• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اختلاف قطعی توہین نہیں اور اظہارِ نفرت کا مطلب قطعی آزادی اظہارِ رائے نہیں۔۔ بلال شوکت آزاد

اختلاف قطعی توہین نہیں اور اظہارِ نفرت کا مطلب قطعی آزادی اظہارِ رائے نہیں۔۔ بلال شوکت آزاد

بہت سوچ سوچ کر آخر مجھے اس معاشرے میں موجود مسائل کی جڑ ملی جو کہ بہت عام سی بات ہے پر اس عام سی بات نے ملک کے طول و عرض میں ایک ہی ہیجان، انتشار اور افراتفری کا ماحول بنایا ہوا ہے۔

دائیں بازو اور بائیں بازو کی جنگ نظریات کی نہیں بلکہ تسلیمات اور انا کی ہے, دراصل ایک شدید غلط فہمی نے دو بازوؤں کے حاملین کے دماغ مفلوج کیئے ہوئے ہیں۔

اب کوئی مذہبی ہو یا غیر مذہبی (یعنی لبرل اور اسلامسٹ) اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کس کی بات میں وزن ہے، کس کی بات قابل ہضم ہے، کس کی بات معاشرے سے مطابقت رکھتی ہے، کس کی بات غیراخلاقی نہیں، کس کی بات متشدد نہیں اور کس کی بات سے معاشرہ افراتفری کا شکار نہیں ہوتا۔

اب آپ دیکھیں کچھ دن پہلے خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کے نام پر جو فحاشی و عریانی اور بداخلاقی کا بازار گرم کیا گیا اور گھر بیٹھی عزت مآب بہنو بیٹیوں اور ماؤں کی عزت خود روندی گئی بظاہر ان کے حقوق کی بات کرتے ہوئے اور ان کے لئے نعرے بازی کرتے ہوئے جب کہ دراصل ان سب اقدامات کا مقصد صرف اور صرف معاشرتی انتشار، عدم برداشت اور انتہاپسندی کو دعوت دینا تھا۔

اسی طرح مذہبی حلقوں میں بات کریں تو برداشت وہاں بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہاں پر تو بات قتل و غارت اور راندہ درگاہ کرنے تک پہنچ جاتی ہے۔

موجودہ صورتحال میں اختلاف اور توہین میں جو فرق ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے لبرل ہیٹر اسپیچ اور فریڈم آف سپیچ کا فرق مٹا دیتے ہیں صرف اپنی بات سنانے بلکہ سبھی لوگوں پر مسلط کرنے کے لئے۔

اسی طرح مذہبی حلقوں میں اختلاف اور توہین ایک برابر ہو گئے ہیں جس طرح لبرل حلقے میں ہیٹر سپیچ اور فریڈم آف سپیچ ایک برابر کردئیے گئے ہیں۔

کل بہاولپور کا ایک واقعہ سننے اور پڑھنے کو ملا جس میں ایک شاگرد نے اپنے استاد کو قتل کردیا۔

قتل کی وجہ طالبعلم کی جانب سے یہ بتائی گئی کہ استاد اسلام کے خلاف باتیں کرتا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں وہ استاد کالج کی حدود کے اندر اسلامی روایات اور تعلیمات کے خلاف جاکر ایک پروگرام کروانے جا رہا تھا جس میں لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط اور بے ہنگم ناچ گانا شامل تھا لہذا میں نے اسے گھر سے لائے ہوئے چاکو سے پے درپے وار کر کے قتل کردیا۔

واقعہ سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ کالج کے طلباء نے متعلقہ ضلعی انتظامیہ بشمول کالج انتظامیہ کو آگاہ کر دیا تھا کہ انہیں کالج میں منعقد کئے جانے والے مبینہ غیر اسلامی پروگرام پر شدید تحفظات ہیں لہذا اسے کینسل کر دیا جائے۔

لیکن کالج انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ نے اس پر کان نہیں دھرے جبکہ طلباء کی مقتول استاد کے ساتھ اس موضوع پر شدید قسم کی بحث ہوئی جو بعد میں استاد کے قتل کی وجہ بنی۔

اب سوال یہ اٹھتاہے کہ ہم کس طرح اس بات کا فیصلہ کرنے میں با اختیار ہیں کہ کون بندہ گستاخ ہے اور کون بندہ صرف اختلاف رکھتا ہے؟

چلیں بظاہر ہم ہونے والی باتوں کو اختلاف کہہ کر زیادہ سے زیادہ قانونی کاروائی کر سکتے ہیں اگر ہمیں ان باتوں میں گستاخی کی بو محسوس ہو تو لیکن قانون ہاتھ میں لینا کسی طور پر نہ شریعت میں جائز اور حلال ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین میں اور نہ ہی انسانی فطری قوانین میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔

خطیب حسین نام کے اس طالب علم کو جب پولیس والے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ مطمئن ہیں اس کام پر؟

تو اس قاتل طالبعلم کا جواب اور اس کا اعتماد بتا گیا اور سمجھا گیا کہ ہم جو ایک دوسرے کے ساتھ اتنے عرصے سے دست و گریبان ہیں کہ مدارس دہشت گردی، انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں یا یونیورسٹیاں اور کالج اس کی اصل جڑ ہے؟

جبکہ سمجھ میں یہ آیا اس واقعے سے کہ مدارس اور یونیورسٹیاں صرف اتنی ذمہ دار ہیں کہ وہ معاشرے میں چلنے والی تحاریک، تنظیموں، نظریات کی کشمکش اور میڈیا کی لے دے کو مدارس اور یونیورسٹیوں میں داخل ہونے سے نہیں روک پاتے۔

جس کی وجہ سے انتہاپسندی، عدم برداشت، تشدد اور نظریاتی دہشت گردی دونوں طرح کے نظریات، دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں بڑی آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں۔

اور ان کا نتیجہ پھر ہمیں اس طرح ملتا ہے کہ کبھی کوئی مذہبی جنونی کسی مخالف نظریات والے انسان کو قتل کرکے غازی بن جاتا ہے اور کبھی کوئی غیر مذہبی جنونی اپنے کسی مخالف نظریات والے انسان کو قتل کر کے کامریڈ اور انقلابی بن جاتا ہے جب کہ دراصل دونوں قاتل حضرات طبقاتی، نظریاتی اور فرقہ ورانہ تفاوت اور شدید تحفظات کا شکار ہوتے ہیں۔

جنہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ جو وہ کرنے جا رہے ہیں اس سے معاشرے اور دائیں بائیں موجود لوگوں کو تو رہا ایک طرف خود انکو کونسا فائدہ ہونے جا رہا ہے جو تاحیات ان کے کام آئے گا؟

ہمارے ملک میں عدالتیں بھی موجود ہیں، ادارے بھی موجود ہیں جب کہ ہمارے پاس ہمارے دینی معاملات کی رہنمائی کے لئے خاطرخواہ مذہبی مواد بھی موجود ہے، جس میں واضح طور پر یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب تم میں کسی بات پر جھگڑا ہو جائے، کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو تم یعنی کہ دونوں پارٹیاں قرآن و حدیث مطلب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رجوع کرو, جہاں پر ہونے والے جھگڑے اور اختلاف کا خاطر خواہ فیصلہ، حل اور رہنمائی ملے گی۔

اگر آپ پھر بھی قانون اپنے ہاتھ میں لیں، شریعت کو اپنے ہاتھ میں لیں، حدود اللہ کا نفاذ خود کرنا شروع کردیں، تعزیرات پاکستان کا اطلاق کرنا خود شروع کردیں اور ہر طرف اپنا من چاہا قانون نافذ کرنا شروع کردیں تو معاشرے سے مذہب اور نظریات تو رہے ایک طرف انسانیت بھی کوچ کر جائے گی۔

یہ تو جنگل کا قانون ہے کہ جو آپ کو پسند نہیں آپ اس کو قتل کردیں۔

اور یہ بات کہنا کہ پاکستان میں قانون ہی نہیں یا قانون کا اطلاق نہیں یا یہاں پر شریعت مذاق بن کر رہ گئی ہے یا ادارے اپنا کام نہیں کر رہے لہذا ہم خود ہر بات کا فیصلہ کریں گے، خود سڑکوں پر عدالتیں قائم کریں گے، خود ہی جلاد بن کر سزائیں دیں گے اور جو بھی اختلاف کرے گا اسے گستاخ کا فتوی تھما کر معاشرے میں اس کا   جینا محال کر دیں گے۔

تو معاف کیجیے گا آپ مسلمان اور پاکستانی تو دور انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں اور جس نے آپ کو یہ تعلیمات دی ہیں وہ معاشرے میں کڑی تنقید کا حق دار ہے۔

کیونکہ نہ تو اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہمارے پاکستان کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے جس کی خواہش ہم ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں کہ فلاں فلاں فلاں یہ کہتا ہے لہذا ہم فلاں فلاں کو قتل کر دیں گے یا ہم نے قتل کردیا اور ہم اس پر مطمئن ہیں اور اچھا ہوا وہ مر گیا۔

اور یہ کہ ہم اسلام کے خلاف کسی طرح کی کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے یہ بھی ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے جسے ایک مذہبی فریضہ بنا کر معاشرے کو ایک غیر محفوظ ماحول کی طرف گامزن کیا جا رہا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ بہاولپور میں اصل واقعہ کیا ہوا ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو ہوا ہے وہ صحیح نہیں ہوا۔

دونوں طرف سے دیکھا جائے تو بات برابری کی سطح پر آ کر ٹھہر جاتی ہے یعنی کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے لیکن چلیں اب جو بھی حقائق ہوں گے وہ تحقیقات میں سامنے آ جائیں گے اور پتہ چل جائے گا کہ کون گستاخ تھا اور کون غازی؟

لیکن جو قیمتی جان اس واقعہ میں ضائع ہوئی وہ واپس نہیں آسکتی اور جو ایک نوجوان کا مستقبل داؤ پر لگا اب اس کا مستقبل تاریکی میں چلا جائے گا پر ہم اس میں ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، کون ہے جو اس سب کا ذمہ دار ہے؟

اول تو یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کوئی اتنا کمزور دین نہیں کہ اس کے خلاف کوئی بات کرے گا تو یہ مٹ جائے گا۔

ہر انسان کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی ہے۔

مذہبی آزادی بھی اسی میں شامل ہے، معاشرتی آزادی بھی اسی میں شامل ہے اور فطری آزادی بھی اسی میں شامل ہے۔

لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ آزادی کا قطعی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ہم کسی کی دل آزاری اور اپنی حدود سے تجاوز کرکے ایسی باتیں کریں جو کہ کسی کو تشدد کی جانب راغب کریں، انتہا پسندی کی ترغیب دیں اور بالآخر وہ دہشتگردی کو انجام دینے کا فیصلہ کر گزرے۔

معاشرے میں اس وقت صرف اور صرف انا کی جنگ چل رہی ہے, صرف ایک ہی مقصد ہے انفرادی اور اجتماعی بنیادوں پر کہ میرے نظریات تسلیم کیئے جائیں, میری بات سنی جائے اور کوئی میرے خلاف کھڑا نہ ہو۔

ہیٹر سپیچ اور فریڈم آف سپیچ دو الگ جہتیں ہیں یہ بات بائیں بازو کے حامل نظریاتی افراد کو سمجھنی اور ماننی ہوگی اور اسی کے تناظر میں رہ کر بات کرنی ہوگی۔

اسی طرح اختلاف اور توہین دو الگ اور متضاد رویے ہیں یہ بات دائیں بازو کے حامل نظریاتی افراد کو سمجھنی اور ماننی ہوگی اور اسی کے تناظر میں رہ کر بات کرنی ہوگی۔

معاشرہ اس وقت تصادم کا شکار نہیں بلکہ غلط فہمی کا شکار ہے دو دھڑوں میں کہ ایک دھڑا اختلاف کو توہین گردانتا ہے اور دوسرا دھڑا آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نفرت کے اظہار کو حق جانتا اور مانتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک اختلاف کو توہین اور اظہارِ نفرت کو آزادی اظہار رائے سمجھنے کی غلط فہمی معاشرے میں رہے گی تب تک معاشرہ ایک بارود کے ڈھیر پر کھڑا رہے گا جس کو ہمیشہ ایک ہلکی سی چنگاری اسی طرح پھٹنے پر مجبور کرتی رہے گی۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply