چندن جیسا سخنور۔۔۔جاوید حیات

اردو کے چند سوالات یاد کرنے کے بعد سفید پوشاک میں ملبوس وہ چار پانچ لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے ہوئے خضر علیہ السلام کے ڈیرے کی طرف چل پڑتے.

اس وقت غالباً میں چھٹی جماعت میں پڑھ رہا تھا. امتحانات ختم ہوتے ہی ہمارے سوالات یاد کرنے کا سلسلہ تھم گیا، لیکن ان سفید پوشاک پرندوں کی اڑان کبھی رکی نہیں. وہ مسلسل آبی ستاروں کی طرح کنارے پہ گردش کرتے رہے. اس زمانے میں کوئی دیوقامت کرین یہاں کھڑی نہیں تھی، نہ کوئی تاج محل تھا اور نہ ہی کوئی پہاڑ جیسا جہاز لنگر انداز تھا. NRC کی شکستہ عمارت کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ اکثر کسی ادبی مباحثے یا کسی افسانے پر تنقید یا کسی شعر کی جمالیات پر محوِگفتگو تھے.

زیادہ تر وہ چار لوگ ہی تھے، کبھی کبھی ان کے قافلے میں ایک دو دوست کم نظر آتے کیوں کہ ان میں ایک دو لوگ پیشے سے استاد ہیں اس لیے بعض اوقات ان کا دور کے گاؤں میں تبادلہ ہوتا تو وہ کنارے سے کوچ کر جاتے. لیکن غین نون گل کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا وہ کام کیا کرتا تھا، کبھی نیشنل اسپتال کے کاؤنٹر پر بیٹھا نظر آتا تو کبھی شاہی بازار میں بسکٹ اور چاکلیٹ بیچنے والی دکان پر ڈیرہ جماتے.

اس گلستاں میں گل کہیں نہیں تھا، وہ ہر قدم پہ کھلا تھا. وہ بلوچستان ٹاکیز سے تاج محل سینما سے آگے قدیم تاریخی بستی ملابند تک جاتے، پھر جماعت خانے کے پیچھے شاہی بازار کے تاج محل ہوٹل (کریمک ہوٹل) میں چائے پیتے. اس وقت میں کسی سے آشنا نہیں تھا، پھر مشاعروں اور ادبی نشستوں میں جان پہچان بڑھتی گئی. اس شہر کا ڈھانچہ تو دہائیوں پہلے مکمل ہو چکا تھا پر یہ لوگ ذرا بھی نہیں بدلے.
کل شام تک وہ بھی گھر کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اپنی آوارگی کو کسی بچے کی انگلی تھامے دیکھ رہا تھا جو شاہی بازار کی تنگ گلی میں ٹوٹے ہوئے سائے کھلونوں کی طرح جوڑ رہا تھا.

وہ اپنا راستہ نہیں بدلے. گلیاں اس کا راستہ تکتے تکتے سونی رہ گئیں. انگلیوں نے اچانک لبوں سے رشتہ توڑ دیا، سگریٹ کی ڈبیہ قمیض میں ہی اداس رہ گئی.

غین نون گل نے سادہ اور عام فہم الفاظ کے سہارے غزل میں رنگوں کی ایسی آمیزش بھر دی کہ بلوچی غزل کو ایک منفرد چہرہ ملا، جس میں گزرے زمانوں کا درد بھی دکھتا ہے اور آنے والے دنوں کی اداسیاں بھی جھلکتی ہیں. امید کی چاشنی کے ساتھ قدرت کے انمول جلوؤں کا خوش گوار احساس بھی ملتا ہے.

دیگر کئی شعرائے کرام کی غزل کا مرکز و محور صرف محبوب ہی قرار پاتا ہے لیکن غین نون گل کے ہاں غزل ماں کی لوری جیسی ہے.

گژنگیں زھگے کاپیانی سرا
نامء نانء وڑا نبشتہ کاں
زند بیت مہر بیت کہ دین بہ بیت
مارا دوست ایں چہ درستاں مات وتی

چندن جیسا یہ سخنور کائنات میں پھیلے قدرت کے بنائے ہوئے حسین شاہکاروں کا پرستار ہے، گل نیچر کا شاعر تھا. نہ اپنی مرضی سے کھلنے کی خواہش تھی نہ ہی مرجھانے کا غم. وہ سانسوں کی آخری لڑی تک چاند کی طرح کھلا تھا، جب ٹوٹ گیا تو زرد گلاب کی طرح بستر پر پڑا تھا.

چاراں ہر نیمگء کاگدء مردماں
اے زمین کاگدے آسماں کاگدے

وہ شروع میں اپنے نام کے ساتھ جالب تخلص رکھتے تھے، جالب ہی تو گل کو یہ شیریں سخن دے گئے.

حبیب جالب کے ہاں ہر لمحہ درد میں آگ پلتی ہے، پر غین نون گل کے ہاں آگ کے دریا میں بھی درد گلاب کی طرح کِھلتا ہے.

آپ ءٔ آسء گوں انچو ھواراں من گل
پُل اتاں کاگدیاں سچاں کاگدے

غ ن گل تو ہر لمحہ آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں تھا، وہ سورج کی روشنی کی طرح شہر کی ہر گلی میں پھیلا تھا، وہ سب کے اتنے قریب تھا اس نے کسی کو یاد کرنے کا موقع ہی نہیں دیا.

اس کے لہجے میں اتنی ٹھنڈک تھی
اس کی پلکوں پہ رک گئی بارش

وہ سب دوستوں کو الوداع کہہ کر رات کو تنہا گھر لوٹتا، مجھے آج بھی اس کا سایہ ان گلیوں کی دیواروں پہ تھکا ہوا دِکھتا ہے.

سورج کی اس بستی میں دو ایسے چاند گزرے ہیں، دنیا کے غم زمانے کے ستم سہہ کر بھی ان کے چہروں پر ایک لمحے کے لیے بھی اداسی نہیں پھیلی، نہ ہی کبھی گرہن لگا، نہ ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی شکایت تھی نہ لبوں پر کوئی شکوہ.

امام بخش امام اور غین نون گل سے جدا ہونے کا دکھ اس شہر کے سورج کو بھی اداس کر گیا.

اس برس مارچ کا آخری عشرہ بچھڑ جانے والوں کے صدموں سے بھرا پڑا تھا. 21 تاریخ سے 23 مارچ تک شہر میں درد کا نوحہ چھڑ گیا تھا، میں شام تک قبرستان میں بیٹھا رہا. بائیس مارچ کی رات غزل کا چاند ٹوٹ گیا اور کوہِ باتیل کی گود سونی ہوگئی. پرندوں کی چہکار خاموش ہو گئی، جنگل کے پیڑوں پر جیسے بجلی گر پڑی. کوہ میدی،گراب، جنبیل سب سوگ میں ہیں. بینڈ باجے اور ترانوں کے شور کے باوجود اس دن ہر آنکھ اشکبار تھی.

پاداں رکیناں کنٹگاں چہ وتی
چماں انگت منی اڈاں جنگل

یہ خبر سن کر آج جیسے گوادر میں طلوع ہونے والا سورج سویرے ہی ڈوب گیا ہو.

غین ن گل کو میں نے زیادہ تر سمندر کنارے اور شاہی بازار کی گلیوں میں دیکھا ہے.

ایک شام میں پدی کے نظاروں کی سیر کر رہا تھا کہ سامنے امبر سمین اور غین ن گل مجھے نظر آئے. ان دونوں کی آنکھوں میں بھی سمندر کا دکھ چھلک رہا تھا. اس خوددار اور لازوال کردار میں زندگی کا رس اتنا بھرا تھا موت کی تلخیاں بھی اس کی زباں سے اترتے ہی شہد میں بدل گئی ہوں گی، یہ غم اتنا بڑا ہے جیسے اس شہر میں پہلی بار کوئی شخص مرا ہے.

پچھلے دو دنوں سے جنازوں کے ہمراہ قبرستان میں ہی وقت کٹ رہا ہے. آج پھر خود بخود شہر خموشاں کی جانب قدم بڑھ رہے ہیں.

اگلے سال غین نون گل کی برسی پر سارا شہر سفید کپڑوں میں سجے گا. یہ درد جلدی تھم جانے والا نہیں ہے. غزل خود سفید ساڑھی پہنے مدتوں تک سوگ میں رہے گی.

مست، وارث، لطیف، بلھے شاہ
مئے اوں ہر سال عرس دارگ بیت

ان سفید پرندے دوستوں کی ایک چیز مشترک تھی؛ وہ سارے سفید کپڑے پہنتے تھے، سردیوں کے موسم میں چند ایک کوٹ اور واسکٹ بھی پہنتے ہیں، کندھے پر شال بھی اوڑھ لیتے ہیں، گل نے شاید قمیض کے نیچے بنیان یا سوئیٹر پہنا ہو مگر اس نے اپنے شانے پر کبھی رومال رکھنے نہیں دیا.

ہر کس پہ وت جوڑ کنان انت دنیائے
من بس پہ وت زٔرت کسانیں آدینکے

میں ان سے ملاقات کے بعد اکثر یہ سوچتا، ان کے پاس کوئی دوسرے رنگ کا کپڑا نہیں ہے، پھر مجھے یہ خیال آتا ان پر کوئی اور رنگ جچتا بھی نہیں ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

چندن جیسا یہ سخنور سفید کپڑوں میں ہمیشہ کے لیے جزیروں کے پار چلا گیا.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply