویب سائٹ پر صحافی اپنی خبر نشر کرتے ہیں جس سے صارفین کی رائے لینے میں ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا میں صرف چند ہی سیکنڈ میں صارفین کی رائے لی جا سکتی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ موبائل ایپلیکیشن کا استعمال کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے جس سے سوشل ایپلیکیشن سے سوشل صحافت بہت ہی زیادہ جلدی اور معاشرے کے ہر فرد تک بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ کیونکہ اب لوگ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ٹی وی کم دیکھتے ہیں۔ لیکن موبائل ایپلیکیشن کا استعمال بہت ہی زیادہ کرتے ہیں۔ آن لائن صحافت کی پانچ مختلف ویب سائٹ کو بیان کرتے ہیں۔

ڈیلی ٹائمز:
پہلی ویب سائٹ ڈیلی ٹائمز نیوز اخبار ہے جو کہ پاکستان میں آن لائن ویب سائٹ کی شکل میں موجود ہے جس کی زبان انگلش میں ایڈیٹ ہے۔ یہ ویب سائٹ یا اخبار 9 اپریل 2002 کو ڈیلی ٹائم ویب سائٹ پر شروع ہوئی۔ اس کا اخبار الہور، اسالم آباد اور کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے ایڈیٹر رضا رومی ہیں. ویب سائٹ پر موضوع پبلش شاہد تاسر کرتے ہیں۔ ویب سائٹ پر موضوع آزاد خیال یا دنیا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈیلی ٹائمز کو وسیع پیمانے پر ویب سائٹ یا اخبار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ڈیلی ٹائم ویب سائٹ میں مختصر حنان حسین ، حیدر رفیق، رضوان اصغر علی وغیرہ وغیرہ نام کے صحافی شامل ہیں۔ ڈیلی ٹائمز ویب سائٹ کو دیکھنے والے صارفین کی تعداد 120000 سے 130000 تک ہے۔

سی این این:
دوسری ویب سائٹ سی این این ، کیبل نیوز نیٹ ورک امریکی نیوز پر مبنی تنخواہ ٹیلی ویژن چینل اور ویب سائٹ سی این این کے نام سے موجود ہے۔ جو ٹرنر براڈ کاسٹنگ سسٹم کی ملکیت ہے۔ سی این این کی ویب سائٹ اور نیو چینل کی ابتدا 1980 میں ہوئی۔ جو 24گھنٹے کام کرتی ہے۔ اس دور میں سی این این خبروں کی کوریج فراہم کرنے کے لیے پہلا ٹیلی ویژن چینل تھا۔ سی این این امریکی نیوز چینل ہے۔ جو کہ ایک ویب سائٹ کی شکل میں بھی موجود ہے۔ عالمی سطح پر سی این این کی پروگرامنگ انٹرنیشنل کے ذریعے ہوئی۔ جو 212 ممالک اور خطوں میں ناظرین کی طرف سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چینل ایچ ڈی کوالٹی کا ہے۔ سی این این چینل اور اس کی ویب سائٹ کا خبروں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد نام ہے ۔ اس چینل کی ویب سائٹ دنیا بھر سے رپورٹنگ کرتی ہے۔ صحافی اسے دنیا کا خبرنامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ سی این این ڈاٹ کام ہے۔

بی بی سی اردو:
تیسری ویب سائٹ بی بی سی اردو ہے۔ جو کہ پاکستانی نیوز ویب سائٹ ہے۔ بی بی سی اردو ورلڈ سروس کے آرڈر لو جی اسٹیشن ہیں۔ اس کی ویب سائٹ کے ساتھ جو ایک نیوز پورٹل کے طور پر کام کرتا ہے۔ اور ریڈیو نشریات کے آن لائن تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ ریڈیو سروس براڈکاسٹنگ ہاؤس سے لندن میں اور اسلام آباد میں ایک بی بی سی بیورو کے ذریعے نشر کیا جاتا ہے۔ اس کا ہدف سامعین پاکستانیوں اور بھارتی پر ہوتا ہے۔ بی بی سی اردو ریڈیو اور ویب سائٹ پر کام کرتا ہے۔ جو کہ امریکا میں ایک ادارہ ہے۔ بی بی سی اردو انٹرنیشنل کے طور پر خبریں ریڈیو اور ویب سائٹ پر نشر کرتا ہے۔ بی بی سی اردو اردو زبان میں نشر ہوتا ہے۔ جو کہ بی بی سی امریکی نیوز چینل کے نام سے رکھا گیا ہے۔ جس چینل کی ابتدا 1947 میں ہوئی تھی۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ www.bbc.com/urdu ہے۔

ہف پوسٹ:
چوتھی ویب سائٹ ہف پوسٹ ویب سائٹ ہے۔ یہ ویب سائٹ امریکا کی ہے۔ جو امریکی خبر اور رائے کی ویب سائٹ ہے۔ ہف پوسٹ آن لائن ویب سائٹ سیاسیات، کاروبار، تفریح، ماحول، ٹیکنالوجی، مقبول میڈیا طرز زندگی، ثقافت، مزاحیہ پیش کرتی ہے۔ اور صحت مند زندگی خواتین کی دلچسپی اور مقامی خبریں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ آن لائن ویب سائٹ 9 مئی 2005 کو لانچ ہوئی تھی۔ ہف پوسٹ ویب سائٹ مختلف زبانوں میں موجود ہے۔ مثلآٓ : انگلش، عربی، یونانی، جاپانی وغیرہ۔ اس ویب سائٹ کو 13سال ہوچکے ہیں۔ ہف پوسٹ آن لائن ویب سائٹ کو 110000000 صارفین دیکھتے ہیں.

سوشل میڈیا:
اسی طرح سوشل میڈیا کی کچھ ایپلیکیشن پر نظر ڈالتے ہیں۔ اسمارٹ ڈیوائسز فونز، ٹیبلیٹس اور دیگر کے طفیل اب انٹرنیٹ باآسانی میسر ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ رابطہ کرنا اب نہ ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مواصلاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے نت نئی ایپلیکیشنز وجود میں آ رہی ہیں۔ جو رابطوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ لوگوں کے باہم روابط کے حوالے سے انٹرنیٹ کی دنیا میں دو اصطلاحات مقبول ہیں۔ سوشل میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ۔ سوشل نیٹ ورکنگ عمومآٓ اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں انسان ایک خاص حلقہ سے مخاطب ہوتا ہے۔ اس میں براہ راست روابط ضروری ہوتے ہیں.

واٹس ایپ:
واٹس یب ایپلیکیشن کے ذریعے صحافی اپنی کوئی بھی خبر کو صارفین تک بہت جلد پہنچا سکتے ہیں۔ جسے صحافی واٹس ایپ گروپ میں سوشل صحافت کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ بہت سے لوگ واٹس ایپ ایپلیکیشن کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ یہ اپلیکیشن بھی ایسے ہی کام کرتی ہے۔ جیسے موبائل میں کونٹیکٹ بات کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے۔ واٹس یب ایپلیکیشن انٹرنیٹ کے ذریعے استعمال ہوتا ہے اور موبائل میں نیٹ ورک کے ذریعے بات ہوتی ہے.

فیس بک:
فیس بک جس کا استعمال ملین صارفین سے بھی زیادہ کہنا غلط نہیں ہو گا جس ایپلیکیشن کے استعمال سے معاشرے کا ہر شخص جب چاہے صارفین کے سامنے آسکتا ہے۔ اور کسی کو بھی کمنٹ کر سکتا ہے۔ اس ایپلیکیشن کے ذریعے بہت ہی جلدی صارفین کی رائے آتی ہے۔ جبکہ آن لائن صحافت میں رائے آنے میں ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافی اس سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی صحافت کو عام کرتے ہیں۔ اور چند سیکنڈ میں صارفین کی رائے لے لیتے ہیں۔

ٹویٹر:
ٹویٹر فیس بک سے قدرے مختلف ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس میں پیغام کی ایک حد مقرر ہے۔ جو کہ 165 حروف پر مشتمل ہے۔ اس ایپلیکیشن میں صحافی کسی کو بھی فالو کر سکتے ہیں۔ صحافی مختلف پیغام، تصویر، متحرک تصویر اور ویڈیو شامل کر کے لوگوں تک اپنی خبر پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ابلاغ کا موثر و مقبول ذریعہ بن چکا ہے۔ ٹوئٹر کو کسی حد تک خبروں کا آفیشل ذریعہ مانا جاتا ہے۔ اور اہم شخصیات اس کو استعمال کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ ایپلیکیشنز ایسی ہیں۔ جیسے اسنیپ چیٹ ایپلیکیشن جو بغیر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک صحافی کی خبر کو نشر بھی کرے گی اور چند سیکنڈ میں بغیر انٹرنیٹ کے غائب بھی کر دے گی۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply