راقم الحروف نے ۱۹۶۰ کے لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے، (سبھی متعلقات ِ فعل کو ان کی صحیح جگہ پر برقرار رکھتے ہوئے )رن۔آن۔لائنز کے اسی فارمولے کو آزمایا جس پر چل کر شیکسپیئر اور مارلو ؔنے اپنے کرداروں کے مکالمات لکھے تھے۔ یہاں تک کہ انگریزی عروض یعنی “ایمبِک پیرا میٹر” میں مستعدی سے پاؤں جمائے ہوئے سطور کی قطع و برید اس طرح کی تھی کہ نفس ِ مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا ، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک ، اور بعض اوقات ما بعد سطر سے بھی منسلک اگلی سطر تک ایک جھرنے کی طرح سے بہتا چلا جائے۔ (کتھا چار جنموں کی )
(اقتباس القط)
اس تجربے کے معرض وجود میں آنے کے کوئی بیس برس بعد جب ۱۹۸۰ میں ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ـ’’دست ِ برگـ ‘‘کے عنوان سے چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے مجھے لکھا۔۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دیے بغیر اردو میں بلینک ورس کے لیے رن۔آن۔لائنز کی یہ سہولیت وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی جسے آپ نےپورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پرآپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی کتاب کے ’’ ـاختتامیہ‘‘ میں یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحسن قرار پائے گا۔‘‘
ایک سو نظمیں، جو سب کی سب بحر خفیف میں تھیں ،کسی ایسے استعارے پر استوار تھیں جسے ہر قاری اپنی نسلی ،تہذیبی یا مذہبی یاداشت سے فوری طور پر مربوط کر سکتا ہے۔ ایک نظم دیکھیں، جس میں عید کا چاند اور رام چندر کے چودہ برس کے بنباس کو استعاراتی جامہ پہنایا گیا ہے۔
جانے والے نے عید کا دن ہی
کیوں چنا، اس سے کوئی کیا پوچھے
چاند کی پہلی رات تھی، اور آج
چاند کی چودھویں ہے ، چودہ دن
دن نہیں ہیں، طویل تر عرصہ
چودہ برسوں کا ہے، جسے میں نے
ذہن کے جنگلوں میں پھرتے ہوئے
گھر کی دہلیز پر گذارا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نمونہ جات اور ملاحظہ فرمائیں۔
وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے
جھانکتا ہے کہ دور سے کوئی
راہ رو آئے، اور وہ اس کو
گھر میں مدعو کرے، محبت سے
بیٹھ کر گفتگو کے، اس کو
اس حقیقت کا کوئی علم نہیں
شہر کی موت ہو چکی۔۔۔اور وہ
(اپنی کھڑکی سے جھانکنے والا)
اک اکیلا ہے ساری دنیا میں
نسل کا آخری نمائندہ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرط تھی واپسی کی، دونوں مُڑے
آئے، چوکھٹ کے پاس آ کے رکے
گھر وہی تھا، کواڑ پہلے سے
کچھ زیادہ پرانے لگتے تھے
دونوں داخل ہوئے تو پاوءں میں
کانچ سا چُبھ گیا، جھُکے، دیکھا
سات برسوں کی جس رفاقت کو
بھول بیٹھے تھے، اس کے ٹوٹے ہوئے
عکس کا اک پرانا ریزہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانپ سے خوف اب نہیں آتا۔
سانپ کا زہر تو میں جھیل چکا
اب مجھے بین کے سُروں سے بہت
خوف آتا ہے، ان کا کاٹا ہوا
کبھی تریاق سے نہیں بچتا۔
پھر یوں ہوا کہ جیسےدبے پاوٗں ہی، میری اس ’نو نیازآمدہ ‘جدت کا ذکر کیے بغیر، یہ چلن لگ بھگ سب آزاد نظم لکھنے والوں نے اختیار کر لیا اور کچھ برسوں میں ہی یہ طریق ِ کار ایسے مقبول ہوا جیسے صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہو۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مکتوب میں نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا: ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ ۱۹۷۰ سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر اسّی یا نوّے کی دہائی ، یا اس کے بعد لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر )اپنی نئی نظموں میں رن ٔآن لائنز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی ۔۔۔اب میں خود سے پوچھتا ہوں ۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ نہیں؟‘‘
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں