جب آج کوئی نویں جماعت کا طالبعلم فزکس میں نیوٹن کے حرکت کے قوانین پڑھتا ہے تو ایک گھنٹے کے اندر اندر انہیں سمجھ جاتا ہے۔ اگر اسے بتایا جائے کہ سائنس کی تاریخ کے اعلیٰ ترین ذہن کو ان سب تک پہنچنے میں برسوں کا جنون اور محنت لگی تھی تو اسے سمجھ نہیں آئے گی کہ آخر کیوں؟ اتنے آسان تصورات سمجھنا چند صدیاں پہلے اتنا مشکل کیوں تھا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج نیوٹونین کلچر میں رہتے ہیں۔ خواہ آپ نے فزکس نہ پڑھی ہو، کردار کی قوت، وبا پھیلنے کی رفتار میں اضافہ، ذہنی جمود، کرکٹ ٹیم کا مومنٹم ۔۔۔ فورس، ولاسٹی، ایکسلریشن انرشیا، مومنٹم جیسی اصلاحات نیوٹن کے وقتوں میں گفتگو کا حصہ نہیں تھیں۔
وہ جو ہمیں عام فہم لگتا ہے، نیوٹیونین کلچر کے بغیر ہم میں سے تقریباً ہر ایک کے لئے ناقابلِ فہم ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن شاید ایک نامعلوم جینئیس ہوتے جنہوں نے بہت کچھ شروع کیا ہوتا اور کچھ بھی ختم نہ کیا ہوتا۔ اور ایسا ہونے کے بہت قریب تھا لیکن قسمت نے یاوری کی۔ اور نیوٹن آج سائنس کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ (قسمت کا یہ لمحہ ہیلے سے ہونے والی اتفاقی ملاقات تھی)۔
نیوٹن کی زندگی میں زیادہ دوست نہیں تھے۔ انہوں نے کبھی رومانس نہیں کیا۔ ان کے ایک رشتہ دار ہمفری نیوٹن، جنہوں نے ان کے ساتھ پانچ برس کام کیا، کہتے ہیں کہ میں نے آئزک کو ان برسوں میں ایک بار ہنستے دیکھا جب کسی نے ان سے سوال کیا تھا کہ “کوئی بھلا اقلیدس کو کیوں پڑھنا چاہے گا؟”۔
نیوٹن کو دنیا کو سمجھنے کا جنون تھا لیکن انسانوں کے ساتھ یا انسانیت کے لئے حالات بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی بے پناہ شہرت پائی لیکن کسی کے ساتھ شئیر نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے انٹلکچوئل فتح حاصل کی لیکن محبت نہ پائی۔ انہوں نے اعلیٰ ترین اعزازات اور تعریفیں پائیں لیکن زیادہ وقت انٹلکچوئل جھگڑوں میں گزارا۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں لکھ سکتا کہ یہ ذہنی دیوقامت شخص انسانیت کے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا یا دوسروں کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ جانتا تھا لیکن اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا تھا تو وہ اسے چھپانے میں کامیاب رہے۔ وہ اس قسم کے انسان تھے کہ اگر آپ کہیں کہ “آج بادل آئے ہوئے ہیں” تو وہ کہیں گے کہ “نہیں، آج مطلع صاف ہے”۔ (اس سے بھی زیادہ غصہ دلانے والی بات یہ کہ اس کو ثابت بھی کر دیں گے)۔
ایک حالیہ سٹڈی بتاتی ہے کہ جو لوگ ریاضی میں مہارت رکھتے ہیں، اگر وہ گفت و شنید میں مہارت نہ رکھیں تو سائنسی کیرئیر کی طرف جاتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ کیا خراب سوشل مہارت اچھا سائنسدان بنانے میں مدد کرتی ہے؟ شاید ہاں۔ اور اس کی وجہ ہے۔
سائنس میں پروگریس کے لئے خیالات کا ملاپ ضروری ہے۔ دوسرے تخلیقی ذہنوں سے رابطہ ضروری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ تنہائی کے طویل گھنٹے بھی چاہیئں۔ یکسوئی ضروری ہے۔ اور جو لوگ سوشلائز نہ کرتے ہوں، انہیں اس میں ایڈوانٹیج رہتا ہے۔ جیسے آئن سٹائن نے کہا تھا کہ “آرٹ اور سائنس کی طرف جانے کا سب سے بڑا محرک روزمرہ کی زندگی کی تکلیف دہ بوریت سے فرار ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن کی روزمرہ زندگی سے فرار کا جنون انہیں ایسی دنیا میں لے گیا جہاں توجہ مبذول کرنے کے لئے بہت کم چیزیں تھیں۔ لیکن اسی عادت کا مطلب یہ بھی نکلا کہ انہیں اپنے کام کو پبلش کرنے کا شوق بھی نہیں تھا۔ البتہ انہوں نے کچھ بھی نہیں ضائع نہیں کیا۔ اپنا ایک کاغذ بھی نہیں پھینکا۔ ان کے لکھے نوٹ جو ریاضی، فزکس، الکیمیا، بائبل اور فلسفے پر ہیں۔ ایک ایک پیسے کا حساب جو انہوں نے کبھی بھی خرچ کیا اور اپنے جذبات کا اظہار ۔۔۔ سب کچھ محفوظ ہے۔
سکول کی پرانی کاپیاں، کاغذ کے ٹکڑے سمیت ہر محفوظ شے یہ ممکن کرتی ہے کہ ہم ان کے خیالات کا ارتقا دیکھ سکیں۔ ان کے سائنسی پیپر کیمبرج کی لائیبریری کے پاس چلے گئے جو ان کا انٹلکچوئل گھر تھا جبکہ باقی کاغذ نیلام کر دئے گئے جن کا بڑا حصہ اکانومسٹ جان کینز نے خرید لیا۔ نیوٹن کے بائیوگرافر رچرڈ ویسٹ فال نے اس سب پر تحقیق کرنے پر بیس سال لگائے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ “نیوٹن کو کسی بھی ایسی معیار کے مطابق سمجھا اور جانچا نہیں جا سکتا جس کے مطابق ہم انسانوں کو سمجھتے ہیں”۔ لیکن کم از کم انہوں نے خود کو سمجھنے کے لئے اپنی ڈائریاں پیچھے چھوڑی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ نیوٹن کو سائنسی ریشنلزم کا ماڈل سمجھا جاتا ہے لیکن فطرت سے ان کی انکوائری گوبکلی ٹیپے کے لوگوں کی انکوائری سے مختلف نہ تھی۔ یہ روحانیت میں الجھی ہوئی تھی۔ ان کے لئے سائنسی جنون مذہبی جنون تھا۔ ان کی تنہائی کا شوق اور کام کرنے کے طویل گھنٹے ان کی طاقت تھے اور یہ عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ ان کی یہ صلاحیت سائنس کے لئے بڑی کامیابیاں لے کر آئی لیکن اس نے اس صفات کے حامل اس نادر شخص سے بھاری قیمت وصول کی۔ اور اس کا تعلق انکی تنہائی اور تکلیف دہ بچپن سے بھی تھا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments