ان طبیبوں سے اللہ بچائے

ہم کوئی حکیم طبیب تو نہیں پر بیمار بندے کو دیکھ کے ہمارے اندر سے حکمت خود بخود نکل باہر آتی ہے یہ عادت ہمارے جغرافیائی خمیر کی پیدوار ہے. کیونکہ ہمارے ادھر پاکستان میں جوتی گا نٹھتاہوا موچی بھی مرض کے ذکر پہ اچھا خاصا ڈاکٹر بن جاتا ہےابتدا میں اپنی یہ حکمت دانی خود اپنے پہ بھی راز تھی ،جو بعد میں تب کھلی جب پہلی مرتبہ ہم اک پختہ کار حکیم صاحب کے آستانہ پہ حاضر ہوئے ۔حکیم صاحب سفید ریش نورانی چہرے والے فرشتہ نما شخص تھے جو نبض پہ ہاتھ رکھ کے مرض پکڑتے تھے، اس دن انہوں نے ابا حضور کا نبض دیکھ کے مرض پکڑا ،یا نہیں ہم نہیں جانتے، البتہ ہمارا چہرہ دیکھ کے ہمارے اندر کی حکمت دانی ضرور پکڑ لی ۔ابا سے کہنے لگے اس لڑکے کو میرے پاس چھوڑ جاو ،میں اپنی حکمت کے سارے راز اس پہ منکشف کرنا چاہتا ہوں۔
ابا نے ہمارے سینے کو حکیموں کے سربستہ راز سنبھالنے کا اہل نہ جانا اور انکار کر دیا ۔البتہ ہمیں اس دن سے اپنے متعلق اچھا خاصا حکیم ہونے کا گمان گذرنے لگا کہ ایسے کہنہ مشق حکیم نے ہمیں اپنی شاگردی کے قابل جانا ۔آخر اپنے میں کچھ تو ہے ،یوں تو چہ مگوئیاں ذکر غیر میں نہیں۔ وہ تو اچھا ہوا ،ابا کو انسانیت کی بقا مطلوب تھی جو مجھے حکیم صاحب کے سپرد نہ کیا ورنہ اب تک اپنی قابلیت سے سو دو سو مریضوں کی مرضیں تو ہمیشہ کیلئے ختم شد کر چکا ہوتا۔خود پہ حکیم کا گمان گذرنے کے بعد ہم نے جتنے مریضوں کی تشخیص کی وہ بالکل صحیح بیٹھی۔ مثلاً اک دفعہ سخت سردیوں میں ہماری بھتیجی کے ناک سے پانی بہنے لگا تو ہم نے زکام تشخیص کیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر نے بھی ہماری تشخیص سے اک حرف آگے پیچھے کا نہ کہا ۔اک تشخیص نے تو پورے خاندان میں ہماری حکمت کے ڈنکے پیٹ دیے۔ کیونکہ ہم نے اپنے خاندان کی اک لڑکی کو صحیح نہ چلتے ہوئے دیکھ کر لنگڑا پن تشخیص کیا تھا اور ڈاکٹروں نے ہماری تشخیص پہ کلمہ لبیک دھرایا۔ہماری سب سے حکیمانہ تشخیص وہ تھی جب ہمیں ٹیلی ویژن کے ذریعے اپنے وزیر اعظم صاحب کے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کی خبر ملی۔ ہم نے اسی وقت "لندن کی یاد" تشخیص فرمائی اور ڈاکٹروں نے گویا کہا کہ یہ بھی ہمارے دل میں تھا۔ فورا ًسے قبل وزیر اعظم صاحب کو لندن بھیجنے کے انتظامات کرنے کا حکم صاد کیا۔
یہ بات یاد رکھیے کہ جو طبیب تشخیص کر لیتا ہے ص،حیح علاج بھی وہی بتلا سکتا ہے اور اب جبکہ ہماری تشخیص کے جوہر آپ پر کھل چکے ہیں تو آئیے علاج بھی سنیے۔
ہمارے نزدیک بیماری کے علاج کیلئے دوا کا استعمال مضر ہے۔ آپ دوا سے مرض کا علاج تو کیا کریں گے البتہ اس دوا کی مہربانی سے اک دو اور بیماریوں کا اضافہ ضرور کر بیٹھیں گے ،اب وہ کیفیت جسے آپ دافع مرض سمجھ رہے ہیں حقیقت میں اس دوا سے پیدا ہونے والا وہ دوسرا شدید مرض ہے جس نے آپ کو پہلے کم تر مرض سے بیگانہ کر دیا ہے ۔یہ دوا کا معاملہ بالکل ایسے ہی چلتا ہے جیسے ہمارے ہاں سیاست کا کاروبار چلتا ہے ۔اک نسبتا ًکم تر ناسور جب پھیلتے پھیلتے اس مقام تک جا پہنچے کہ حکومت وقت کی بساط لپیٹنے کو کافی ہو جائے تو اک دوسرا بڑا ناسور خود سے پیدا کر لیا جاتا ہے جو پہلے کم تر ناسور کو ختم تو نہ کر سکتا ہو البتہ بھلاضرور دے ۔سیاست میں یہ طرز متعارف کروانے والے ہمارے یہ لیڈر کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے، البتہ عدالت سے بھاگتے ہوئے ہم نے انہیں پیچھے مڑ کے دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
ہماری سیاست اب تک اسی طرز پہ قائم ہے اور جب تک رہے گی اس کار خیر کا اجر مذکورہ لیڈر کو پہنچتا رہے گا۔خیر ادویات کے مہلک اثرات واضح ہیں ۔خدارا ان کو خیر باد کہیے۔ جسمانی و قومی ہر دو ناسوروں کا علاج عمدہ خوراک سے کریں ۔وہ علاج جو مستقل اور دیرپا ہو ،اور ادویات اس آخری حد پہ جا کر استعمال کریں کہ جب آپکے دنداں مبارک خوراک چبانے سے عاجز آ جائیں اور آپ کو مجبوراً دوا نگلنا پڑے۔

Facebook Comments

شعیب کیلانی
اردو ادب کا قاری ہوں اور کبھی کھبار لکھ بھی لیتا ہوں طنزیہ انداز بیان مرغوب ہے اور اسی میں ہی طبع آزما ہوں ہنسی کھیل میں معاشرے کے سلگتے مسائل حل کرنے پہ یقین رکھتا ہوں مستقل ٹھکانہ کوئی نہیں غریب الوطنی کی سی حالت میں کٹ رہی ہے اور اسی میں خوش ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply