عشق میں اعتدال اچھا ہے۔۔۔۔عبدالحلیم شرر

اعتدال اسلام کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک ہے، اس کو توازن بھی کہا جاتا ہے۔ بقول علامہ یوسف القرضاوی “اعتدال دو باہم متضاد پہلووں کے درمیان ایسا منصفانہ رویہ ہے جس میں کسی ایک سے صرف نظر کرکے دوسرے کی ہی رعایت نہ کی جائے، یعنی افراط کا رویہ اختیار کیا جائے اور نہ تفریط کی”
اسلام کی اس خاصیت کی وجہ سے اس امت کو بھی امت وسط قرار دیا گیا ہے،
وَكَذَٲلِكَ جَعَلۡنَـٰكُمۡ أُمَّةً وَسَطًا، (اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے“(سورۃ البقرة:143)، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ غنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں ‘وسط’ کی تفسیر “عدل” سے کی ہے۔ عدل کا مطلب ہے کہ دو یا دو زائد  متنازع فریقوں میں بغیر کسی جانب مائل ہوئے معتدل راہ اختیار کرنا، دوسرے الفاظ میں ان فریقوں کے درمیان ایسا توازن قائم کرنا کہ ان میں سے ہر ایک کو (کسی کی بے جا حمایت یا کسی پر ظلم کئے بغیر) اس کا پورا پورا حق دیا جائے۔۔

دو متضاد فریقوں کو آپ یوں سمجھئے کہ رہبانیت اور انسانیت دو فریق ہیں، یا فکر  آخرت اور فکر دنیا دو فریق ہیں۔ اسی طرح وحی اور عقل، حقیقت پسندی اور مثالیت پسندی، ثبات اور تغیر دو متضاد پہلو ہیں۔ ان متضاد فریقوں یا پہلووں کے درمیان توازن کا مطلب ہے کہ ہر پہلو یا فریق کو روا حد تک گنجائش اور اس کا پورا پورا حق دینا اور اس سلسلے میں افراط سے بچنا۔
دین اسلام عقائد و عبادات، اخلاق و اداب، نظریہ، عمل اور تربیت عرض اپنے تمام پہلووں میں اسی اعتدال کی راہ پر گامزن ہے اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی راہ اعتدال میں گامزن کرنے پر زور دیتا ہے تاکہ وہ سابقہ قوموں کی طرح گمراہی کے اس دہانے تک نہ پہنچ جائے جو وہ غیر معتدل ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرے۔۔
اگر ہم اسلام کے عقائد کی بات کریں  تو اسلام جہاں ملحدیں اور دہریوں جو کسی خدا کے وجود کے قائل نہیں، کو قبول نہیں کرتا وہاں اسلام ان عقائد کی بھی نفی کرتا ہے جو مادہ پرستانہ روش اختیار کرکے ہر چیز پر ایمان لاتے ہیں بلکہ اسلام حقیقت اور دلیل کی بنیاد پر خداء واحد لا شریک کی معبودیت کا قائل ہے جو ان دونوں پہلووں کا درمیانی راستہ ہے۔ اسی طرح اسلام اپنے ماننے والوں کا ہاتھ پکڑ کر اسی راہ اعتدال میں چھوڑ دیتا ہے کہ نہ ترک الدنیا کرکے رہبانیت کا راستہ اختیار کرو اور نہ ہی حب الدنیا میں اس قدر مگن ہو کہ زندگی کا اصل مقصد ہی بھلا بیٹھو، یہاں تک کہ عبادات کے اندر بھی درمیانی راستہ اختیار کرنے اور معتدل رہنے کا درس دیتا ہے۔۔

جناب رسول اللہؐ کے تین صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورہ کیا کہ نیکی اور عبادت میں آگے بڑھنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے۔ چنانچہ تینوں نے آپس میں صلاح مشورے کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت:
ایک صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی مسلسل روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا،

دوسرے صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی رات کو  سووں   گا نہیں اور پوری رات عبادت میں بسر کیا کروں گا،
جبکہ تیسرے صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ میں تم سب سے زیادہ تقویٰ اور خوف خدا رکھنے والا ہوں لیکن اس کے باوجود میں نے شادیاں بھی کی ہیں، رات کو سوتا بھی ہوں، روزہ کبھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا، اور زندگی کے معاملات میں شریک رہتا ہوں۔
اسی طرح خرچ کرنے میں بھی اعتدال کا حکم ہے
“اور نہ اپنے ہاتھ اپنی گردن میں باندھ لو اور نہ اسے پوری طرح کھول دو کہ حسرت زدہ اور رنجیدہ ہو کر بیٹھ جاو” (سورہ الاسراء:29)
اسلام نے تو دوستی اور دشمنی میں بھی اعتدال کا قائل ہے، اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ اپنے دشمن سے بغض و دشمنی بھی دائرہ میں رہ کر کرو، ممکن ہے کسی دن وہ تمہارا دوست ہو جائے۔ (ترمذی)

تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنے دین میں غلو اور اپنی کتابوں میں تحریف کا مجرم بن چکے اس کا آغاز صرف اسی وجہ سے ہوا تھا کہ وہ قومیں اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا۔۔ یہودیوں کو خود پر اتنا گھمنڈ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں، اسی طرح وہ پیغمبر کی تعریف کرنے میں اس حد تک گئے کہ کہنے لگے “عزیر” اللہ کا بیٹا ہے،،
“اور یہودی کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہی  کی ریس کرنے میں لگے ہیں۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں” (سورہ توبہ: 30)
اسی طرح عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی محبت اور تعریف میں اعتدال کی راہ پر قائم نہ رہ سکے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو نعوذ باللہ خدا کی روح اور پھر عین خدا کا درجہ دے کر گمراہی کی پستی میں گر گئے ہیں۔۔
پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی تعظیم اور تعریف میں معتدل رہنے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “میری حد سے زیادہ تعریف نہ کیا کرو جیسا کہ نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے بارے میں کہا، میں تو بس ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو” (بخاری: 3261)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کا تقاضا ہے کہ آپ کی سنت کی تعظیم و تکریم کی جائے اس پر عمل کے وجوب کا اعتقاد رکھا جائے۔
موجودہ دور میں ہر مسلک اور فرقے کے اندر ایک طبقہ یا گروہ ایسا ضرور موجود ہے جو اس  راہ اعتدال سے کسی نہ کسی صورت ہٹ چکا ہے۔ خلفائے راشدین کے بعد اہل تشیع کے ایک گروہ کا وجود ایسا ہوا جو اہل بیت کی تعریف میں اعتدال پسندی کی صفت کو  پسِ پشت ڈال کر اہل بیت اور خصوصاًًً  حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو اس حد تک پہنچا دیئے کہ جس سے ” علی مولود کعبہ” اور “مولا و مشکل کشا” کا عقیدہ جنم لیا، یہی نہیں بلکہ وہ اسی محبت میں دوسرے صحابہ اور صحابیات کی سیرت کو بھی داغدار کرنے سے نہیں کتراتے ہیں، اس گروہ کے اس عمل کے رد عمل دیوبندیوں میں ایک گروہ دفاع صحابہ میں میدان میں کود پڑا اور صحابہ کرام کے مقام اور تعریف میں اس قدر غیر معتدل رہے کہ ایک عام انسان کے لئے مقام نبی اور مقام صحابی میں فرق کرنا اب مشکل ہو چکا ہے۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عہنم پر ایمان لانے کو ان عقائد اسلام میں شمار کرتے ہیں جن میں توحید، رسالت، انبیاء، ملائکہ اور یوم  آخرت شامل ہیں۔ اسی طرح بریلوی مسلک میں ایک گروہ عشق نبی میں وہ کام کر بیٹھے کہ جس خدشہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی فرمایا تھا کہ میری تعریف اس طرح حد سے زیادہ نہ کرو جس طرح نصاری نے ابن مریم کی تعریف میں حد سے گزر گئے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اعتدال کے بغیر کوئی انسان سچائی، حقیقت اور ایمان پر قائم نہیں رہ سکتا چاہے اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات و معاملات سے ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابتدا ہے نہ انتہا اچھی
عشق میں اعتدال اچھا ہے

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply