یا علی دل مجبور ہے ثنا کے لیے۔۔انعام رانا

ذرا سوچیے تو مکہ، وہ مکہ جہاں اعلان رسالت کرتے ہوئے سیدی رسول کریم ص سوچ میں ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ آج تک مجھے صادق و امین پکارنے والے اب (نعوذ بااللہ) ساحر و مجنون پکار کر میری تکذیب کریں گے۔ آپ، میں یا کوئی بھی اگر کوئی بھی دعوی ٰکریں تو اسکی سچائی کا پہلا معیار پہلی کسوٹی ہمارے گھر والے ہیں، قریبی ہیں۔ رسول کریم ص کے قریب ترین تین لوگ تھے۔ زوجہ، سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیھا، زیر کفالت ایک “بچہ” علی بن ابو طالب رض اور قریبی دوست، ابو بکر رض۔ تینوں نے بلا تردد تصدیق کی اور فوراً ایمان لائے۔ بیوی کو اُنسیت اور دوست کو دوستی کی گنجائش دیجیے، ایک دس سال کا “بچہ” اپنے مولا ص پہ اس قدر یقین رکھتا تھا کہ وہ مجمع جہاں اعلانِ نبوت سن کر سانپ سونگھ گیا تھا، معاندانہ روئیے سامنے تھے، حیدر ع کی آواز مکمل ایمان کے ساتھ گونجی “میں آپ پہ اور آپ کے رب پہ ایمان لاتا ہوں”۔

مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ رسول کریم ص سے میرے امام علی رضی اللہ تعالی عنہہ سے زیادہ تربیت یافتہ کوئی نہ تھا۔ کیونکہ آپ عمر کے اس حصّے سے سایہ نبوت میں تھے ،جب سیکھنے کی عمر تھی اور کچھ سیکھا ہوا نہ  تھا۔ ایسے میں جب کئی سال کی تبلیغ سے بھی چند ہی لوگ مسلمان ہوئے تھے، میرے مولا علی رض ہر وقت ہر جگہ رسول کریم ص کا سایہ بن کر انکے ساتھ تھے اور زیر تربیت و تعلیم تھے۔ آپکو سیرت کی کتب میں کئی جگہ ملے گا کہ حضور ص مکہ کی کسی گھاٹی میں جناب علی کے امام بن کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ جناب علی ع کی تربیت وحی کے زیرِ سایہ ہوتی رہی۔

رسول کریم ص نے تمام عمر جو بڑے سے بڑی ذمہ داری بھی بخشی تو سیدنا علی علیہ سلام کو اور اعزاز بھی بخشا تو سیدنا علی علیہ سلام کو، کیونکہ جانتے تھے کہ جو امتحان کا اہل ہے وہی اعزاز کا بھی اور ہر دو صورت میں اہل ترین سیدنا علی رض ہی تھے۔ اعلانِ نبوت کی پہلی عوامی تائید ہے تو علی رض، دعوت کے لیے ساتھ سفر و تکلیف ہے تو علی رض، شب ہجرت اپنی جان کی جگہ کسی کی جان رکھ دینا ہے تو علی رض، کسی سے بھی قلعہ فتح نہ  ہوتا ہو اور علم دینا ہے، تو علی رض، کائنات کی سب سے مطہر خاتون، میری مالکن، سیدہ زہرہ ا سلام اللہ علیھا کا شوہر بننے کا شرف دینا ہو تو علی رض، اپنی نبوت میں سے فقر کی وراثت عطا کرنی ہو تو علی رض، اپنا وصی بنانا ہو تو علی رض، اپنی مانند مسلمانوں کا مولا بنانا ہو تو علی رض۔۔یہاں تک کہ بتا دینا کہ موسیٰ ع کو جیسے ہارون ع تھے، ویسے ہی مجھ کو علی رض، بس یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جناب علی ع نے کبھی بھی سیدنا رسول کریم ص کے نہ  امتحان کی ناقدری ہونے دی نہ  اعزاز کی۔

ایمان خدا ہو تو ایسے جیسے نماز اس کو دیکھ کر پڑھ رہے ہیں، عشق رسول کریم ہو تو ایسا کہ کبھی کیوں یا کیا کہا ہی نہیں، اگر مگر ہی نہیں، اتنا بھی نہیں پوچھا کہ سیدی ص بستر پہ پاس تلوار رکھ لوں؟ اگر یہ اندر آ گئے تو شناخت ظاہر کرنا ہے کہ پھر بھی چادر اوڑھے ہی رہوں؟ بس حکم ہوا “علی رض میری چادر اوڑھ کر سو جاو” ، ہر جگہ بس اتنا لکھا ہے کہ “ چادر اوڑھ کر سو گئے”۔ فقر کیا تو ابوتراب ہو گئے۔ غنی ہوئے تو رکوع میں صدقہ دینے والے ہو گئے۔ جنگ لڑی تو حیدر کرار اسد اللہ ، حکومت کی تو یوں کہ بیت المال کو خزانہ بنانے کے بجائے جھاڑو لگائے بنا سوئے نہیں۔

سجنو ، جناب علی رض فقط شب ضربت، جلوس و تقاریر یا یوم شہادت کا عنوان ہی نہیں بلکہ تمام زندگی کےلیے مثال ہیں۔ خدا پہ ایمان رکھنا ہے تو علی رض جیسا، رسول کریم ص سے عشق کرنا ہے تو علی رض جیسا، شجاعت دکھانی ہے تو علی ع جیسی، فقر کرنا ہے تو علی رض جیسا، سخاوت کرنی تو علی رض جیسی، عداوت بھی کرنی ہے تو علی رض جیسی۔ جناب علی ع معرفت الہی کا پہلا قدم، جناب علی رض حب رسول ص کا پیمانہ، جناب علی رض حق کا معیار، جناب علی رض منافق کی پہچان، جناب علی رض مومن کی امان، جناب علی رض بہترین حکمران۔

Advertisements
julia rana solicitors

یا علی رض ہماری ماؤں نے آپ کا عشق اپنے دودھ میں ہمیں پلا دیا ،مگر افسوس ہم آپ کے سچے عاشق بن کر آپ کے اسوہ پہ عمل کرنے میں کمزور ہیں۔ پھر بھی یا حیدر کرار یا میرے مولا، ہماری کمزوریوں کو درگزر کر کے ہم غلاموں کا سلام قبول کیجیے۔ میرا قلم آپ کی مکمل تعریف کے قابل نہیں، سو آپ ہی زبان مبارک میں بلاشبہ رب کعبہ کی قسم سیدنا علی سلام اللہ علیہہ کامیاب ہو گئے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply