مہاگرو جی نے فرمایا
بے خودی بے سبب نہیں غالب
تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سوئے روہی سفر بے سبب ہوتا ، مناسب ہے کہ سفرنامے سے پہلے سببِ سفربھی بیان میں آوے۔
شبہائے ہجر کے حساب میں الجھ کر غالب یہ نہ بتاسکے کہ وہ کب سے اس جہانِ خراب میں ہیں، یہی حال میرا بھی ہے ، مجھ سے پوچھا جائے کہ میں کب سے پڑھ رہا ہوں ، تو یقیناً میں حساب میں الجھ کر رہ جاؤں گا۔ ہاں اتنا بتاسکتا ہوں کہ جب میرا پہلا احساس خلق میں آیا ، چاہے وہ ماءِ دافق میں ملا ہو ، یا حالتِ علق میں ودیعت ہوا ہو ، میں تب سے اس کائناتی کتاب کا قاری ہوں۔بلاشبہ میرے بصری اعصاب اس سے نو ماہ بعد فعال ہوئے تھے ، لیکن میں اپنے خیال میں پیچھے جہاں تک نظر دوڑاتا ہوں ، اپنے آپ کو قاری پاتا ہوں۔
یار لوگ کہتے ہیں کہ آسمانی کتب کئی صحائف سمیت چار ہیں، اور دلدار لوگ کہتے ہیں وہ سب تو خدا نے قلم کو املاء لکھوائی تھی ، اصل میں الہامی کتاب ایک ہے۔ بے شک کعبہ اہلِ جہاں کا قبلہ ہے ، لیکن اہلِ نظر اسے قبلہ نما کہتے ہیں۔ میں یارلوگوں کے ایمان کا احترام کرتا ہوں ، لیکن خود دلدار لوگوں کی بات پہ ایقان رکھتا ہوں۔ لہذا میں ان کتب نماؤں کے ساتھ ساتھ اس الہامی کتاب کا قاری ہوں ، جسے میرے دوست کائنات کہتے ہیں۔
میرا پہلا احساس پیدا ہوا ، تو اک آواز آئی:۔ الستُ بِربکم ؟
میرا احساس بولا :۔ انا الآدم
آواز آئی :۔ ہم نے آدم کو تخلیق کے بعد “وَ عَلّم آدم الاسماءہاکُلّھا” کاتاج پہنایا تھا۔ اگر تم آدم ہو تو تمہارا وہ تاج کہاں ہے؟
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
میں ایک بے تاج آدم تھا۔ مجھے علم الاسماء کی تعلیم پانی تھی ، اور مجھے اس “کُلّھا” کی حد کو چھونا تھا ، پس میں اچھے برے نیک بد ، گھٹیا بڑھیا کے حساب میں پڑے بغیر اس کتاب کا ہر اسم ، اسم ِ اعظم سمجھ کر پڑھتا چلا گیا۔ راستے میں ، میں نے بہت سے آدم دیکھے ، جو کُلّھا کی وسعت سے گھبرا کر ہائے منٹو وائے عصمت چلاتے ماتم کناں تھے۔ میں حیران ہوا کہ اگر یہ صرف منٹو اور عصمت سے ہی گھبرا گئے ہیں ، تو یہ ان تمام اسماء کی تاب کیونکر لاسکیں گے، جو میں پڑھ کے آیا ہوں۔
اسی اثنا میں میرے کان میں ایک آدم نے کہا :۔”اوچیاں بانگاں او دیندے، نیت جنہاں دی کھوٹی” ، انہیں ان کے حال پر چھوڑو ، تم میرے ساتھ آؤ۔
میں ہنسا اور اس آدم کی انگلی پکڑے کُلّھا کی وسعتوں میں جوگی بن پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچ کر اس آدم نے کہا:۔میری حد یہاں تک ہے ، اگر میں نے اس مقام سے یک سرِ مو بھی تجاوز کیا تو خدشہ ہے جل جاؤں گا۔
میں نے پوچھا:۔ مگر میرا کُلّھا کا سفر کیسے طے ہوگا؟
فرمایا:۔ وہ سامنے دیکھو ، سدرہ پر ایک آدم جو مزے سے بیٹھا بیر کھا رہا ہے ، اس سے مدد کی درخواست کرو ،وہ مددکرسکتا ہے
جوگی اس تک پہنچا اور ادب سے کہا :۔ اعینونی یا اسد اللہ
پوچھا گیا :۔ پاس کوڈ بتاؤ
کہا:۔ “شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک”
پاس کوڈ میچ ہوگیا اور میں اس آدم کی انگلی تھامے ، سحر ہونے سے پہلے پہلے شمع کا ہر رنگ دیکھنے کے مشن پر چل پڑا۔
دورانِ سفر میں نے اپنے خضر سے پوچھا :۔ کیا میں کُلّھا کی وسعتوں کو طے کر پاؤں گا؟
فرمایا :۔ کُلّھا کے ذیل میں مکانی وسعتیں تو طے کر ہی لو گے
پوچھا:۔ تو لامکانی وسعتوں کا کیا؟
فرمایا:۔ تم ایک وقت میں ایک ہی مسافت طے کرسکتے ہو ، یا تو مکانی وسعتیں ناپو ، یا لامکانی وسعتیں طے کرو۔
پوچھا :۔ اے غالب برکُل ! آپ یقیناً کوئی درمیانی راستہ بھی جانتے ہیں۔ اب تک کے سفر میں آپ نے مجھے ثابت قدم اور اپنا قدردان پایا ہے۔ مجھ پر مہربانی فرمائیں ، ورنہ دوسرے آدم کیا کہیں گے کہ اس استاد کی استادی بھی کام نہ آئی۔
فرمایا:۔ قدردان ہوتبھی تو اس سدرہ تک پہنچ سکے۔ بے قدروں کو تو آج تک اس بیری تک آنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ لہذا تمہیں بتائے دیتا ہوں ، کہ کاغذات میں تو مکانی و لامکانی وسعتوں کو بیک وقت نہیں طے کیا جاسکتا ، لیکن جیسا کہ نقشہ بازوں کا قاعدہ تھا ہر قلعے میں ایک ادھ ایسا خفیہ راستہ یا سرنگ ضرور رکھتے تھے ، جو کاغذوں میں ناموجود ہوتا تھا۔
پس مکانی و لامکانی کُلّھا سر کرنے کا ایک خفیہ طریقہ تیاگ ہے ۔
عرض کی:۔ گرو جی آپ جانتے ہیں یہ خاکسار جوگی ہے۔ اس سے مزید کیا تیاگوں؟
فرمایا:۔ اپنا ہونا تیاگ دو۔ کیونکہ تم اپنے ہونے کے بوجھ سمیت لامکاں میں نہیں جاسکتے۔ یوں تمہارا نہ ہونا، اس ہونے کے بوجھ سے آزاد ہو کر لامکانی وسعتوں کی سیرکرسکے گا اور تمہارا ہونا بھی مکانی وسعتیں طے کرتا رہے گا۔
لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر میں نے اپنا ہونا یوں اتار دیا ، جیسے کوئی سانپ اپنی کینچلی اتارکر اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ یہ عمل آسان نہ تھا۔ میرا ہونا میرے نہ ہونے سے لپٹ گیا اور اسے ہر طریقے سے روکنے اور اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھ پر کُلّھا کا شوق حاوی تھا ، پس میں نے گرو جی سے مدد چاہی ، اور انہوں نے میرے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ایک معاہدہ کروادیا کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں گے، اور وقتِ سحر پھر ایک دوسرے سے آن ملیں گے۔ یوں وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔گرو جی نے میرے نہ ہونے کے ساتھ رہنا پسند فرمایا اور میرے ہونے کو ایک خاص صحیفہ عطا فرمایا۔ کہ اسےمیرا قائمقام سمجھو۔
ہونے کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہی میرا نہ ہونا کشش ہائے ثقل سے آزاد ہوگیا اور نہایت سرعت سےلامکاں کی بلندیوں کی طرف اڑتا چلا گیا۔ میرے ہونے نے اپنے آپ کو اس وقت دھنوٹ میں پایا۔ اس نے یعنی میں نے ایک ریڈیو پال لیا تاکہ یوں ایکدم اپنے آپ سے بچھڑجانے سے مجھ پر تنہائی کا احساس حاوی نہ ہوپائے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
سفریاتِ جوگی( اویس قرنی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں