• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

یہ  تحریر سوچتے ہوئے قرآن کی آیت “لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ” میرے ذہن میں گونج رہی ہے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ایسے سماج کا نقشہ ہمارے پاس ہے جہاں کوئی آقا کوئی محکوم نہیں ہو گا۔ ہم ایک پُرامن سماج کی بات کرتے ہیں۔ ہم معاشی و سماجی مساوات کا پرچار کرتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے اکثریت کی طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔

سب سے بھیانک غلط العام یہ ہے کہ انسان فطرتاً خود غرض اور تشدد پسند ہے۔ عموما ًًً ہمیں یہ بات بار بار سننے کو ملتی ہے کہ مشترکہ بھلائی، اجتماعی مفاد اور یکجہتی کی بنیاد پر ایک منصفانہ معاشرے کی تعمیر ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ انسان اپنی فطری خود غرضی کی بِنا پر ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ تشدد، خودغرضی اور دوسروں کی پرواہ کیے بِنا آگے بڑھنے کی حس انسانی فطرت کا جزوِ لاینفک ہیں  لیکن یہ جھوٹ ہے اور لغو ہے ۔

قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق پیرس کے ریسرچ ڈائرکٹر  “میریلین پیٹیو میتھس” کا ایک دلچسپ مضمون جولائی 2015ء کو “Le Monde diplomatique” میگزین میں شائع ہوا تھا.۔اس مضمون کا عنوان بھی بہت جاندار تھا، “نہیں! انسان ہمیشہ سے جنگوں کا سامنا نہیں کر رہا”۔۔۔۔ یہ مضمون ایسا تیر ہے جو سیدھا نشانہ پہ جا لگتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں بتایا گیا کہ کیسے انسانی جنگوں کا آغاز آج سے تقریباً دس ہزار سال قبل پتھر کے دور کے آخر میں ہوا تھا۔یہ وہی دور ہے جب پیداواری معیشت، وسائل کے ارتکاز اور پیداواری ڈھانچوں میں تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔

رجعتی خیالات کے حامل افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان موروثی طور پہ تشدد پسند ہے۔ جبکہ علم الاعصاب کے ماہرین اور سائنسدانوں کے مطابق یہ خیال درست نہیں ہے۔علم الاعصاب کے میدان میں ہونے والی کئی ایک تحقیقات کے مطابق تشدد پسندی کا تعین موروثی بنیادوں پہ نہیں ہو سکتا۔نیورو سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی تشدد کے واقعات کو خاندان، سماج اور ثقافتی عوامل کے تحت سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جبکہ ماہرینِ سماجیات، بشریات اور نفسیات اِس بات پہ متفق ہیں کہ انسان فطری طور پر ہمدرد اور حساس ہوتا ہے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قدیم ترین سماج کے لوگ کیسے اشتراکی طور طریقوں سے زندگیاں گزارتے تھے، وہ بیماروں، محتاجوں اور معذوروں کا بھر پور دھیان رکھتے تھے۔اور تاریخی طور پر یہ سب ثابت شدہ ہے۔

تاریخ میں باضابطہ طور پر تشدد کے واقعات کی اولین نشانیاں پیداواری رشتوں میں تبدیلیوں کے آغاز میں ملتی ہیں ۔ زرعی پیداوار اور جانوروں کو پالتو بنانے سے پیداوار میں ہوشربا اضافہ ہونے لگا۔زراعت میں ترقی اور جانوروں کو پالتو بنانے سے کام کی سماجی تقسیم پیدا ہوئی اور ایک “اشرافیہ” نام کا طبقہ پیدا ہوا

پتھر کے زمانے میں بڑے بڑے کھیتوں میں افرادی قوت کی مانگ پیدا ہوئی، اور اِسی طرح بعد میں پیتل کے زمانے میں تجارت کو فروغ مِلا۔جنگ کیلئے استعمال ہونے والے جنگجوؤں کے خاندان اور قبائل بھی اِسی عہد میں وجود میں آئے۔ انسان کے پیتل کے عہد میں آنے تک جنگجوئی باضابطہ طور پر ایک پیشے کا روپ دھار چکی تھی۔ جنگ ایک ادارتی معاملے کا روپ دھار چکی تھی، اِسکے ساتھ ہی غلامی کی ابتدائی شکلیں سامنے آئیں۔جنگی قیدیوں کو بڑے بڑے کھلیانوں میں جان مارنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ہم دیکھتے ہیں کہ منافع کی لالچ، زائد پیداوار اور تشدد کا آغاز ایک ہی زمانے کے معاملات ہیں۔

لیکن پتھر کے عہد کی زرعی ترقی اور پیتل کے عہد کی کاروباری ترقی سے پہلے “زمانہ ما قبل از تاریخ” کے عہد میں معاشی اور سماجی عدم مساوات کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ اُس سماج میں کوئی آقا نہیں تھا اور اِس عہد کی عمر انسانی تاریخ کی طویل ترین عمر ہے ۔ ہمدردی، اشتراک اور تعاون کی فطری نفسیات نے انسانی نوع کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج یہی انسان مقابلے بازی، خودغرضی اور طبقاتی تقسیم کا شکار نظر آتا ہے۔ اِس کی بھی وجوہات ہیں۔۔

“جدلیاتی مادیت” ہمیں دیوار کے اُس پار دیکھنا سکھاتی ہے۔انسانوں کے بیچ نظر آنے والی عدم مساوات، مقابلے بازی اور خودغرضی کو سائنسی بنیادوں پہ ثابت کرنا ممکن نہیں۔موجودہ انسانی نفسیات نجی ملکیت، پیداوار کے انبار اور سرمایہ داری کی نفسیات ہیں۔بیگانگی اور جنگی جنون اپنی طاقت اور اپنی دولت میں اضافے کی خواہش کے منطقی نتائج ہیں۔

جنگوں، تشدد، خودغرضی، ہوس اور عدم مساوات کا خاتمہ  ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور طبقاتی تقسیم کے خاتمے میں مضمر ہے۔بھوک کا خاتمہ خوراک مہیا کرنے سے ہوگا۔انسانی وحشت کا خاتمہ انسانی وحشت کے اسباب کو ختم کرنے سے ممکن ہوگا۔ آپ دس بھوکے آدمیوں کو بیس افراد کیلئے کافی خوراک مہیا کردیں اور یہ بھی یقین دلا دیں کہ اُنکو بلاتعطل خوراک کی فراہمی جاری رہے گی تو وہ بیس افراد خوراک پہ جھگڑا کریں گے نہ ہی خوراک کی  ذخیرہ اندوزی کریں گے۔۔لیکن اگر بیس افراد کو دس افراد کیلئے کافی خوراک دیں گے تو اُن افراد میں خود غرضی اور ہوس عود  کر آئے گی۔ وہ افراد زیادہ سے زیادہ خوراک کے حصول کیلئے نہ  صرف  لڑیں گے اور زیادہ سے زیادہ خوراک کو  ذخیرہ کرنے کی سعی بھی کریں گے۔

لہذا یہ نفسیات قلت کی نفسیات ہیں اور قلت بھی مصنوعی۔۔۔نہ ہی لباس کیلئے وسائل کی کمی ہے، نہ خوراک اور نہ رہائش۔۔ اتنی ادویات میسر ہیں کہ کوئی بیمار علاج کی عدم دستیابی پر موت کے منہ میں نہ جائے  لیکن یہ نظامِ زر وسائل پہ چند لوگوں کے تصرف کا نظام ہے، جس کی کوکھ سے جنگیں، تشدد، چوریاں، خودغرضی جیسے غیر فطری عناصر ابھر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر سوچتے ہوئے قرآن کی آیت “لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ” میرے ذہن میں گونج رہی ہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply