پرائیویٹ اساتذہ کو بھی عزت دیں/آغر ندیم سحر

ایک سچا اور مخلص استاد کسی بھی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے‘استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو نہ صرف نسلوں کی تربیت کرتا ہے بلکہ اُن کے خوابوں کو حقیقت کا روپ بھی عطاکرتا ہے۔بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھانا‘یاسیت کے اندھیروںمیں امید کی کرن کی روشن کرنا‘ٹوٹے ہوئوں کو جوڑنا اور نامکمل کو مکمل کرنے کا کام بھی استاد ہی کرتا ہے۔استاد ہی وہ ہستی ہے جو بنجر ذہنوں میں سوال کی فصل اُگاتا ہے‘اسے اپنے علم سے سیراب کرتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسی فصل سے ایک دنیا مستفید ؟آپ ترقی یافتہ قوموں سے پوچھیں‘جن کی زندگیوں میں والدین اور اولاد سے بڑھ کر استاد کی اہمیت ہوتی ہے‘جو استاد کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں‘ایسے ملکوں سے استاد کا احترام پوچھیں جن کے کرنسی نوٹوں پر استاد کی تصویر ہے‘ ایسے ملک جہاں استاد کے لیے عدالت کا قاضی اور پنچایت کا سرپنچ بھی کھڑا ہو جاتا ہے ‘ایسے ملک جہاں کسی استاد پر ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی‘جہاں استاد تھانے اور کچہری میں نہیں بلائے جاتے‘جہاں استاد کے لیے مارکیٹوں،بینکوں اور ٹرین اسٹیشنز پر پروٹوکول ہوتا ہے‘ایسے ملک جہاں ججز‘پارلیمان کے ممبران اور بیوروکریٹس کی طرح استاد کی گاڑی کے لیے بھی ایک خاص نمبر پلیٹ ایشو ہوتی ہے تاکہ ہمارے استاد کو سفر کے دوران کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔استاد کیا ہے؟ان قوموں سے پوچھیں جن کا ماضی،حال اور مستقبل تابناک ہے کیوں کہ ان قوموں نے استاد کا احترام بیوروکریٹس اور ججز سے بھی زیادہ کیا ہوتا ہے‘ایسی قوموں پر کبھی زوال نہیں آیا کرتا۔ پاکستان،جہاں استاد ہونا ایک جرم بنتا جارہا ہے‘ذہنی کسمپرسی کا شکار یہ معاشرہ جو استاد کو چوتھے یا پانچویں درجے کا شہری سمجھتا ہے‘یہاں کی سرکار بھی استاد کو عزت و احترام دینے کی بجائے اسے اتنا مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آئے روز سڑکوں پر نکل رہا ہے‘اسے بتانا پڑتا ہے کہ جناب عالی! آپ ججز‘فوجی افسران‘سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو مراعات دے سکتے ہیں تو استاد کو کیوں نہیں؟کیا استاد کے بغیر کوئی کامیابی ممکن ہے؟ ججز ہوں یا سیاستدان، فوجی افسران ہوں یا بیورو کریٹس، سب استاد کے ہاتھوں سے گزر کر آئے ہیں مگر جب مراعات اور سہولیات کی باری آتی ہے‘ استاد سب سے پیچھے کھڑا ہوتا ہے،ایسا کیوں؟

اس وقت بھی پاکستان میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کی اوسط تنخواہ تیس سے چالیس ہزار ہے‘ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں جن کی اوسط تنخواہ بیس سے پچیس یا تیس ہزار بن رہی ہے،کیا اتنی تنخواہ میں گزارا ممکن ہے؟سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والی اساتذہ کہاں کھڑے ہیں؟ پنجاب ایجوکیشنل اندوومنٹ فنڈ کے تحت کام کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں کیا ہیں اور کیسے ملتی ہیں؟پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو خود کو برانڈ ڈکہتے ہیں‘وہاں اساتذہ کو کسی ذہنی اذیت سے گزارا جاتا ہے اور انھیں بات بات پہ کیسے ٹارچر کیا جاتا ہے‘کیا سرکار نے ان کے بارے میں سوچا یا کسی بھی طرح کی قانون سازی کی ؟ایک استاد جب کسی نجی تعلیمی ادارے یا پھر سیمی گورنمنٹ کے کسی ادارے میں کنٹریکٹ پر بیس 25 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد رخصت ہوتا ہے‘وہ کہاں کھڑا ہوتا ہے؟ کبھی سرکار نے سوچا؟

پاکستان میں سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘سرکاری و نجی جامعات ہر سال لاکھوں فارغ التحصیل مارکیٹ کو دے رہی ہیں‘ وہ سب نوکریوں کے لیے کہاں جائیں؟ ستر فیصد نوجوان نجی کمپنیوں یا اداروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر انھیں جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ناقابلِ بیان ہے۔اس سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ پرائیویٹ ملازمین کے لیے بنائی جانے والے پالیسی فائلوں کی نذر ہو چکی‘کوئی فرم یا ادارہ نہ اسے ماننے کو تیار ہے اور اگر کوئی ملازم پرائیویٹ پالیسی کی بات کرتا ہے‘اسے کھڑے کھڑے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟بات صرف استاد کی نہیں ہر پرائیویٹ ملازم کی ہے‘استاد کا دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ وہ قوموں کی قسمت لکھ رہا ہوتا ہے‘جب اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا جائے کہ تدریسی زندگی میں اس کے اپنے بچے دو وقت کی روٹی کو ترسیں‘وہ بے چارہ کہاں جائے اور کس کو دکھ سنائے؟برانڈڈ ادارے اور سرکاری ادارے جہاں اساتذہ کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں‘انھیں رحم کیوں نہیں آتا؟کیا ان کے اپنے بچے یا اولاد نہیں؟کیا وہ استاد کی عظمت اور مقام سے لاعلم ہیں ؟وہ جن کرسیوں پر بیٹھے ہیں‘وہ بھی استاد کی دی ہوئی ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ استاد کی بددعا کبھی رد نہیں ہوتی۔مجھے انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں استاد سے زیادہ ایک سرکاری کلرک کی عزت ہے‘پاکستانی معاشرے کا استاد اپنی تنخواہ سے ساری زندگی اپنا گھر تک نہیں بنا سکتا‘ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اتنا ہی پیسہ ملتا ہے جس سے یا تو استاد بچوں کی شادیاں کرے یا پھر اپنا پانچ مرلے کاگھر بنائے۔اس کے برعکس استاد کے کندھوں پر بیٹھ کر سرکاری مراعات لینے والے‘پروٹوکولز انجوائے کرنے والے‘سفارشوں سے کرسیاں ہتھیانے والے‘کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر استاد وہاں ہی کھڑا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سرکاری اساتذہ پھر بھی کچھ حاصل کر لیتے ہیں مگر پرائیویٹ استاد‘کنٹریکٹ پر کام کرنے والا استاد‘ڈیلی ویجز پر کام کرنے والا استاد‘عارضی اسامیوں پر کام کرنے والا استاد‘یہ سب کہاں جائیں؟شاید ان کی کوئی حیثیت نہیں۔تعلیم پر قابض مافیا جو ایک عرصے سے استاد کا استحصال کر رہا ہے‘ان کے بارے میں سرکار کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا‘پاکستان بھر کے پرائیویٹ اساتذہ کو مل بیٹھنا ہوگا‘اب عدالت سے رجوع کرنا ہوگا کہ پرائیوٹ ملازمین کے لیے بنائی جانے والی پالیسی پر سختی سے عمل کروایا جائے‘اس مافیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے جس نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے استاد کے منہ سے نوالہ چھینا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply