• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شاہراہ  قراقرم پر مسلسل حادثات – ذمہ ادار کون وجوہات کیا ہیں  ؟/شیر علی انجم

شاہراہ  قراقرم پر مسلسل حادثات – ذمہ ادار کون وجوہات کیا ہیں  ؟/شیر علی انجم

دنیا کےآٹھویں عجوبے 1300 کلومیٹر پر محیط شاہراہ قراقرم   کوپاکستان چین دوستی کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس شاہراہ کی تعمیر کا آغاز 1962 میں ہَوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی ۔یہ شاہراہ گلگت بلتستان اور چین کو پاکستان سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے۔ اس شاہراہ کے بننے کے بعد گلگت بلتستان والوں کیلئے بھی جہاں سفر میں آسانی پیدا ہوئی ،وہیں مسلسل حادثات اور دہشت گردی کے سبب اس خطے کے عوام کیلئےایک طرح سے موت کا کنواں بنا ہوا  ہے۔ سی پیک شروع ہونے کے بعد اس شاہراہ کی اہمیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہُوا  مگر ایسا لگتا  ہے کہ اس شاہراہ کو آج بھی بین الاقوامی معیار کا بنانا باقی ہے۔ اس شاہرہ پر اصولی طور پر ایک اسپیشل پولیس اسکواڈ ہونا چاہیے تھا ،جو صرف سیفٹی اور سکیورٹی کو یقینی بنائیں، لیکن بدقسمتی  سے شاید ہی کسی  ذمہ دار ادارے کو اس بات کا خیال ہو۔ اس شاہراہ پر پرائیوٹ ٹرک اور گاڑیوں کے حادثات معمول کی بات ہیں ۔لیکن مسافر بسوں کے حادثات   کی تعداد بھی بہت ہے ۔ جہاں تک راقم کو یاد ہے کہ اس شاہراہ پر جون 1998 میں بٹگرام علاقے میں صبح  کے وقت موڑ کاٹتے ہوئے ڈرائیور کو نیند آنے کی وجہ سے  نیکٹیو کی  ایک ڈیلیکس  بس کو حادثہ پیش آیا تھا جو سکردو سے پنڈی جاری رہی تھی، اور اُس بس  میں تقریباً 40 کے قریب مسافر سوار تھے ۔اس حادثے میں صرف تین لوگ بچےتھے۔ عینی شاہدین کے مطابق بس کے اندر کسی دوسری  بس کا انجن رکھا ہُوا تھا ،جو راولپنڈی بننے جارہا تھااور زیادہ تر اموات اُس انجن کی وجہ سے پیش آئیں ، جو بس گرنے کے بعد بس کے اندر لوگوں کو روندتارہا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک اور خطرناک حادثہ  نجی کمپنی مشہ بروم کی  بس کو بلتستان کی  حدود میں غالباً 5 اگست 2009 کو پیش آیا ،جس میں 35 کے قریب مسافر جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح اسی کمپنی کی  ایک اور بس کا  دوسری بار حادثہ 22 ستمبر 2019 کو ضلع دیامر بابوسر ٹاپ ایریا (گٹی داس) کے مقام پر پیش آیا ۔ یہ بس بھی سکردو سے راولپنڈی جارہی تھی اور اس حادثے میں30 کے قریب مسافر جابحق اور ایک درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ مشہ بروم کی  بس کو تیسری بار حادثہ  8 فروری2023 کو شتیال کوہستان کے مقام پرپیش آیا ،جو ضلع غذر سے راولپنڈی جارہی تھی ۔ اس حادثے میں 18 مسافر جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔

یوں اب تک کی تاریخ میں زیادہ تر حادثہ مشہ بروم کمپنی کی  بسوں کو  پیش آیا  اور حکومت کی جانب سے آج تک کسی قسم کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی اور نہ ہی جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو کسی قسم کا معاوضہ ملا۔ ہر بار حکومت مشہ بروم کے دفاتر سِیل کرتے ہیں  اور ایک ہفتے بعد دفاتر دوبارہ  کُھل جاتے  ہیں ، جو کہ ایک المیہ ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کے پاس شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانے اور مسافر گاڑیوں کو معیاری بنانے کیلئے کوئی میکنزم نہیں ۔محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا ادارہ سرکاری خزانے پر بوجھ   ہے ۔ ورنہ مسلسل حادثات کے بعد اب تک اس محکمے کے کچھ ذمہ داران کونوکریوں سے فارغ کرکے جیل میں بند ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ بسوں کی فٹنس چیک کرنا اس محکمے کی ذمہ داری ہے ،لیکن   یہ   سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر  مینٹیننس لائسنس  جاری  کرتے رہتے ہیں۔لہذا حکومت ہنگامی بنیادوں  پر اس محکمے کا قبلہ درست کرے، کیونکہ اس محکمے کا کام این سی پی گاڑیوں کی لین دین کرکے پیسے بنانا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع سے   راولپنڈی کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ کمپینوں کی  سروس کے  معیار کو  بہتر بنانا اور   ڈرائیوز کی تعدا د چیک کرنا  ہے ،جبکہ ایسا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ لہذا ہر حادثے کا مجرم جہاں بس مالکان ہیں اتنا ہی ایکسائز ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ ایکسائز اور متعلقہ ادارے ٹرانسپورٹ قوانین کے مستقل بنیادوں پر اطلاق کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں۔

دوسری بات جس  کا  اوپر ذکر کیا کہ شاہراہ قراقرم پر موٹروے پولیس کی  طرز پر خصوصی پولیس  کا قیام عمل میں لانا بہت ضروری ہے  اس حوالے سے وفاقی حکومت کی توجہ دلانا مقامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔  اس شاہراہ کی اہمیت سی پیک کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کے باوجود یہ شاہراہ آج بھی بین الاقوامی معیار کی  نہیں ۔لہذا شاہراہوں کی تعمیرات کے حوالے سے بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اس شاہراہ پر حادثات کے تدارک کیلئے  چوڑائی میں مناسب اضافہ اور دریا کے رُخ والی طرف  اور خطرناک موڑ وں پرمضبوط باڑ لگانا ضروری ہے۔ اسی طرح  تیز رفتاری کو کم کرنے اوور ٹیکنگ نہ کرنے کیلئے سائن بورڈ ہر ایک کلومیٹر پر لگانا لازمی ہے۔اس کے علاہ شہر سے دور ایریا میں ریسکیو اور ابتدائی طبی امداد کے سینٹربنائے جائیں  تاکہ حادثے کی صورت میں انسانی جانوں کا کم سے کم زیاں  ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزید براں حادثات کی شرح کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت اسمبلی سے باقاعدہ بل پاس کرکے قانون بنائے  کہ راولپنڈی روٹ پر چلنے والی  تمام بسوں، کوسٹر، کار کے  فٹنس سرٹیفکیٹس صرف چھ ماہ کیلئے   ہوں  اور چھ  ماہ بعد تجدید نہ کرنے کی صورت میں بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ اس سے سرکاری خزانے کو بھی فائدہ ہوگا۔ اسی طرح تمام بس ڈائیوروں  کے پاس بس چلانے کا بس نمبر کے ساتھ کارڈ   بھی ہو اور ہر بس میں دو ڈرائیوز کی تعیناتی یقینی بنائی جائے۔ ساتھ ہی ڈرائیورز کا میڈیکل چیک اب  کابھی قانون ہونا چاہیے کیونکہ اس روڈ پر منشیات کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مالکان کیلئے قانون بنایا جائے کہ بس ڈرائیور یا کمپنی کی غلطی سے کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ کمپنی باقاعدہ مرنے والوں اور زخمیوں کو معاوضہ ادا کرے گی ۔  تمام بسوں میں کسی قسم کی مال لوڈنگ پر سختی سے پابندی ہونی  چاہیے ۔لہذا گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں کو ہر حادثے کے بعد اخبارات میں تعزیتی بیانات کی دنیا سے نکل کر اب اس شاہرہ کو اس خطے کے عوام کیلئے محفوظ بنانے کیلئے کوشش کرنا ہوگی۔ اللہ گلگت بلتستان کے غریب اور سادہ عوام پر رحم فرمائے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply