دربار اکبری اور دربار نیازی۔۔۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

دین الٰہی میں آفتاب کی عبادت دن میں چار وقت لازمی طور پر کی جاتی تھی۔ جس میں ایک ہزار سورج کے ہندی ناموں کو وظیفہ بنا کر صرف عبادت ہی نہیں کی جاتی بلکہ ربوبیت میں بھی اس کو شریک ٹھہرایا جاتا تھا۔ یعنی سارے عالم کو داد و دہش کرنے والا اور بادشاہوں کا مربی وسرپرست سورج ہے۔ بادشاہ کا لباس سات ستاروں کے رنگ کے موافق ہوتا جو ہر دن کسی ستارے سے منسوب ہوتا تھا۔ بادشاہ کے سجدے کو واجب قرار دیا گیا تھا جس کا نام زمین بوس رکھا گیا ۔ اسی شرک کو توحید الٰہی کے نام سے موسوم کیا گیا اور یہ طے کر دیا گیا کہ مریدوں کو مکلف کریں کہ کلمہ (لا الہ الااللہ)کے ساتھ اعلانیہ طور پر (اکبر خلیفتہ اللہ)کہیں۔ اور جس جماعت کو مرید کرتے اس کا نام الٰہی رکھتے تھے۔ جب مرید ایک دوسرے سے ملتے تو ایک اللہ اکبر کہتا اور دوسرا جل جلالہ کہتا۔ سود اور جوا حلال کردیا گیا جوا گھر خاص دربار میں بنایا گیا اور جواریوں کو شاہی خزانے سے سودی قرض دیا جاتا تھا۔ سود، جوا اور شراب کی حلت کے بعد دین الہٰی میں سب سے زیادہ زور جس چیز پر دیا جاتا وہ ریش تراشی کا مسئلہ تھا چنانچہ داڑھی منڈوانے نے کی تائید میں جھوٹے  دلائل کا دریا بہا دیا گیا اور دربار اکبری کے بڑے بڑے علمائے سؤ روزمرّہ اپنی داڑھیاں بادشاہ کے قدموں پر نثار کرتے تھے۔ سور کی ناپاکی کو پاک تصور کیا گیا۔ اور بارہ سال سے کم عمر لڑکوں کا ختنہ نہ کرنے کا حکم دیا تاکہ بارہ سال کے عمر کے بعد چاہے کرے یا نہ کرے لڑکے کو اختیار دیا گیا۔ مردوں کے لیے سونا اور ریشم نہ صرف حلال بلکہ قریب قریب وجوب کی حد تک پہنچا دیا گیا۔۔۔۔

ہند میں دین اسلام کے پھیلنے کے بعد جب پے درپے مسلم سلاطین آئے اور انہوں نے صرف ہندوستان کو ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے دلوں کو بھی فتح کیا اور اسلام ایک طرح سے ہندوستان کا سرکاری مذہب قرار پایا تو پھر یہ کیا وجہ تھی کہ تاجدارِ ہندوستان جلال الدین محمد اکبر نے تمام مذاہب کے مجموعے کو دین الٰہی کا نام دیکر اسے ملک کا آئین بنادیا؟ ۔

اس کی وجہ کچھ یوں بنی کہ جب مختلف ممالک کے دانشمند اور دیگر مذاہب وادیان کے لوگ دربار شاہی میں جمع ہو کر بادشاہ کے ہم زبانی کا شرف حاصل کرنے لگے اور بحث و مباحثہ کرنے والے مولوی ایک کثیر تعداد میں جمع ہونے لگے تو شروع شروع میں پہلا جھگڑا نشست گاہ پر چلا۔ ہر ایک بادشاہ سے قریب ہونا چاہتا تھا۔ تو جب بہت کچھ بےہودگیاں اس گروہ سے ظاہر ہوئیں اور ایک دوسرے پر زبان کی تلواریں نکال کر تکفیر کرنے لگے اور ایک دوسرے کو گمراہ ثابت کرنے میں ان کی گردنوں کی رگیں پھول آئیں اور شور ہونے لگا تو بادشاہ کے متاثرہ قلب پر ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ کیونکہ بادشاہ اپنے زمانے کے مولویوں کو رازی اور غزالی سے بھی بہتر تصور کرتا تھا۔ لیکن صبح و شام شاہی دربار مولویوں کی ان دینی ہنگاموں سے گونجتا رہتا تھا اگر ایک ان میں سے ایک فعل کو حرام کہتا تو دوسرا کسی حیلہ سے اسے حلال ثابت کرتا تھا۔ ان کا یہ اختلاف بادشاہ کے انکار کا سبب بن گیا اور بادشاہ ان کے چھچھورپن کو دیکھ کر سامنے والوں پر غائب والوں کو قیاس کرکے سلف کا بھی منکر ہو گیا۔ اور بعض درباری مولویوں نے بادشاہ کو قرآن کی آیت (اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم) دلیل کے طور پر پیش کرکے یہ باور کرایا کہ خدا کے نزدیک سلطان اول کا درجہ مجتہد کے درجے سے زیادہ ہے ۔ اگر بادشاہ اپنے ذہن ثاقب اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی معاشی سہولتوں اور دنیاوی انتظام کی آسانیوں کو مدنظر رکھ کر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو مسلک قرار دیں تو بادشاہ کا یہ فیصلہ متفقہ سمجھا جائے گا اور رعایا پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ اب سلسلہ تحقیقات میں اسلام کا نام تختہ سے مٹا دیا گیا۔ او آخر کار طریقہ یہ رہ گیا کہ مسلمانوں کے سوا جس شخص کی جو بات پسند آجاتی اس کا انتخاب کرلیا جاتا تھا۔ چنانچہ ملک فرنگ کے مرتاض دانشمندوں کے گروہ نے دربار شاہی میں انجیل کو پیش کیا اور ثالث ثلاثہ کے متعلق دلائل پیش کئے۔ ولایتِ گجرات کے شہر نوساری سے آتش پرست آئے جنہوں نے زردشت کے دین کی حقیقت پیش کی یہ لوگ آگ کی تعظیم کو بڑی عبادت تصور کرتے تھے۔ ان کی دلداری کے لیے ابو الفضل کی نگرانی میں حکم دیا گیا کہ ہمیشہ رات دن شاہی محل میں آگ روشن رکھنے کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پارسیوں، نصرانیوں اور مجوسیوں کے بھی دین کے کچھ اجزاء اس جدید دین میں شریک کیے گئے۔ لیکن سب سے زیادہ دین اکبری میں ہندوؤں کے عقائد و اعمال اور رسوم و طریقوں کو جگہ ملی کیونکہ ایک زمانے تک دیوی برہمن جو مہابھارت کی کہانی کہنے والا تھا اس کو چارپائی پر بٹھا کر اوپر کھینچ کر اس قصر کے پاس جس کو بادشاہ نے اپنا خواب گاہ بنایا ہوا تھا اس کو معلق رکھا جاتا اور اس سے ہندوستانی اسرار نیز بتوں، ستاروں کی تعظیم کے آداب، ہندوؤں کے جو بڑے لوگ گزرے ہیں مثلاً برہما، مہادیو، کشن مہامائی وغیرہ کے احترام کی صورتیں سنتا اور اس کی جانب مائل ہو کر اسے قبول کرتا تھا۔ جس کے نتیجے میں اکبر نے اصلاح کے بجائے فساد کی طرف قدم بڑھایا اور ایک نئے مذہب کی ترتیب شروع کردی جس کا نام اس نے دین الہٰی رکھا۔

ماضی ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جسے یاد رکھ کر مہذب قومیں اپنا حال اور مستقبل روشن بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ انسان کو جب سے خلیفتہ الارض بنایا گیا ہے یہ ہمیشہ سے ایک ہی جیسے کردار مختلف شکلوں اور ناموں کے ساتھ نبھاتا چلا آرہا ہے وہ یہ کہ جب بھی اس کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے تو گرد و پیش کے لوگ اسے اس طاقت کو غلط استعمال کرنے پر ابھارتے ہیں۔ جیسا کہ آپ عہد اکبری میں پڑھ چکے ہیں۔ اکبر کو کہا گیا کہ آپ تو سلطان اول ہیں  آپ صاحب امر ہیں ، آپ جس پہلؤ کو ترجیح دیں  اسی کو مسلک قرار دیا جائے گا۔ کیا آج کے درباری مولوی اور وزراء یہ نہیں کہہ رہےہیں کہ کپتان نیازی مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنارہا ہے. اور بعض تو برملا اعتراف کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد عمران خان بڑا آدمی ہے۔ یعنی انہوں نے اکبر خلیفتہ اللہ کہا تھا جس کے بہت سے معنی اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہاں تو صریح الفاظ میں اللّٰہ کے بعد عمران نیازی کو اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے۔ دربار اکبری میں اگر علمائے اسلام سے پوچھا نہیں جاتا تھا لیکن درباری مولوی اور اہل حق علماء موجود رہتے تھے اور یہاں تو پوری پوری مذہبی پارٹیوں کو دربار نیازی سے نکال دیا گیا ہے۔ اور اس  سے بھی بڑھ کر ظلم یہ کیا جارہاہے کہ مولانا سمیع الحق جیسے اکابر علماء شہید ہورہےہیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی جیسی  عالمگیر شخصیت پر بھی حملہ کیا گیا لیکن خدا کے فضل سے وہ محفوظ رہے۔ دربار اکبری میں جوا ان لوگوں کے لیے حلال تھا جو شاھی خزانے سے سود پر قرض لیتے تھے اور نیازی کے سلطنت میں کرپشن ان لوگوں کے لیے حلال ہے جو ان کو خدا کے بعد اعلیٰ درجہ دے۔ اگر ایک خاندان جو کئی عشروں سے ملک کے بڑے کارخانوں کے مالک ہو وہ کرپٹ ہیں لیکن علیمہ باجی جو ایک سلائی مشین کی بدولت اربوں روپے کی مالک بن گئی ہے وہ احتساب کے عمل میں بھی پاس ہوگئی ہے؟ نیازی کا حمایتی نااہل ہونے کے باوجود اہم حکومتی اجلاس میں شریک ہو سکتا ہے لیکن اس کا مخالف نااہل ہوتے ہی اسیر کردیا جاتاہے؟ دربار اکبری میں دوسرے مذاھب کے لوگ آکر اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور دربار نیازی کی ایک وزیر پارلیمنٹ میں کھڑی ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد جب دنیا اسلام کی طرف محبت سے دیکھنے لگتی ہے تو پھر کیوں سندھ کی  ہندو لڑکیوں کو اغواء کر  لیا جاتا ہے؟اگر وہ لڑکیاں اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر مسلمان ہوئی ہیں  تو اتنی جلدی ان کا نکاح کیوں کردیا جاتاہے؟ اگر چہ اپنی مرضی سے مسلمان بننا لائق تحسین  ہے  لیکن ایک لڑکی کا مسلمان بننے کے فوراً بعد نکاح کرنا کیا یہ مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش تو نہیں؟ کیا بغیر نکاح کے کوئی لڑکی دو دن بھی مسلمان نہیں رہ سکتی؟ جن لڑکوں نے انہیں گھر سے بھاگنے کے لیے کہا انہیں ضرور اس کی سزا ہونی چاہیے۔ کسی کی بھی بیٹی کو گھر سے بھاگنے کی تجویز دینا کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ دین ہے؟ براہِ کرم آپ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یاریاں نہ کھیلیں۔ اسلام اس کی اجازت کبھی نہیں دیتا ۔ جتنی بھی ہندو لڑکیاں مسلمان ہونا چاہتی ہیں  وہ اپنے گھر میں رہیں  اور اللہ سے دعائیں مانگیں پھر بھی اگر والدین نہ مانے اور آپ کی جان کوخطرہ ہو تب آپ عدالت سے تحفظ کے لیے رجوع کرسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس نوعیت کے کیسز میں کافی تحقیق کرلیا کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply