• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مدارس کا نصاب امریکہ نے بنایا تھا؟۔۔۔۔آصف محمود

کیا مدارس کا نصاب امریکہ نے بنایا تھا؟۔۔۔۔آصف محمود

وزیر اطلاعات برادرم فواد چودھری کا ارشاد گرامی میرے سامنے رکھا ہے ، فرماتے ہیں : دینی مدارس کا نصاب امریکہ نے تیار کیا تھا ۔ اس فرمان عالی شان کو پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں ایسے فاضل وزراء کے ہوتے ہوئے کیا عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت ہے؟وزرائے کرام نے غالبا طے کر رکھا ہے کہ ہم نے عمران خان کو سکون کا سانس نہیں لینے دینا اور جس دن ہم نے دیکھا عمران خان کے دامن سے کوئی بحران نہیں لپٹا اس روز ہم خود ایک بحران پیدا کر کے کپتان کی دہلیز پر چھوڑ آیا کریں گے ۔ تحریک انصاف کے دامن میں عمران خان کی نیک نامی کے سوا کیا ہے؟ افسوس یہ متاع بے رحمی سے لٹائی جا رہی ہے، برف کا باٹ جیسے دھوپ میں رکھ دیا جائے۔ ہمارے وزرائے کرام زبان بکف پھرتے ہیں ۔ انہوں نے ہر موضوع پر کلام فرمانا ہے اور بحران پیدا کرنا ہے۔روز ایک نیا ارشادِ گرامی روز ایک نیا بحران۔ معلوم نہیں یہ افتاد طبع کے مسائل ہیں یا علم و فکر سے راہ و رسم نہ رکھنے کے منطقی نتائج تاہم دل دکھتا ہے ۔ جی چاہتا ہے برادرم سیف اللہ نیازی سے پوچھوں : تمہاری جماعت میں یہ فکری بحران کیوں ہے؟ الیس منکم رجل رشید؟ کیا فاضل وزیر اطلاعات کو کچھ معلوم ہے ہمارے مدارس کا نصاب کب تیار ہوا تھا ؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے اس وقت ہمارے مدارس میں جو نصاب رائج ہے اسے درس نظامی کہتے ہیں۔درس نظامی کسی جارج واشنگٹن ،جان ایڈمز ، تھامس جیفر سن ، ابراہم لنکن ، روز ویلٹ ، جمی کارٹر ، رچرڈ نکسن یا رونالد ریگن نے نہیں ، اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کے مولانا محمد نظام الدین سہالوی نے بنایا تھا۔ وزیر اطلاعات کیا ہماری رہنمائی فرمائیں گے کہ صرف ، نحو ، منطق ، حکمت ، بلاغت ، فقہ ، اصول فقہ ، کلام ، تفسیر اور حدیث میں سے وہ کون سا موضوع ہے جس کا سلیبس امریکہ سے تیار ہو کر آیاتھا؟ کیا مختصر المعانی ڈونلڈ ٹرمپ کی رہنمائی میں مرتب ہوئی تھی؟کیا شرح وقایہ ، ہدایہ اولین اور ہدایہ آخرین کی تدوین میں باراک اوبامہ اور جارج ڈبلیو بش کی معاونت شامل رہی؟کیا نور الانوار اور توضیح تلویح بل کلنٹن اور میڈلین البرائٹ نے مل بیٹھ کر مرتب فرمائی ؟کیا شرح عقائد نسفی اور شرح عقائد جالی بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن کی فکری کاوشوں کے نتیجے میں ظہور میں آئیں؟کیا شرح مواقف رمز فیلڈ کے غوروفکر کے کمالات میں سے ایک ہے؟کیا میبذی کو گیرلڈ فورڈ نے تحریر کیا ؟کیا صدرہ لینڈن جانسن کی تصنیف ہے؟کیا صغری اور کبری جان ایف کینیڈی اور جیک لین کینیڈی نے باہمی مشاورت سے لکھیں؟کیا شرح تہذیب آئزن ہاور کے لیکچرز کا ایک مجموعہ ہے؟کیا سلم العلوم ہر برٹ ہوور کے علم و فکر کے فکری کمالات کی تدوین کا نام ہے؟ کیا نحو میر کیلوین کولیج کے غوروفکر کا نچوڑ ہے؟مائتہ عامل کا مصنف کیا وارن ہارڈنگ ہے؟ ہدایتہ النحو اور شرح جامی کیا اینڈریو جانسن اور جان ٹیلر کی علمی اور فکری تخلیق ہیں؟ ، کافیہ کیا کنڈولیزا رائس کے رت جگوں کا حاصل ہے؟ میزان کیا وارن کرسٹووفر نے لکھی؟منشعب کیا جان کیری کی تصنیف ہے؟ ، صرف میر ، کیا ہا ورڈ یونیورسٹی میں ترتیب دی گئی؟پنج گنج کیا کولمبیا یونیورسٹی کے اہل علم کی تیار کردہ ہے؟ ، فصول اکبری کو کیا یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی لائبریری میں بیٹھ کر لکھا گیا، تفسیر جلالین کیا یونیورسٹی آف شکاگو کی علمی تخلیق ہے ،تفسیر بیضاوی کیا یونیورسٹی آف نیویارک اور یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر کا علمی کام ہے اورشافیہ کیا خود فواد چودھری نے دورہ امریکہ میں مرتب کی تھی؟ معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کے دنوں میں امریکہ کی نبراسکا یونیورسٹی نے افغان بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ کتب بھجوائیں جن میں جہاد کا رجحان پیدا کرنے کی ایک شعوری کوشش کی گئی تھی۔لیکن یہ کتابیں جہاں پڑھائی گئیں وہ عمومی معنوں میں دینی مدارس نہ تھے بلکہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں قائم کیے گئے سکول تھے جہاں افغان بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔اس میں چونکہ مذہبی رنگ بوجوہ غالب تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں انہیں مدرسہ کہہ دیا جائے۔ پاکستان کے کسی ایک وفاق کے کسی ایک مدرسے میں بھی نبراسکا یونیورسٹی کی یہ کتب نہیں پڑھائی گئیں۔تاریخ کا علم نہ ہو تو اہل علم میں سے کسی سے مشاورت کر لینی چاہیے اور اگر اقتدار کی راہداریوں میں یہ جنس نایاب اور اگر ناپید ہی ہو چکی ہو تو خاموش رہنا بھی ایک بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے۔لیکن حقائق کا ابطال کرتے ہوئے ایک بے سروپا بات کر دینا ایک اہم منصب پر بیٹھے شخص کو زیب نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کو جن فکری گرہوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ان میں سے ایک صاحبان اقتدار کے بارے میں اہل مذہب کی عمومی سوچ بھی ہے۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ مذہب کے معاملے میں اہل اقتدار سے خیر کی توقع نہ کی جائے۔قیام پاکستان سے پہلے غیروں کی حکومت تھی لیکن جب حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آ گئی تب بھی یہ گرہ نہ کھل سکی بلکہ مزید سخت ہو گئی۔ چنانچہ حکومت جب بھی کوئی قدم اٹھاتی ہے بھلے وہ کتنی ہی خیر خواہی سے کیوں نہ اٹھایا جائے اس کے بارے میں ایک بدگمانی پائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس اور ان کے نصاب کے معاملات میں اہل مذہب آج بھی حکومت کی مداخلت قبول کرنے پر تیار نہیں۔یہ بد گمانی ختم کیے بغیر با معنی اشتراک کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔ حکومتی وزراء کی جانب سے غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ بیانات ، حقیقت میں ، اس بدگمانی کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔اب معلوم نہیں یہ اتفاق ہے یا یہی مقصود ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان رویوں کا آزار ہمیں فکری طور پر بہت سی پیچیدگیوں سے دوچار کر دیتا ہے۔ دینی مدارس میں امریکی نصاب پڑھایا جاتا ہے تو وزیر اطلاعات رہنمائی فرمائیں کہ ماضی قریب میں مولانا سمیع الحق مرحوم کے اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ کو گرانٹ کیوں جا ری کی گئی؟نیز یہ کہ اگر امریکی نصاب پڑھایا جانا خرابی ہے تو جدید تعلیمی اداروں کا نصاب کہاں سے آیا ہے؟ کیوں نہ فیاض چوہان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا جائے جو جدید تعلیمی اداروں کے نصاب پر نظر ثانی کرے اور اپنی بصیرت سے ایک نیا نصاب وضع کرے۔رجال کار وزارت سے محروم بھی ہو جائیں تو وہ قوم کی فکری رہنمائی کے منصب سے تو معزول نہیں کیے جا سکتے؟نرگس بے چاری معلوم نہیں کتنے سال روتی ہے تو ایسے دیدہ ور چمن میں پیدا ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply