گلابو ۔۔۔شجاعت بشیر عباسی/قسط1

ملک افضل کے ڈیرے پر آج شام سے ہلچل مچی ہوئی تھی۔انتخابات کا دور دورہ تھا اہم ملاقاتیں پچھلے کئی دنوں سے زور شور سے جاری تھیں۔ ملک افضل سیاسی پارٹیاں ہمیشہ سے ہی بدلتا آیا تھا سیانا کوا تھا آنے والے موسموں کا درست اندازہ لگانے میں بھی ماہر تھا موجودہ برسراقتدار پارٹی میں ایک اہم وزارت ساڑھے چار سال سے چلا رہا تھا لیکن پارٹی کی ڈوبتی ناؤ  نے اسے شش و پنج میں ڈالا ہوا تھا۔آنے والے الیکشن میں کون جیتے گا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا تھا ایسا پہلی بار ہو رہا تھا ابھی تک اس نے اپنی پارٹی چھوڑی نہیں تھی لیکن اب وقت کا یہی تقاضا تھا کہ  وہ فوراً اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔
مہمانوں کے آنے میں ابھی ٹائم تھا اسی لیے اس نے اپنے خاص آدمی طفیل کو بلایا اور اسے گاڑی نکالنے کا کہا اور خود ایک نظر تمام انتظامات پر ڈال کر دیگر ملازمین کو ضروری ہدایت دیتا ہوا طفیل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور اسے صالح حیات کے ڈیرے کی طرف چلنے کو کہا۔سیاہ لینڈ کروزر گاوں کے کچے پکے راستوں پر دھول اڑاتی ہوئی تیزی سے صالح حیات کے ڈیرے کی طرف بڑھنے لگی ملک افضل نے سیٹ سے ٹیک لگائی اور کچھ سوچنے لگا۔
صالح حیات اسکے علاقے میں دوسرا بڑا زمیندار اور اثرو رسوخ رکھنے والا ایک پڑھا لکھا ادھیڑ عمر شخص تھا لیکن اس نے کبھی ملک افضل سے کسی قسم کی مقابلہ بازی کرنے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی اسے سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی البتہ برادری اور گاوں کے مسائل میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہا کرتا، ملک افضل سے بھی اسکے اچھے مراسم تھے اور ابھی حال ہی میں اسکا بڑا بیٹا تیمور اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹا تھا۔گاڑی صالح حیات کے ڈیرے پر پہنچی تو اسے یہاں کچھ گاڑیاں کھڑی نظر آئیں ،صالح حیات اور اس کا بیٹا باہر کھڑے مہمانوں کو رخصت کر رہے تھے جیسے ہی ملک افضل کی نظر مہمانوں پر پڑی تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا مہمان کوئی اور نہیں بلکہ اسکا سیاسی حریف چوہدری نیاز تھا۔

چوہدری نیاز اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا چکا تو صالح حیات جو ملک افضل کو دیکھ چکا تھا اسکی طرف بڑھا، ملک افضل بھی گاڑی سے اتر آیا۔صالح حیات اور تیمور نے ملک افضل کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ملک افضل کو ڈیرے پرچلنے کو کہا۔بیٹھتے ہی ملک افضل تیز لہجے میں بولا۔۔۔
نیاز یہاں کیوں آیا تھا ؟
ملک صاحب چوہدری نیاز تیمور سے ملنے آیا تھا ۔۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ  تیمور کا ننھیال شاداب پور ہے جو کہ  نیاز کا گاؤں  بھی ہے اس نے جب سنا کہ  تیمور ان دنوں گاؤں  میں ہے تو ملنے چلا آیا ۔صالح حیات اسکے تیز لہجے کو نظر انداز کرتا ہوا نرمی سے بولا۔۔
دیکھو صالح! تیمور اب جوان ہو چکا ،اسے سمجھ جانا چاہیے کہ  کن لوگوں سے ملنا ہے اور کن لوگوں کو نظرانداز کرنا بہتر ہے، ملک افضل نے گہری نظروں سے تیمور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
صالح حیات نے اسے چائے پانی پر روکنے کی کوشش کی لیکن ملک افضل نے اسی اکھڑے لہجے میں خدا حافظ کہا اور گاڑی میں بیٹھ کر واپس نکل گیا۔

بابا آپ پریشان نہ  ہوں ۔۔شاید ملک صاحب کو چوہدری نیاز کا مجھ سے ملنا پسند نہیں آیا، تیمور جو اس ساری صورتحال میں بالکل خاموش تھا صالح حیات کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
صالح حیات نے اپنے کندھے اچکائے اور واپس ڈیرے کے اندر چل دیا۔
واپسی کے سارے راستے میں ملک افضل تیمور اور چوہدری نیاز کی اس ملاقات کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ چوہدری نیاز اور اسکے درمیان یہ سیاسی چپقلش ہمیشہ سے ہی جاری رہی تھی لیکن ملک افضل ہمیشہ اپنی اس آبائی نشست پر سے جیتتا آیا تھا اسکی بڑی وجہ چوہدری نیاز مال دولت اور حیثیت و مرتبے میں ملک افضل سے کچھ دبتا تھا لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ ملک افضل کے مقابلے میں الیکشن لڑتا اور جتنا ہو سکتا اسے  زک پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا۔ملک افضل جانتا تھا کہ  صالح حیات کوئی معمولی آدمی نہیں اور اگر چوہدری نیاز تیمور کے  ذریعے صالح حیات کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا تو اسکے لیے مشکلات پہلے سے بڑھ جائیں گی۔

یہی فکر و اندیشے لیے وہ اپنے ڈیرے پر پہنچا ا س نےطفیل کو اکبر کا نمبر ملانے کو کہا اور خود جہازی سائز صوفے پر پیٹھ گیا، طفیل نے نمبر ملتے ہی ریسیور ملک افضل کی طرف بڑھایا
اکبر میری بات غور سے اور کان کھول کر سننا آج سے اپنے بندے صالح حیات کے بیٹے تیمور کے پیچھے لگا دو ۔وہ کس سے ملتا ہے کہاں جاتا ہے مجھے اسکی ایک ایک پل کی خبر چاہیے ملک افضل نے نخوت سے حکم دیتے ہوئی اپنی بات ختم کی۔۔۔
آپ بے فکر رہیں ملک صاحب میں ابھی اپنے بندے اس کام پہ لگا دیتا ہوں اکبر نے مودب لہجے میں جواب دیا۔

فون رکھ کر ملک افضل نے گھڑی پر نظر دوڑائی مہمانوں کے پہنچنے کا وقت ہو چکا تھا۔
طفیل باہر جاو اور جیسے ہی مہمان پہنچیں مجھے فوراً اطلاع کرنا۔
طفیل جی ملک صاحب کہتا ہوا باہر چلا گیا جبکہ ملک افضل اپنی کوٹھی کا نمبر ملا کر ملکانی سے بات کرنے لگا۔
مہمان آئے اور طویل ملاقات کے بعد واپس چلے گے ،ملک افضل کے لیے یہ ملاقات بہت اہم تھی اور ملاقات کے بعد وہ کچھ مطمئن ہو کر کوٹھی میں آرام کرنے چلا گیا۔؛

تیمور کو گاوں آئے کئی دن ہو چکے تھے گاؤں آج بھی ویسا ہی تھا جیسا وہ آج سے 12 سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا ایک ہی پرائمری اسکول جس میں اس نے بچپن میں پڑھا تھا ،وہی کچی سڑکیں ، وہی غربت ان بارہ سالوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ گاوں کی واحد پکی روڈ تھی جس پر ملک افضل کی کوٹھی تھی ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply