شعور کا المیہ

میں کہ سبب ہوں مسند اشرفیت الخلق پر آدم کی براجمانی کا، مگر بدنصیب ہوں،
میں کہ ذوالقرنین ہوں ظرف انسانیت کو چاٹتی حیوانی کا، مگر بد نصیب ہوں،
میں خود ہی کمال ہوں، خود ہی پیمانہ کمال، مگر زوال حال ہوں۔
میرے مرکب حیاتِ میں جذبات، حسیات، خیال، سوال، عقل، فہم اور علم کے خزانے لپیٹ کر زمانے کی بے حسی کے گرداب میں دفنا دیا گیا۔
زہے نصیب کہ سمے کی ہر نئی لہر کے ساتھ میرا ایک نیا دشمن آتا رہا اور مجھے حیات نو بخشتا رہا۔
میں تو جیسے کوئی فریفتہ رقاصہ ہوں جو پیاسے محبوب کے تلووں کی راحت بننے کو بے تاب ہے۔
اور یہ فریضہ تو کوئی دشمن ہی انجام دے سکتا ہے۔
وائے نصیبا کہ ہوئے اعداء ناپید!
مجھے ان تماش بینوں سے کیا غرض کہ جن کی قوت سماعت و بصارت محض چشمان و گوش تک محدود ہے۔
مجھے تلاش اس ہتھیارے کی ہے جو مجھے صعوبت عدم آگہی کے چکلے سے اٹھا لے جائے ، میرا ظاہر پائمال کر دے اور بے کراں روح کو گدی سے کھینچ کر کسی سخی قدردان کے قدموں میں بھینٹ کر دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

محو یاس ہوں، سراپا پیاس ہوں، نوائے حسرت ہوں، کسی نوخیز سوچ کے کنوارے بوسے کا طلبگار ہوں۔
میری فتح سے نا اندیش سماج ہر دور میں مجھے مضحمل و پامال کر کے اپنی حیوانی جبلت کو تسکین دیتا رہا اور مجھے حیات نو ملتی رہی!
ناوک دشنام سہے، درد کے نشتر نے چیرا، خارپوش آلام ہوا ۔۔۔ پہ دیپک پیغام کو دم قلب سے جلا ملتی رہی۔
مجھے پہچان لینے والا ہر آدم رسوا ہوا، میرے عشق میں اسیر ہر سوچ کاری کر دی گئی، میرے وجود کے مسجود قلوب کا لہو سینچ کر مقاتل کے در و دیوار سجائے گئے۔
میں نے مصر کے چاند کو گہن سے بچایا تو زنداں کی مہمانی ملی۔
میں نے نیل پر ضرب لگائی تو ہمنواؤں کی بے رخی سہی۔
میں جن کے سہارے الفت اور شفا بانٹتا تھا، وہ ہاتھ سولی کی میخوں میں جڑ دیے گئے۔
میں بہشت کی کنجیاں بانٹنے گیا تو پا بہ لہو لوٹا۔
میں نے حیوانیت کے آئین پر بیعت کی مہر ثبت کرنے سے انکار کیا، تو میرے ان لبوں کو پیاسا بھون دیا گیا جن سے رحمت دوعالم سیراب ہوتی تھی۔
میں نے انا الحق کا نغمہ چھیڑا تو صلیب جہل پر لٹکا، تاثیر حیوانی ہر دور میں میری ممتازی کو بھنبھوڑتی رہی،
میرے اعداء ہر دور میں میری فتح کو اپنی جیت سے تعبیر کرتے رہے، میں ہر سزا پہ مسکراتا رہا، مگر لوح کے نئے پنے پر جو سزا میرے لیے مجوز و مرقوم ہے، وہ ناقابل برداشت ہے!
مجھے آزادی دے دی گئی ہے، میں محرک و آگاہ بنا کر مرقد جبر سے آزاد کر دیا گیا ہوں، ہائے یہ بے سودگی کہ تاحد نگہ گورستان زندگی نہ زندگی کا نشان، ہر سو چلتی پھرتی ہنستی گاتی بولتی سنتی لاشوں کے انبار۔
نعشوں کے انبار میں تنہا زندہ رہنا شدید تر اذیت ہے!
آج میں آزاد ہوں مگر بے نصیب ہوں، ابلاغ میں پکارتا ہوں، اوعاظ میں چنگھاڑتا ہوں، مناظر میں دھاڑتا ہوں، ادیب کے ادب کا سنگھار ہوں، شاعر کی سوچ کا معمار ہوں، نئے کھلونوں کی چھنچھناہٹ میں گنگنا رہا ہوں، لذت درد سے آگاہ انگلیوں میں رقص کر رہا ہوں، ، مگر گریہ زار ہوں اور ماتم کناں ہوں کہ صدیوں کے سفر لمحوں میں طے کر کے سماج کی ہر اکائی تک کی رسائی مجھے حاصل ہے، لیکن آنکھوں اور کانوں سے دل اور دماغ تک کا مہین پردہ چاک کرنے سے قاصر ہوں۔
میں لمحہ لمحہ دم توڑ رہا ہوں،
میری حیات تب تک بقید تھی جب تک میں عشاق اور اعداء کے معرکوں کا باعث تھا،
میرا نوحہ سنو،
میرا گریہ محسوس کرو،
آہ بھرو،
نیر بہاؤ، دل سلگاؤ،،
یا مذاق بناؤ،
ٹھٹھے اڑاؤ،
انگلی اٹھاؤ، مگر پہچان لو،
محبت دو یا عداوت،
بس پہچان لو،
اور پھر سے جاوداں کر دو!

Facebook Comments

اسحاق جنجوعہ
کوئ خاص نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply