میری طرح خدا کا بھی۔۔۔(سفرِ جوگی)اویس قرنی۔۔۔قسط6

محل سے نکل کر ہم اور محمد نواز صیب مغربی سمت میں واقع کاروں والے حصے کی طرف بڑھے۔ محل کی بغل میں جہاں کبھی باغ ہوتا تھا ، اب وہاں خالی میدان ہے ، جس میں چند کیکر اور خودرو جھاڑیاں ، بے ہنگم تجاوزات کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ اس میدان کے آخری سرے پر واٹر پلانٹ ہے۔ واٹر پلانٹ کے شمالی سمت شاہی مسجد واقع ہے۔ خانہِ خدا کی خستہ حالی اور خرابی پہ ہمیں خوشی تو کیا ہونی تھی ، دل دکھ سے بھر گیا۔ خالد نجیب اور کامران تو پہلے ہی کارز دیکھنے جا چکے تھے ، اب نواز بھائی بھی اس طرف چلے گئے۔ ہم بھی اسی طرف کو جارہے تھے کہ مسجد نے ہمیں پکارا ، اور ہم یہ پکار نظر انداز نہ کرسکے۔

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

غالب کے سر پہ کلاہِ پپاخ دیکھ کر اور دہلی سے نہ بھاگنے کے عمل سےکنفیوژ کرنل ایلن براؤن نے پوچھا:۔ “ویل ٹم مسلمان ہے؟”
حیوانِ ظریف بولے:۔”جی حضور! لیکن آدھا مسلمان ہوں”


کرنل کیلئے یہ نئی بات تھی ، حیران ہو کر وضاحت چاہی تو جواب ملا:۔ “شراب پی لیتا ہوں ، لیکن سؤر نہیں کھاتا” کرنل حسِ لطافت رکھتا تھا ، اپنا قہقہہ نہ روک سکا ، اور اس چٹکلے نے غالب اور دیگر پیش شدگان کو مزید پوچھ گچھ سے نجات دلا دی۔ لیکن غالب ؔکا یہ جواب تب سے اب تک ہر آدھے پونے مسلمان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اسلام کے پانچ ارکان میں سے بھلے ہی دو یا زیادہ سے زیادہ تین پورے کریں۔ لیکن مسلمان پورے ہیں۔ ہم دن میں ہزار بار جھوٹ بولیں ، اور رشوت خوری کریں ، ہر ناجائز کام اور ہرقسم کی حرامخوری کرتے ہیں ، لیکن پھر بھی ہم پورے مسلمان ہیں۔ کیونکہ ہم میں سے کسی میں بھی غالب ؔوالی خود احتسابی اورحقیقت پسندی کی ذرا بھی رمق نہیں ہے۔ ہم خود چاہے سال میں دو نمازیں پڑھیں یا ہفتے کی ایک نماز پڑھیں، ہم پھر بھی غالبؔ سے زیادہ بڑے مسلمان ہیں۔ اور اسی خوشی میں ہم اپنی مسلمانی کو دوسروں کیلئے عذاب بنائے ہوئے ہیں۔ اسی خوشی میں ہم اپنے علاوہ ہر دوسرے شخص کی مسلمانی مشکوک سمجھتے ہیں۔ کسی اور کا کیا ذکر ہمیں ہی دیکھ لیں ، سال میں ایک مہینہ نماز پڑھنے والا مسجد کا ذکر ایسے پُردرد انداز میں کررہا ہے ، جیسے قائم نمازی ہو۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پانی چولو ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اپنے اس دوغلے پن کے اقرار کے باوجود یہ سچ ہے کہ کسی ان دیکھی کشش نے ہمیں کارز کی طرف جانے سے روک کر مسجد کی طرف کھینچ لیا۔ ہم شرمندہ شرمندہ نظروں اور لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے مسجدِ ویران کی طرف بڑھے۔ جس کے درودیوار سےخستگی ٹپک ٹپک رہی تھی۔ چھوٹی سی ڈیوڑھی سے گزر کر منقش فرش والے صحن میں داخل ہوئے۔ فرش کسی حد تک صحیح و سالم پایا، لیکن مسجد کی دیواروں سے بوسیدگی عیاں تھی۔ حیران کن منظر یہ تھا کہ ڈیڑھ سو سال کے عرصے بعد جب دیواروں کا پلستر اکھڑ رہا تھا ، دروازوں اور ان کی چوکھٹ پہ رتی بھر بھی زوال نہ دیکھا۔ صحن سے گزر کر مسجد میں داخل ہوا تو بے اختیار غالب ؔیاد آئے۔

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا

زندگی میں بہت سی خوبصورت ترین مساجد اور ان کی خوبصورتی دیکھی ہے۔ فیصل مسجد اسلام آباد بھی دیکھی ہے ، بادشاہی مسجد لاہور سمیت دیگر خوبصورت سمجھی جانے والی بہت سی مساجد دیکھی ہیں۔ لیکن کبھی کسی مسجد میں یہ حیرانی حاوی نہ ہوئی تھی ، جو اس چھوٹی سی مسجد میں ہم پہ حاوی ہو چکی تھی۔ ہم اس خوبصورتی کے بیان کیلئے اپنی قوتِ بیاں کو عاجز پاتے ہیں۔ اس مسجد کی اکثر تصاویر اپنے ہاتھوں بنانے کے باوجود ہمیں اقرار ہے ، اس مسجد کی خوبصورتی کا دس فیصد بھی تصاویر میں نہیں آیا۔

سادگی و پُرکاری ، بے خودی و ہُشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

اللہ اکبر ، غالب کا یہ شعر اس مسجد میں مجسم دیکھا۔ اور تا دیر دم بخود و مبہوت رہے۔ وقت رک گیا ، دل کو دھڑکنا اور دماغ کو سوچنا بھول گیا۔ بس دو آنکھیں تھیں ، جو اپنی پوری طاقت بروئے کار لاکر یک ٹک اس نظارے کی خوبصورتی کو جذب کرتی رہیں۔ جب حواس بحال ہوئے ، تو بے اختیار دل سے معمار کیلئے داد اور دعا نکلی۔ جس نے اپنے فن کا کمال ، ہمارے ملاحظے کی خاطر یہاں رکھ دیا۔

رنگوں کا استعمال ، اور ان کا کنٹراسٹ اس قدر حیرت انگیز ، اس قدر سادہ ، اور اس قدر پُرکار کہ بصری اعصاب ہپناٹائز کردے۔ گنبد کی گولائیوں پر نقوش ، اور طغروں میں لکھے فارسی اشعار ، ہر ہر خوبصورتی کی وضاحت کو چاہیے کچھ اور وسعت میرے بیاں کیلئے۔ بہت دیر تک مسجد اور ہم خاموشی کی زباں میں ایک دوسرے سے ہمکلام رہے۔ ایک بے اندازہ لذت تھی ، کچھ انجانے کیف تھے، طمانیت بھری مدہوشی تھی اور ہم تھے۔

اتنے میں نواز بھائی کی آمد ہوئی ، وہ ہمیں کاریں دیکھنے کا بلاوا دینے واپس آئے تھے ، لیکن مسجد میں آکر وہ بھی اپنا پیغام اور وجہِ آمد بھول کر مسجد کی خوبصورتی میں کھو گئے۔ خاصی دیر بعد انہیں یاد آیا کہ وہ ہمیں بلانے کیلئے آئے ہیں ، تاکہ ہم بھی بہاولپور کا شاہی کار اسکواڈ دیکھ لیں ، جسے پھر تالوں میں بند کردیا جائے گا۔ یہ نایاب کاریں دیکھنے کی خواہش توتھی ، لیکن جیسے بلیک ہول کی زد میں آکر روشنی جیسا تیز رفتار ترین مظہربھی اپنی قوت و پھرتی کھو دیتا ہے ، اسی طرح مسجد کی ثقلی قوت نے ہماری اس خواہش کو بھی کمزور اور بے اثر کردیا تھا۔ ایک بار پھر یاد دلائے جانے پر ہم بوجھل قدموں سے باہر نکلے ، تو اس وقت تک خالد نجیب اور کامران اسلم وہاں سے ہمیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں آچکے تھے۔

ہم انہیں مسجد میں اللہ کےحوالے کر کے ، کاریں دیکھنے کو چل پڑے

مجنوں جو مر گیا ہے

مسجد کی بغل میں واٹر پلانٹ موجود تھا۔ اس کئی منزلہ پلانٹ کے اندرتقریباً ڈیرھ سو سال پہلے ٹھنڈا اورگرم پانی ، محل میں سپلائی کرنے کی ذمہ دار مشینری ، مکڑیوں کے جالوں سے اٹی پڑی تھی۔ جب خلا میں بھی خلا نہیں ہے ، تو زمین پر کیسے کوئی جگہ خالی رہ سکتی ہے۔ انسانوں نے رہنا چھوڑ دیا تو اب یہاں چمگادڑیں ، اور مکڑیاں اپنے محل بنائے ہوئے ہیں۔

واٹر پلانٹ کے جنوبی طرف ، کاروں کے گیراج اور موٹر ورکشاپ موجود ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان ، کسی زمانے میں باغ تھا ، اب اس باغ کی یادگار اکا دکا امرود ، لسوڑے اور ارجن کے درخت باقی ہیں۔ باقی سب جگہ کو دھریک ، کیکر اور دیگر کانٹے دار جھاڑیوں نے گھیر کا جنگل کی صورت دے دی ہے۔ اسی جنگل کے درمیان ایک پگڈنڈی سی جا رہی تھی ، ہم اسی پہ چلتے چلتے ، دوسری طرف واقع گیراجز والے حصے میں جا نکلے۔ جہاں ہمارا استقبال ایک شکستہ آہنی ڈھانچے نے کیا۔ ایک وقت تھا ، جب یہ اپنے زمانے کی جدید ترین جیپ تھی۔ زمانے کےستم اور ناقدری سہتے سہتے ، اب یہی ڈھانچہ بے زبانی کے باوصف دنیا کی ناپائیداری کا درس دے رہا ہے۔

23 وارثین میں سے جس کا جہاں بس چلا ہے ، اس نے پورے سوٹ میں سے اسی لنگوٹی کو ہتھیا کر اپنا اپنا تالا لگا اور خادم بٹھا دیا ہے۔ بہت سے گیراج تھے ، جن میں سے ہر ایک کی چابی الگ الگ خادمین کے پاس تھی۔ جو خادم ہمارے ہاتھ آیا تھا ، اس نے سو روپے کے عوض بس پانچ منٹ کیلئے تالا کھولا اور ریاست بہاولپور کے کار اسکواڈ میں سے کچھ کاروں کی زیارت کروادی۔ زیارت کیا تھی ، ایک عبرت نگاہ منظر تھا۔

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جس زمانے میں لاہور میں تانگہ اشرافیہ اور امراء کی سواری ہوتا تھا ، اور دہلی سمیت برصغیر کی دیگر ریاستوں میں شاہی سواری بگھی ہوتی تھی۔ تب ریاست بہاولپور میں رولز رائس کاریں شہر کا کوڑا کرکٹ ڈھوتی تھیں۔

یہ گپ نہیں حقیقت ہے۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم لندن میں اپنے قیام کے دوران ، ایک دن پروٹوکول اور شاہی تام جھام کے بغیر لندن گھومنے نکلے ، رولز رائس کا شوروم دیکھا تو اندر چلے گئے۔ کاریں اچھی لگیں ، تو منیجر سے معلومات کیلئے رابطہ کیا۔ منیجر نے کوئی عام سا ایشیائی باشندہ سمجھ کر نہ صرف نخوت دکھائی ، بلکہ گارڈز کو بلا کر باہر نکلوا دیا۔ نواب صاحب واپس اپنی قیام گاہ پر لوٹے ، اور اب شاہی لباس و پروٹوکول سمیت شوروم پہنچے ، وہاں موجود ٹوٹل چھ رولز رائس کاریں خریدیں اور بہاولپور بھیجنے کا حکم دیا۔ بہاولپور میں پیغام بھجوایا کہ یہ کاریں میونسپلٹی کے حوالے کردی جائیں ، اور ان سے شہر کی صفائی کا کام لیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی ، اور اپنے وقت کی سب سے مہنگی ترین کاریں ، بہاولپور میں کوڑا کرکٹ ڈھونے لگیں۔ یہ خبرمشہور ہوئی تو رولز رائس کی مارکیٹ آسمان سے زمین پہ آگری ، اپنے زمانے کا یہ شاہی برانڈ مذاق بن گیا۔ رولز رائس کے ذکر پر لوگ ہنستے کہ وہی رولز رائس جو بہاولپور میں کوڑا کرکٹ ڈھوتی ہیں۔ رولز رائس کمپنی نے نواب صاحب سے معافی مانگی ، اور ناراضی کے ازالے کیلئے چھ رولز رائس کاریں بطور تحفہ دیں۔

ریاست بہاولپور کے پاس اپنے وقت کی یہ سب سے مہنگی کاریں ایک درجن سے زیادہ تھیں۔ جب سعودی عرب کے بادشاہ بہاولپور کے دورے پر آئے تو نواب صاحب نے ایک کار انہیں تحفے میں دی ، اور یہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی کار تھی ، جو سعودی عرب کی سڑکوں پر اٹھلاتی پھری۔ قیام ِپاکستان سے تین دن پہلے جب قائداعظم یہاں آئے ، تو ریاست بہاولپور کی فوج نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا ، اور نواب صاحب نے انہیں رولز رائس کار اور کراچی میں واقع ، 45 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا الشمس محل تحفے میں دیا۔

ریاست بہاولپور کے شاہی کار اسکواڈ میں سے ایک کار اس وقت پرل کانٹیننٹل ہوٹل لاہور میں کھڑی وہاں کی شان بڑھا رہی ہے۔ کچھ کاریں دیگر محلات اور کچھ عجائب گھروں کی زینت ہیں ، جبکہ ان میں سے کچھ بدنصیب کاریں یہاں رل رہی ہیں ، جن میں اب مکڑیوں نے اپنے محلات تعمیر کرلیے ہیں۔ کچھ کاریں خالد نجیب اور کامران دیکھ آئے ، مگر جب ہم پہنچے تو وہ خادم تالا لگا کر غائب ہو چکا تھا۔ ہم نے کاروں کو بوسیدہ دروازوں کی درزوں سے دیکھ کر ہی ٹھنڈا سانس بھر لیا۔ گیراجز کی ایک لمبی قطار کے آگے ، موٹر ورکشاپ ویران پڑی تھی۔ اس سے آگے گیراجز کی ایک اور قطارتھی۔ جہاں کچھ موجود ہونے کی امید تو نہیں تھی ، لیکن پھربھی ہم نے ادھرجھانک لینا ضروری سمجھا۔ یہ جھانکنا رائیگاں نہ گیا، کیونکہ وہاں بھی کچھ کاریں راہِ فنا پہ چل رہی تھیں۔ سڑکوں کی شہزادیوں کو اس حال میں دیکھ کر دلی تکلیف ہوئی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔

گیراجز کی اس قطار در قطار کے بعد خودرو جنگل نے ہمارا راستہ کاٹا ، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جنگل دیکھ کر ہمارے اندر ٹارزن کی روح بیدار ہوجاتی ہے۔ اب بھی ہم ایک چوبی ڈنڈے کی مدد سے کانٹے دار شاخوں سے بچتے بچاتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس خودرو جنگل میں اسلحہ خانہ موجود ہے ، اسلحہ خانہ خانہ میں درجن بھر توپیں ، ایک قطار کی صورت پڑی ، اپنی ناقدری پہ رو رہی تھیں۔ وہیں دنیا کی قدیم ترین باردوی سرنگیں بھی موجود تھیں ، جن میں بعض شاید یوں بے کار پڑے پڑے تنگ آگئیں اور پھٹ پڑیں۔ ان کے خالی ڈھانچوں کے علاوہ کچھ ابھی بھی صحیح و سالم پڑی تھیں۔ ہم نے درد کے ماروں سے چھیڑ چھاڑ مناسب نہ سمجھی کہ شدتِ غم سے کہیں ہم پہ ہی نہ پھٹ پڑیں۔

وہاں سے آگے سرخ اینٹوں سے بنا سربلند مینار نظر آ رہا تھا۔ ہم سمجھے یہیں کہیں آس پاس ہوگا ، اس سے بھی سلام دعا کرتے چلیں۔ اسی اثناء میں نواز بھائی بھی عکاسی کرتے ہم سے آن ملے ، ہم انہیں ساتھ لیے مینار کو ہاتھ لگانے چل پڑے ، دور تک پھیلے ہوئے جنگل میں چلتے چلتے ہم بہت دور آ گئے ، لیکن مینار نہ آیا۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور چلنا جاری رکھا، یہاں تک کہ ریاست بہاولپور کے اس قطب مینار تک پہنچ گئے۔ اسے دیکھنے کیلئے ہمیں قوس کی صورت خمیدہ ہو کر بلندی کی جانب دیکھنا پڑا۔ مینار پر چڑھنے کیلئے کسی زمانے میں آہنی سیڑھیاں ہونگی ، ابھی بس ان کے نشانات باقی تھے۔ مینار کے آس پاس کوئی ویرانی سی ویرانی اور رائیگانی سی رائیگانی پھیلی ہوئی تھی۔ مینار سے ہمکلامی کی کوشش کی ، لیکن اس کے کان اتنے بلند تھے کہ ہماری آواز میں ان تک پہنچنے کا یارا نہ تھا۔ ہم مینار کے چرن چھو کر واپسی کیلئے مشرقی جانب بڑھے ، کچھ فاصلہ طے کیا تو سامنے ایک تالاب کا کھنڈر دکھائی دیا۔ پختہ کناروں اور آرائشی ٹائلز والے اس وسیع و عریض تالاب کے درمیان ایک مصنوعی جزیرہ بھی موجود تھا۔کبھی اس تالاب میں ہنسوں کے جوڑے اور بطخیں قیں قیں کرتی تیرتی ہوں گی۔ ابھی تالاب گلے سڑے پتوں سے اور خوبصورت لہریے دار اینٹوں سے بنا جزیرہ کانٹے دار جھاڑیوں اور خودرو درختوں سے اٹا پڑا تھا۔

تالاب کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ہم محل کے سامنے آ نکلے ، جہاں خالد نجیب اور کامران اسلم متلاشی نظریں لیے ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔محل کے سامنے موجود ہشت دری میں باجماعت سیلفیوں کا شوق مٹھا کیا گیا ، پھرمحل کے لان کے کنارے پر کھڑے ایک ڈیڑھ سو سالہ بوڑھے برگد کی طرف بڑھے ، کچھ سیلفیاں وہاں بنائی گئیں ، تاکہ سند رہیں ، اور لوگوں کو دکھا کر جلانے کے کام آئیں۔ کامران اسلم کلٹس لے آئے اور ہم سب ایک بار پھر اس میں سما کر بوجھل دل لیےمحل کی ڈیوڑھی سے نکل گئے

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جس زمانے میں لاہور میں تانگہ اشرافیہ اور امراء کی سواری ہوتا تھا ، اور دہلی سمیت برصغیر کی دیگر ریاستوں میں شاہی سواری بگھی ہوتی تھی۔ تب ریاست بہاولپور میں رولز رائس کاریں شہر کا کوڑا کرکٹ ڈھوتی تھیں۔

یہ گپ نہیں حقیقت ہے۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم لندن میں اپنے قیام کے دوران ، ایک دن پروٹوکول اور شاہی تام جھام کے بغیر لندن گھومنے نکلے ، رولز رائس کا شوروم دیکھا تو اندر چلے گئے۔ کاریں اچھی لگیں ، تو منیجر سے معلومات کیلئے رابطہ کیا۔ منیجر نے کوئی عام سا ایشیائی باشندہ سمجھ کر نہ صرف نخوت دکھائی ، بلکہ گارڈز کو بلا کر باہر نکلوا دیا۔ نواب صاحب واپس اپنی قیام گاہ پر لوٹے ، اور اب شاہی لباس و پروٹوکول سمیت شوروم پہنچے ، وہاں موجود ٹوٹل چھ رولز رائس کاریں خریدیں اور بہاولپور بھیجنے کا حکم دیا۔ بہاولپور میں پیغام بھجوایا کہ یہ کاریں میونسپلٹی کے حوالے کردی جائیں ، اور ان سے شہر کی صفائی کا کام لیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی ، اور اپنے وقت کی سب سے مہنگی ترین کاریں ، بہاولپور میں کوڑا کرکٹ ڈھونے لگیں۔ یہ خبرمشہور ہوئی تو رولز رائس کی مارکیٹ آسمان سے زمین پہ آگری ، اپنے زمانے کا یہ شاہی برانڈ مذاق بن گیا۔ رولز رائس کے ذکر پر لوگ ہنستے کہ وہی رولز رائس جو بہاولپور میں کوڑا کرکٹ ڈھوتی ہیں۔ رولز رائس کمپنی نے نواب صاحب سے معافی مانگی ، اور ناراضی کے ازالے کیلئے چھ رولز رائس کاریں بطور تحفہ دیں۔

ریاست بہاولپور کے پاس اپنے وقت کی یہ سب سے مہنگی کاریں ایک درجن سے زیادہ تھیں۔ جب سعودی عرب کے بادشاہ بہاولپور کے دورے پر آئے تو نواب صاحب نے ایک کار انہیں تحفے میں دی ، اور یہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی کار تھی ، جو سعودی عرب کی سڑکوں پر اٹھلاتی پھری۔ قیام ِپاکستان سے تین دن پہلے جب قائداعظم یہاں آئے ، تو ریاست بہاولپور کی فوج نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا ، اور نواب صاحب نے انہیں رولز رائس کار اور کراچی میں واقع ، 45 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا الشمس محل تحفے میں دیا۔

ریاست بہاولپور کے شاہی کار اسکواڈ میں سے ایک کار اس وقت پرل کانٹیننٹل ہوٹل لاہور میں کھڑی وہاں کی شان بڑھا رہی ہے۔ کچھ کاریں دیگر محلات اور کچھ عجائب گھروں کی زینت ہیں ، جبکہ ان میں سے کچھ بدنصیب کاریں یہاں رل رہی ہیں ، جن میں اب مکڑیوں نے اپنے محلات تعمیر کرلیے ہیں۔ کچھ کاریں خالد نجیب اور کامران دیکھ آئے ، مگر جب ہم پہنچے تو وہ خادم تالا لگا کر غائب ہو چکا تھا۔ ہم نے کاروں کو بوسیدہ دروازوں کی درزوں سے دیکھ کر ہی ٹھنڈا سانس بھر لیا۔ گیراجز کی ایک لمبی قطار کے آگے ، موٹر ورکشاپ ویران پڑی تھی۔ اس سے آگے گیراجز کی ایک اور قطارتھی۔ جہاں کچھ موجود ہونے کی امید تو نہیں تھی ، لیکن پھربھی ہم نے ادھرجھانک لینا ضروری سمجھا۔ یہ جھانکنا رائیگاں نہ گیا، کیونکہ وہاں بھی کچھ کاریں راہِ فنا پہ چل رہی تھیں۔ سڑکوں کی شہزادیوں کو اس حال میں دیکھ کر دلی تکلیف ہوئی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔

گیراجز کی اس قطار در قطار کے بعد خودرو جنگل نے ہمارا راستہ کاٹا ، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جنگل دیکھ کر ہمارے اندر ٹارزن کی روح بیدار ہوجاتی ہے۔ اب بھی ہم ایک چوبی ڈنڈے کی مدد سے کانٹے دار شاخوں سے بچتے بچاتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس خودرو جنگل میں اسلحہ خانہ موجود ہے ، اسلحہ خانہ خانہ میں درجن بھر توپیں ، ایک قطار کی صورت پڑی ، اپنی ناقدری پہ رو رہی تھیں۔ وہیں دنیا کی قدیم ترین باردوی سرنگیں بھی موجود تھیں ، جن میں بعض شاید یوں بے کار پڑے پڑے تنگ آگئیں اور پھٹ پڑیں۔ ان کے خالی ڈھانچوں کے علاوہ کچھ ابھی بھی صحیح و سالم پڑی تھیں۔ ہم نے درد کے ماروں سے چھیڑ چھاڑ مناسب نہ سمجھی کہ شدتِ غم سے کہیں ہم پہ ہی نہ پھٹ پڑیں۔

وہاں سے آگے سرخ اینٹوں سے بنا سربلند مینار نظر آ رہا تھا۔ ہم سمجھے یہیں کہیں آس پاس ہوگا ، اس سے بھی سلام دعا کرتے چلیں۔ اسی اثناء میں نواز بھائی بھی عکاسی کرتے ہم سے آن ملے ، ہم انہیں ساتھ لیے مینار کو ہاتھ لگانے چل پڑے ، دور تک پھیلے ہوئے جنگل میں چلتے چلتے ہم بہت دور آ گئے ، لیکن مینار نہ آیا۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور چلنا جاری رکھا، یہاں تک کہ ریاست بہاولپور کے اس قطب مینار تک پہنچ گئے۔ اسے دیکھنے کیلئے ہمیں قوس کی صورت خمیدہ ہو کر بلندی کی جانب دیکھنا پڑا۔ مینار پر چڑھنے کیلئے کسی زمانے میں آہنی سیڑھیاں ہونگی ، ابھی بس ان کے نشانات باقی تھے۔ مینار کے آس پاس کوئی ویرانی سی ویرانی اور رائیگانی سی رائیگانی پھیلی ہوئی تھی۔ مینار سے ہمکلامی کی کوشش کی ، لیکن اس کے کان اتنے بلند تھے کہ ہماری آواز میں ان تک پہنچنے کا یارا نہ تھا۔ ہم مینار کے چرن چھو کر واپسی کیلئے مشرقی جانب بڑھے ، کچھ فاصلہ طے کیا تو سامنے ایک تالاب کا کھنڈر دکھائی دیا۔ پختہ کناروں اور آرائشی ٹائلز والے اس وسیع و عریض تالاب کے درمیان ایک مصنوعی جزیرہ بھی موجود تھا۔کبھی اس تالاب میں ہنسوں کے جوڑے اور بطخیں قیں قیں کرتی تیرتی ہوں گی۔ ابھی تالاب گلے سڑے پتوں سے اور خوبصورت لہریے دار اینٹوں سے بنا جزیرہ کانٹے دار جھاڑیوں اور خودرو درختوں سے اٹا پڑا تھا۔

تالاب کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ہم محل کے سامنے آ نکلے ، جہاں خالد نجیب اور کامران اسلم متلاشی نظریں لیے ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔محل کے سامنے موجود ہشت دری میں باجماعت سیلفیوں کا شوق مٹھا کیا گیا ، پھرمحل کے لان کے کنارے پر کھڑے ایک ڈیڑھ سو سالہ بوڑھے برگد کی طرف بڑھے ، کچھ سیلفیاں وہاں بنائی گئیں ، تاکہ سند رہیں ، اور لوگوں کو دکھا کر جلانے کے کام آئیں۔ کامران اسلم کلٹس لے آئے اور ہم سب ایک بار پھر اس میں سما کر بوجھل دل لیےمحل کی ڈیوڑھی سے نکل گئے

گھر میں تھا کیا ، کہ ترا غم اسے غارت کرتا

صادق گڑھ سے نکل کرہم قلعہ ڈیراور کی طرف جاتے راستے پہ ہولیے۔ چولستان میں پھیلی ریت کے سینے پر شانِ بے نیازی سے کھڑے اس قلعے کا فاصلہ بہاولپور ، صادق گڑھ اور اللہ آباد (لیاقت پور) سے برابر (کم و بیش انچاس کلومیٹر) ہے۔ مناسب ہے کہ وہاں پہنچنے تک ، ہم اس سفرنامے کے توسط سے اپنے ہمسفروں کو روہی /چولستان کی کہانی سناتے چلیں ، تاکہ ہمارا بھی سفر خوب کٹے اور ہمسفر بھی بوریت محسوس نہ کریں۔

چولنا (ہلنا ) مصدر سے یہ لفظ چولستان مشتق ہوا ہے۔ جس کا مطلب “چولنے والا علاقہ” ہے۔ ریتلا علاقہ ہونے کی وجہ سے ہوا چلنے یا آندھی کی وجہ سے ریت اڑ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ بیٹھنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ ریت کے یہ مسافر ، ٹیلے جنہیں سرائیکی زبان میں “ٹبہ” کہتے ہیں ، ان کے بننے اور مٹنے کا یہی مسلسل عمل “چولنا” ہے۔ اور اس مسلسل تغیر پذیر علاقے کو چولستان کہا جاتا ہے۔ چولستان دراصل اس عظیم صحرا کا ایک حصہ ہے ، جو سرحدی تقسیم کی وجہ سے تین حصوں ، روہی ، تھر اور راجستھان میں منقسم ہو گیا۔ ریاست بہاولپور کی حدود میں واقع اس صحرا کو مقامی طور پر روہی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرق میں ضلع بہاولنگر سے رحیم یار خان تک تیرہ ہزار مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

یہ بنجر و بیابان علاقہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ اپنے زمانے کی ایک عظیم تہذیب کا گہوارہ یہ علاقہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک کا مسکن تھا۔ جب آج کا پنجاب ، باروں (جنگلوں) اور ان میں رہنے والے جانگلی قبائل پہ مشتمل تھا ، اور ست گئؤ کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں یہ ترقی یافتہ تمدنی علاقہ ، علم و ادب کا مرکز تھا۔ زمانہ ما قبل تاریخ سے شہر اور تہذیبیں ہمیشہ دریاؤں کے کنارے پر پھلتی پھولتی چلی آئی ہیں۔ ہاکڑہ دریا سے سیراب ہونے والے علاقے پرمشتمل اس تہذیب کو اہلِ علم ہاکڑہ تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ علاقہ تمام قدیم مذاہب ، ہندومت ، بدھ مت ، اسلام کا علمی و مذہبی مرکز رہا ہے۔ بدھ مت کے زمانے میں موجودہ پتن منارا والے علاقے میں مشہور یونیورسٹی تھی ، جس کے کھنڈرات اب ریت کی تہوں میں دفن ہو چکے ہیں۔ مختلف روایات سے ماخوذ خبروں کے مطابق ایک بار دریائے ہاکڑہ میں ایسا شدید سیلاب آیا کہ پتن منارا شہر میں واقع بودھوں کے مذہبی مرکز کو بھی بہا لے گیا۔ بودھ بھکشوؤں نے اس ظالم دریا کو بددعا دی ، اور یہ دریا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یوں سوکھ گیا ، گویا روہی کی دھرتی نے دریا کا گھونٹ بھر لیا ہو۔ دریا خشک ہوا تو اردگرد کا علاقہ بھی سوکھنے لگا ، یہاں تک کہ موجودہ صورت میں بنجر و بیابان روہی کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ اہلِ علم ہاکڑہ تہذیب کے زوال کا زمانہ لگ بھگ گیارہویں صدی عیسوی بتاتے ہیں۔ قدیم مورخین نے سلطان محمود غزنوی کے 1025 میں سومناتھ پر حملے کیلئے کیے جانے والے سفر کے باب میں پتن منارا شہر کا تذکرہ کیا ہے ، سلطان اور اس کی فوج نے یہاں ٹھاٹھیں مارتے ہاکڑہ دریا کو دیکھا تھا ۔

ہر عروج کو زوال ہے۔ عروج و زوال کاسلسلہ اور ایک تہذیب کی موت سے دوسری تہذیب کے جنم کا عمل بھی روزِ ازل سے جاری ہے۔ ہاکڑہ تہذیب کی موت کے بعد یہاں روہیلہ تہذیب و ثقافت کا جنم ہوا۔ جس پر ہندومت ، بدھ مت اور اسلام تینوں کے نقوش واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔

ابھی ہم اسی روہی میں دریائے ہاکڑہ کی قدیم گزرگاہ کے کنارے واقع قلعہ ڈیراور کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں راجپوتانہ میں بھاٹی ((بھاٹ ، بھاٹی (بھاٹیہ)، بھٹی ، بھوٹا (بھٹہ) ، چنڑ ، تھہیم یہ سب اقوام اسی شاخ کی کونپلیں ہیں)) راجہ کہر حکمران تھا۔ اس کے پانچ بیٹے ، تنو ، اُتیا ، چنڑ ، کافریو ،تھہیم تھے۔ سب سے بڑے بیٹے تنو نے 757 عیسوی کے آس پاس ملتان کے لانگاہوں کو شکست دی۔ تنو کے بعد اس کا بیٹا بجے راؤ حکمران ہوا۔ لانگاہوں نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے ایک چال چلی ، اور دھوکے سے بجے راؤ کو ضیافت پر بلا کر اس ہمراہ آئے 800 بھاٹیہ رشتے داروں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بجے راؤ کا ولی عہد دیوراج کسی طرح اس انتقامی غارتگری سے نکل بھاگا اور بابارت سنیاسی کے پاس پناہ لی ، جہاں وہ برہمن کے لباس میں عرصہ تک روپوش رہا۔ جوان ہوا تو اپنے ننھیال میں موجود ماں کے پاس چلا گیا۔ اور وہاں اپنے ماموں راجہ بھوٹا واہن (رائے ججا بھٹی) کے زیرِ سایہ شہزادوں جیسی زندگی بسرکرتا رہا۔ (موجودہ احمد پور اور خانپور راجہ بھوٹا کی ریاست کا حصہ تھے) ایک بار اس نے اپنے ماموں سے اپنے لیے قطعہ زمین مانگا۔ راجہ نے پوچھا کتنی زمین درکار ہے؟ تو دیوراج نے کہا کہ جتنی زمین ایک بھینسے کی کھال گھیر سکے۔ ماموں نے بے ضرر خواہش سمجھ کر اجازت دے دی۔ دیوراج نے بھینسے کی کھال کو ایک باریک تسمے کی صورت میں کاٹ کر اس پوری کھال سے بننے والے تسمے کے محیط میں آنے والا ، دریا کنارے جنگل کا بہت وسیع علاقہ گھیر لیا۔ اتفاق سے انہی دنوں بابا رت بھی دیوارج کے علاقے میں آ گیا۔ بابا رت بہت گیانی سنیاسی اور علمِ کیمیا کا ماہرتھا۔ ایک دن دیوراج بابا رت کی کٹیا میں آیا تو بابا کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ دیوراج نے جوگھر کانٹا (قرع انبیق)میں رس کومپ (کشید شدہ کیمیائی محلول) دیکھا تو چیک کرنے کیلئے اس کا ایک قطرہ اپنی تلوار پر ڈالا ، دیکھتے ہی دیکھتے تلوار سونے میں تبدیل ہو گئی۔ دیوراج نے یہ قیمتی شئے چرا لی۔ بابا رت کو پتا چلا تو اس نے دیوارج کو شراپ دینے کا ارادہ کیا۔ دیوراج نے معافی مانگی تو بابا نے کہا اگر تم جوگیوں کا پنتھ اختیار کرو ، تو میں تمہارا یہ قصوربھی معاف کردوں گا ، اورمسروقہ مال بھی تمہارے استعمال کیلئے جائزسمجھوں گا۔ دیوراج تو پہلے ہی سنیاسی بابا کے کمالات کا معترف تھا۔ اس نے بلاتامل بابا کے حکم کی تعمیل کی اور جوگی ہوگیا۔ رت بابا نے اسے راول (جوگی) کا لقب عطا کیا۔اور وہ دیوراج سے دیوراول کہلانے لگا۔

اس کیمیائی عرق سے دیوراول نے بہت سا سونا بنایا ، اور ایک مبارک ساعت دیکھ کر سوموار کے دن بمطابق 909 بکرمی میں اپنے زیرِ قبضہ علاقہ میں قلعہ کی تعمیر شروع کروادی۔ اس کے ماموں کو خبر ہوئی تو اس نے فوج کے کچھ دستے بھیجے کہ نوتعیر شدہ قلعے کو منہدم کردیں اور مقبوضہ علاقے سے دیوراول کو نکال دیں۔ دیوراول نے اس فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ، بلکہ قلعے کی چابیوں سمیت پیغام بھجوایا کہ میں تو راجہ بھوٹا اور اس کی فوج کا فرمانبردار ہوں۔ فوج کے سردار قلعے میں داخل ہو کر قلعہ پر قبضہ کرلیں۔ سردار اور ان کے محافظ دستے قلعے میں گئے ، تو دیوراول کے چھپے ہوئے ساتھیوں نے دروازہ بند کرکے سرداروں اور ان کے ساتھ آئے محافظ دستوں کو تہہ تیغ کر کے 120 سر قلعے کی دیوار سے نیچے پھینک دیے۔ باہر موجود فوج دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئی۔ یہ علاقہ دیوراول کے نام کی نسبت سے ڈیرہ راول کہلایا، جو صدیوں پہ محیط زبان بر زبان سفر میں بگڑتے بگڑتے ، ڈیرہ راول سے ڈیراور ہوگیا۔ 852 عیسوی سے 1732 تک یہ علاقہ اور یہاں کا قلعہ دیوراول سے دست بدست ہوتا ہوا اس کے جانشینوں کے تصرف رہا۔ اس سلسلے کا پچیسواں اور آخری حکمران راول رائے سنگھ تھا۔

جب ہلاکو خان نے عباسی خلفا کے دارالحکومت بغداد پر قبضہ کرکے اس سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو کچھ عباسی شہزادے سندھ میں آ پہنچے ، اور یہاں شکار پور اور لاڑکانہ تک کے علاقے پر اپنی عملداری قائم کر لی۔ پھر امیر داؤد خان عباسی کی نسل میں سے ایک جانشین امیر صادق محمد خان عباسی نے اس علاقے (موجودہ رحیم یار خان) کی طرف پیش قدمی کی اورموجودہ لیاقت پور کے قریب ایک شہر اللہ آباد کی بنیاد رکھی۔ ریاست کی سرحدوں کی حفاظت اور معروضی حالات کے تحت انہوں نے ڈیراور کو فتح کرنے کیلئے یلغار کی اور یوں 1732 عیسوی میں یہ علاقہ ریاست جیسلمیرسے ریاست بہاولپور کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔ تین سال بعد راول رائے سنگھ نے قلعہ دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 12 سال بعد 1747 عیسوی نواب بہاول خان عباسی اول نے ڈیراور دوبارہ فتح کرکے اپنی سلطنت کا حصہ بنالیا۔ اور خواجہ رحمت اللہ کو اس علاقے کا منتظم مقرر کیا۔ دو سال تک راول رائے سنگھ اور خواجہ رحمت اللہ کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں ، بالاخر رائے راول سنگھ نے اس صورتحال سے اکتا کر 1749 عیسوی میں امیرِ بہاولپور سے معاہدے کے تحت اس علاقے کو بہاولپور کا حصہ تسلیم کرلیا۔ اور پچاس روپے وظیفہ لینا منظور کیا۔

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو وہ ہے

ایک مناسب سی ہائی وے پہ فراٹے بھرتی کار ہمیں لیے منزل کی جانب رواں دواں رہی۔ ان راستوں پہ ہمیں ملتان سے سندھ جاتے ہوئے سکندر ، اور غزنی سے سومناتھ جاتے ہوئے محمود غزنوی کےنقشِ قدم تو دکھائی دیے ، لیکن خیاباں خیاباں ارم دکھائی نہ دی۔ جس طرف نظر جاتی تا حدِنگاہ ریت ہی ریت ، اونچے نیچے ٹیلے اور خودرو جھاڑیاں ہی جھاڑیاں دکھائی دیتی رہیں۔ شعور سنبھالنے کے بعد عنایت حسین بھٹی کی زبانی حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں روہی میں رہنے والی نازک نازو جٹیوں کا تذکرہ سنتے آ رہے تھے ، ہماری روہی میں آمد کا سن کر وہ سب کہیں انڈرگراؤنڈ ہوگئیں ، یا اس دن جٹیوں کی ہڑتال تھی ، ہمیں کوئی نازک جٹی کجا کوئی چڑیل بھی دکھائی نہ دی۔

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجیے

ایک یہ ہمارے نازک مزاج خالدنجیب ہیں، جب بھی کہیں سفر کریں تو دو چار حسینائیں یا کم ازکم ایک ادھ کافرادا ، کالی بلی کی طرح ان کا راستہ ضرور کاٹتی ہے۔ لیکن جب ہم غریبوں نے روزے رکھے تو دن ہی بڑے ہوگئے۔ ہم اسی افسردہ خیالی میں تھے کہ کامران اسلم کو ہم پہ رحم آگیا۔ فرمایا مرشد تیار ہو جائیں ، ابھی سامنے آپ کو کچھ دکھائی دے گا۔ ہم جس خیال میں تھے ، اسی حساب سے اس بات کا مطلب اخذکرلیا کہ شاید کوئی نازک جٹی دکھائی دے گی۔ ایک پلیا پار کرتے ہی ہمیں دوووووور سامنے الف لیلیٰ اور عمرو عیار کی کہانیوں کا ایک کردار دکھائی دیا۔

ایک سیاہی مائل ہیولہ صحرا کے سینے پہ پھیلا ہوا سر بلند کھڑا تھا۔ دیکھ کر ہمیں محسوس ہوا کہ یہ صحرا کے ظالم دیو کا محل ہے۔ جس نے روہی کی سب نازک جٹیوں کو اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ ایکاایکی ہم نے اپنے اندر وہ جوش ابھرتے ہوئے محسوس کیا ، جو کسی خوبصورت شہزادی کو چھڑانے کیلئے جانے والے جانباز شہزادے محسوس کرتے ہونگے۔تخیل میں ہم نے اپنے آپ کو اصیل گھوڑے پہ بیٹھا ہوا شہزادہ پایا ، جو ظالم صحرائی دیو کے پنجہِ استبداد سے نازک جٹیوں کو چھڑانے کیلئے برق رفتاری سے بڑھا چلا رہا ہے۔ جوں جوں دیو کا یہ محل قریب آتا گیا ، ہم نے اپنی شمشیرِ ادیتی راؤ حیدری بے نیام کرلی ، کہ بس پہنچتے ہی حملہ کردیں گے ، اور دیو کوسنبھلنے کا موقع دیے بغیر اس کا خاتمہ کرکے تمام نازک جٹیوں کو آزاد کردیں گے ، اور خود ان میں سے سب سے چلبلی جٹی کے ساتھ کسی ٹاہلی دے تھلے بہہ کر دیوانِ غالب کا جمالیاتی مطالعہ کریں گے۔ اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔

ہمارا گھوڑا دیو کے محل کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے گزرا ، تو ہم نے ان سب آدم زادوں کے چہرے پرتشنگی کے رسم الخط میں صحرائی دیو کا خوف لکھا ہوا دیکھا۔ ہم نے شمشیر کے دستے پر اپنی گرفت سخت کردی ، اور آگے بڑھے۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ کچھ کھنڈرات سے گزرتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہاں کبھی بارونق بازار ہوتا تھا ، اب کوئی آدم زاد باقی نہیں ، بازار کے کھنڈرات سے آگے بڑھے تو دیکھا کہ صرف بازار ہی ویران نہیں ، یہاں تو سارا شہر ہی ویران پڑا ہے۔ مکینوں کے بغیر مکانوں کے ڈھنڈار کھنڈر پڑے تھے۔ جیسے کوئی آدم خور دیو سارے شہر میں پھرا اور چن چن کر ہر ایک باشندے کو نگل گیا ہو۔ ہم اس شہر کے صدر دروازے پہ پہنچے ، دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور ڈیوڑھی سے وحشت برس رہی تھی۔ ہم نے دروازے سے پوچھا :۔ “یہ سب ویرانی کیسی ہے؟ اتنا بڑا شہر اور سارے کا سارا ویران ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟


دروازے نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھا اور ہذیانی آواز میں چلایا:۔”پیارے شہزادے اپنی جان بچاؤ اور بھاگ جاؤ۔ یہ دیو بہت ظالم ہے۔ تم اس طرف کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالنے آئے ہو۔”
ہم نے اپنی شمشیرِ آبدار کی چمک اسے دکھائی اور کہا :۔” تم فکر نہ کرو ، ہم اپنی تلوار سے اس دیو کا خاتمہ کردیں گے۔ بس تم ہمیں یہ بتاؤ کہ اس وقت وہ دیو کہاں ملے گا۔ آج ہمارے ہاتھوں اس کی خیرنہیں ہے۔”
دروازے کو جیسے ہماری بات سنائی ہی نہیں دی ، وہ چلایا:۔ “تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ، وہ دوسرے دیوؤں جیسا نہیں ہے کہ تمہارے سامنے مقابلے کیلئے میدان میں اترے گا۔ تم سے پہلے بھی کئی نواب کئی شہزادے اس دیو کا قلع قمع کرنے آئے تھے ، لیکن یہ دیو بہت مکار ہے۔ اس ظالم نے یہاں کے سب کنویں کھاری کردیے ہیں۔ کنووں کا پانی آدم زاد تو کیا مویشی بھی نہیں پی سکتے۔ یہی اس ظالم کا طریقہ واردات ہے۔ جب پیاس سب پہ حاوی ہو کر ان کے حواس مختل کر دیتی ہے۔ تو پھر یہ ایکویرئس دیوتا کے بہروپ میں پانی کی چھاگل لیے نمودار ہوتا ہے۔ اور پانی کے چند گھونٹ کے بدلے انہیں اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ جو اس کی غلامی قبول نہیں کرتے ، انہیں یہ کھا جاتا ہے ، اور ان کے گھروں کو ویران کھنڈر کردیتا ہے۔ یہ اتنا سفاک ہے کہ بچوں اور بے زبان جانوروں کو بھی نہیں بخشتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

ہم میں دیو کے مظالم کی یہ کہانی سننے کی مزید تاب نہ رہی ، دانت پیستے ہوئے ہم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دگڑ دگڑ کرتے ، محل کے دروزے سامنے جا رکے۔ جست لگا کر گھوڑے سے اترنا چاہا لیکن رکاب میں پاؤں پھنس گیا۔ ہم نے رکاب پر زور آزمائی کی تو ایک مانوس سی آواز کان پڑی :۔ “مرشد رکیں ، میں لاک کھولتا ہوں” ہم نے حیرانی سے سوچا یہ آواز تو سنی سنی لاگے ہے ، مگر کہاں سنی تھی۔ اچانک ذہن میں جھماکا ہوا اور ہمیں یاد آگیا کہ یہ کامران اسلم کی آواز ہے۔ حیرانی سے دائیں طرف دیکھا تو موصوف ہمارے پہلو میں بیٹھےمسکرا رہے تھے۔ ہماری حیرانی یہ سوچ کر دو چند ہو گئی کہ گھوڑے پہ دو سیٹوں والی ٹیکنالوجی کب ایجاد ہوئی۔ اسی حیرانی میں پیچھے دیکھا تو دو شناسا چہرے خالد نجیب اور محمد نواز احمد بھی بیٹھے دکھائی دیئے۔ اس سے پہلے کہ ہم چار سیٹوں والے گھوڑے پہ مزید حیران ہوتے ، رکاب سے ہمارا پاؤں آزاد ہوا اور ہمارے قدم پختہ روڑوں سے بھری زمین سے جا ٹکرائے۔ ہم نے دیکھا کہ ہم کسی گھوڑے سے نہیں ایک کلٹس سے اترے ہیں۔ اور ہمارے سامنے کسی دیو کا محل نہیں بلکہ قلعہ ڈیراور موجود ہے۔ نازک جٹی کا خیال آیا تو ہم نے ایک حسرت بھری نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی۔ آسمان پر جانے سے پہلے ہی تیس میٹر اونچائی پہ قلعے کے ایک دمدمے پر رنگین آنچل لہراتا نظر آیا۔ ہم نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا اور قلعے کے دروازے کی جانب بڑھے ، جہاں ایک چارپائی پہ خدام کا ایک ٹولہ اندر جانے والوں سے نذرانے وصول کر رہا تھا۔ دور کہیں کھنڈرات کے پار سے اک آواز آرہی تھی ، کوئی دیوانہ یک تارے پہ گا رہا تھا۔۔۔۔
میں تسا ۔۔۔ میڈی دھرتی تسی ۔۔۔
تسی روہی ڄائ ۔۔۔۔
میکوں آکھ نہ پنج دریائی ۔۔

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply