یوم پاکستان آؤ تاریخ دہرائیں۔۔۔۔ عائشہ یاسین

23 مارچ یوم پاکستان کے تجدید وفا کا دن ہے۔ یہ وہ اہم تاریخ ہے جب ہمارے مسلم لیگ پاکستان کے رہنماوں نے کانگریس کے مد مقابل کھڑے ہوکر اپنے منشور کو پیش کیا۔ آج کا دن مینار پاکستان پر پیش کئے جانے والے قرارداد کا دن ہے۔ جب ہندوستان کے مسلمانوں نےایک لیڈر کی رہنمائی میں دنیا کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور خود کو ایک منفرد اور با کردار قوم کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ دو قومی نظریہ ہی وقوع پاکستان کا سبب بنا۔ اس نظریے کے تحت اس بات کو ثابت کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ عقائد کے پیروکار ہیں۔ ان کا رہن سہن ، اٹھنا، بیٹھنا،  کھانا پینا اور ریت رواج ایک دوسرے سے یکسر علیحدہ ہیں یہاں تک کہ گھروں کی بناوٹ اور تزئین  و آرائش بھی مختلف ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان قوم ہندو قوم سے علیحدگی اختیار کرنے کا عزم رکھتی ہے اور اپنے حق خود ارادیت کا استعمال کرتے ہوئے الگ ملک کا مطالبہ کرتی ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے اس اقدام کو برصغیر پاک و ہند کے تمام مسلمانوں نے سراہا اور ہر اختلاف کو پس پشت ڈال کر قائداعظم کے مقصد کو ہر ممکن کامیاب بنانے کا عزم کیا۔
23 مارچ 1940 مینار پاکستان میں منعقد ہونے والا تاریخی اجلاس ہے جس میں مسلمانوں نے خود کو بحیثیت مسلم امہ کے طور پر تسلیم کیا اور خود سے منسلک اہم نکات پر غور کرکے الگ ملک کے حصول کی حامی بھری اور 7 سال کی  جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہمیں ایک آزاد ریاست حاصل ہوا۔
آج جب ہم تاریخ کے پنوں کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو کیا خود کو اتنا ہی منظم اور پر عزم پاتے ہیں جس طرح ہم ایک قوم ہوکے جاگے تھے؟ میرے خیال میں نہیں۔ آج ہمیں دوبارہ وہی لہو گرمادینے والا حوصلہ اور اخوت کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے اباواجداد میں موجزن تھا۔ آج ہمیں تاریخ کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ اپنے منشور اور عزائم کو یاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج پھر بکھرتی ملت کو ایک پرچم کے سائے تلے لا کھڑا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کس طرح اپنی بقا کو یقینی بنائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ ہم آج بھی قائداعظم کے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے اصولوں پر گامزن لیاقت علی خان کی ایک مکےکی مانند مضبوط اور آزاد قوم ہیں۔ ہمیں اپنے وجود میں آنے کے مقاصد اچھی طرح یاد ہیں۔ ہم مخلوط نہیں بلکہ ایک اس ریاست کے آزاد باشندے ہیں جن کی اپنی شناخت اور ساخت ہے۔ آج کا دن ہمیں وہی مینار پاکستان میں جمع ہونے والے مسلمانوں کی یکجہتی کی یاد دلاتا ہے جب کوئی شیاء، سنی، دیو بند اور بریلوی نہیں تھا سب صرف مسلمان تھے اور اپنے مد مقابل اپنے مذہب کے بل بوتے فرنگیوں اور ہندووں سے الگ ہوکر اپنی پہچان کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔
آو آج ہم بھی وہی عہد دہرائیں کہ جب ہم ان ہی قرارداد اور اصولوں کو اپنائیں جن سے ہمارے بزرگوں نے یہ ملک حاصل کیا۔ جس بیج کو شاہ ولی اللہ، مولانا آزاد، مولانا علی جوہر، سر سید احمد خان،حالی، اقبال اور ان جیسے تمام بڑے رہنماوں نے بو کر پودا بنایا اس کی آبیاری کریں ۔ اس کی حفاظت کرکے اس کو ایک تناور درخت بنائیں تاکہ جس مقصد کے لئے ہم نے یہ ملک بنایا اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ مقصد حاصل ہوسکے اور ہم اللہ کے سامنے سرخرو قوم بن سکیں۔
ہم کو ایک بار پھر تاریخ کی روگردانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان قربانیوں اور مشکلات کے مطالعہ کی ضرورت ہے جو اس تحریک پاکستان میں آڑے آئیں۔ کن مراحل سے گزر کر فرنگیوں اور ہندووں سے نا صرف نظریاتی مخالفت کا سامنا رہا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان پسماندہ اور زبوں حالی کا شکار رہے۔
یہ ملک ہرگز آسانی سے وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سالوں کی مسلسل ذہنی و جسمانی مشقت کا ثمر ہے۔ مسلمانوں کو ایک طاقت ماننا فرنگیوں کے لئے بھی کوئی آسان نہ تھا۔ پر شاہ ولی اللہ اور سر سید احمد خان کی سوچ کو پنپتےپنپتے کئی دہائیاں لگی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قابلیت کے پیش نظر یہ ملک آزاد ہوا۔ یہ کسی ایک فرد کی کوشش نہیں بلکہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کی یکجہتی کی بدولت حاصل کی گئی ریاست تھی۔ اس جدوجہد میں ہر ایک فرد کا برابر کا حصہ تھا۔ جس سے جو بن پایا اس نے قربان کر ڈالا پر اپنے مقصد اور منشور سے پیچھے نہیں ہٹا۔ میرے نزدیک اس میں اس وقت کی قیادت کا بھی بڑا کردار ہے جنہوں نے اپنی عوام کو مایوس نہیں کیا اور اپنے جوش و جذبے سے سرشار قوم کو مقصدیت سے نوازہ۔
آج بھی ہم ایسی ہی قیادت کے منتظر ہیں جو مختلف رنگ و نسل، اقلیت، فقہ و نظریات سے ہٹ کر سوچے۔ جو کسی ایک فریق کی نمائندگی نہ کرے بلکہ پاکستان قوم کو لیڈ کرے۔ آج بھی وقت کی اہم ضرورت وہی ہے جو 1940 میں جمع مسلمان اپنے مستقبل کے بارے میں لائحہ عمل طے کرنے کے لئے فیصلوں پر دستخط کر رہے تھے۔ غفلت کی نیند سے جاگ کے لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ آج بھی وہی اتحاد اور تنظیم کی ضرورت ہے جس کی بدولت یم ایک صف میں کھڑے ہوکے خود کو اور اپنی خودی کو پہچان پائیں۔ اپنی نوجوان نسل میں مثبت اور آگے بڑھنے کی لگن اجاگر کر سکیں۔ اب بھی وقت ہے۔ ہم نے اپنا وقت گزار لیا پر اب ہم نے اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے ایک خواب کو تعبیر بخشا اور ایک آزاد ملک بنا کے دیا ٹھیک اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کی سالمیت اور بقا کے لئے نوجوانوں کی تربیت کریں، انہیں سازگار ماحول دیں تاکہ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہوسکیں۔
آئیے تاریخ دہراتے ہیں اور دل پر ہاتھ رکھ کے عہد کرتے ہیں کہ جس زندہ قوم کی ہم دلیل تھے آج بھی قائداعظم محمد علی جناح کی تعبیر ہیں۔ اس قوم سے قائد اعظم کو بڑی امیدیں تھی۔اپنی قوم پر بڑا یقین تھا۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہم متحد ہوکر اس دنیا پر اپنی چھاپ ڈالیں۔ اپنے مذہب کو اپنے سینے پر سجائیں اور پاکستان کا مستقبل روشن بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply