میرا پیارا دوست : امان اللہ:

میں نے اپنے دوست سے معذرت خواہانہ انداز اپناتے ہوئے اک اجازت مانگی کہ اگر اپ کی اجازت ہو تو آپ پر لکھنے کی جسارت کروں ؟
دوست نے پھس پھسا منہ بنا کر میری طرف دیکھا اور کہا مجھ پر لکھنے کے لئیے کیا مواد ہے اپ کے پاس؟
فوراً سے بیشتر میں نے جواب دیا ،آپ پر لکھنے کے لئیے میرے پاس بہت بڑا مذاق ہے !
اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا ” جیسے کہنا چاہ رہا ہو کیا مذاق؟
میں نے کہا آپ نے زندگی میں جو گل کھلائے ہیں اسے شرارت بھری تحریر سے مزین کرکے مزاح بھری تحریر میں لپیٹ دیا جائے ،اور اسے سوشل میڈیا کی زینت بنا دیا جائے ،تاکہ لوگ محظوظ ہوتے رہیں ،
ایسا لگا جیسے اسے یہ تجویز پسند نہیں  آئی  لیکن اس نے میری اس سوچ پر قہقہہ ضرور لگایا تھا ،
میں نے اسے منانے کی آخری کوشش کی لیکن بے سود ،پھر  وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے رخصت ہواگیا ، جیسے مجھے اجازت دے گیا ہو کہ میری عزت آپ کے حوالے ،
میرے اسی دوست نے اک بار مجھ سے کہا تھا کہ آپ کو مزاح   لکھنا ہی نہیں آتا ،مزاح  تو وہ ہوتا ہے جس پر لوگ قہقہےلگاتے ہیں ، لیکن آپ کا لکھا ہوا تو کہیں سے بھی مزاح  نہیں لگتا ،
میں نے جواب میں یہ کہا تھا کہ اس سے بڑا مزاح  کیا ہوگا کہ مزاح  لکھا جائے اور پڑھنے والا اسے مزاح  نہ سمجھے ،یہی میرا سب سے بڑا مزاح ہے ،
اس دوست سے میری شناسائی ان دنوں میں ہوئی تھی جب یہ اردو نہیں بول سکتا تھا اور میں اس کی ٹھیٹھ پنجابی سے  لطف اندوز ہوتا تھا،
جناب” پیسوں  کو” پےہے”اور بھائی جان کو “پاین”بولتا تھا
اس کی وجہ ان کا پنجاب سے انتقال تھا اور انتقال بھی ہم دوستوں کی گود میں آکر ہوا تھا ، والد صاحب نے پنجاب سے سیدھا لاکر ہم دوستوں کی محفل میں لا کھڑا کیا ، اور کہہ دیا کہ اسے ڈاکٹر بنانا ہے ، میں نے اس کو دیکھتے ہی کہا۔ پہلے اس کو انسان بنانا ہے ۔
صاحب پنجاب سے وارد ایسے ہوا تھا جیسے عرب سے سندھ میں محمد بن قاسم ، اک دن ان کے والد سے میں نے ازراہِ مذاق کہا آپ اسے یہاں کیوں لے آئے ؟ کہنے لگے  ڈاکٹر بنانے کے لیے ۔
میں نے کہا وہیں بن جاتا ، کہتے انسان نہیں بنا ڈاکٹر کیا بنے گا ،
کہتے ہیں کسی کا دیہات یا گاؤں سے شہر کی طرف آجانا اور وہاں سکونت اختیار کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ،شکل سے ہی پینڈو اور پیٹو لگتا تھا ،آداب معاشرت کا حال بھی بہت برا تھا کھانے کے آداب سے لیکر پہننے تک کے آداب سب بناوٹی تھے ،لیکن محنتی بہت تھا  ہر کام کو سیکھنے کی جستجو تھی ، اتنا محنتی کہ ہم نے زندگی شہر میں گزاردی لیکن کچھ نہ کرسکے اور نہ کچھ بن سکے ، اور وہ امر بیل کی طرح ہر چیز پر قابض ہوتا چلا گیا ،اس کی وجہ اس کی محنت تھی ، بہ یک وقت تین تین جگہ کام کرنا مجھے اس کےانسان ہونے پر کبھی کبھار شک کا گمان ہوتا ، اک طرف ذریعہ معاش تھا اور دوسری طرف بہتر مستقبل کے لئیے جدو جہد دونوں میں مصروف عمل تھا ۔
پنجاب سے آئے ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن پڑوسی نہیں جانتے تھے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے والا شخص کون ہے اور اس کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟ کب آتا ہے کب جاتا ہے ؟ اپنے کام سے کام رکھنے والا یہ شخص بہت ملنسار اور محبت نچھاور کرنے والا انسان تھا ،میں جب بھی اس کے پاس گیا اس کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی ،
مہمان نواز اتنا کہ اگر آپ صبح کے ناشتے میں اس کے پاس پہنچ گئے تو یہ آپ کو لاھوریوں کی طرح کھلا کھلا کرمار دیگا ، خود بھی کھانے کا بڑا شوقین تھا اک وقت میں اگر آپ نے دسترخوان پر مختلف پکوان پیش کردئیے تو مجھے امید ہے کہ آخر میں صرف دسترخوان اور خالی برتن ہی بچیں گے ،کبھی کبھار تو مجھے شک گزرتا کہ یہ کہیں سلیمان علیہ السّلام کے جنات میں سے تو نہیں ،
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اک ہی وقت میں کئی معاملات نمٹا لیتا تھا ، میں نے ہمیشہ اسے کچھ کرتے ہی دیکھا ، اسے پنجاب سے آئے ہوئے دس سال ہی ہوئے تھے ان دس سالوں میں وہ کئی منازل طے کر چکا تھا جس کی کوئی حد نہیں اور ہم جوں کے توں تھے ،
اس انسان نما شخص کے کرتوت بالکل انسانوں جیسے ہی تھے اور مجھ جیسے نکمے انسان کو فخر بھی تھا کہ یہ اک انسان ہے ،جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا تھا اس  دور ان تذکرہ چل نکلا جناب کا! معلوم ہوا کہ جناب صوفیوں کی دھرتی چھوڑ کر واپسی پنجاب کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں ، اس کامطلب یہ ہوا،
پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”
اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارے یہ دوست اس دنیا سے کوچ کرنے لگے ہیں بس وہ تو صوبہ بدر ہورہے ہیں اپنی مرضی سے،اور بسیرا کرنے بیٹھے ہیں دوبارہ سے پانچ  دریاؤں کی سر زمین پر ،
خیر جہاں بھی رہے خوش رہے آباد رہے یہی ہماری دعا ہے ،
ہمارے اس دوست کی شادی بھی بہت دیر سے ہوئی ہماری طرح ، ان کی شادی تقریباً 35 کے پیٹے میں ہوئی جس کا مجھے کافی افسوس تھا میں نے ان کے والد سے لیٹ شادی کی وجہ پوچھی تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے ،
بیٹا اس کی اماں کہتی ہے کہ یہ ابھی ہم کو پیارا ہے اگر شادی کرادی تو بیگم کو پیارا ہوجائے گا: اس لئیے اس کی اماں کہتی ہے ابھی اس کی عمر شادی کی نہیں ہے اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے دو ۔ میں نے دل میں سوچا یہ پیروں پر تو کھڑا ہوجائے گا لیکن پھر اس عمر میں کچھ خاص چیزیں بیٹھ جاتی ہیں پھر اس کے لئیے حکیموں کے چکر،لیکن خیر شادی کے بعد جوانی کی خوراک نے اچھا کام کیا ، اور تین سال میں پانچ بچوں کا باپ بن چکا تھا ؛ تین سالوں میں پانچ بچوں کی وجہ پہلے سال میں جڑواں بچوں کی ولادت تھی ،ان کی پھرتیاں ہمیشہ ان کے کام آئیں بچپن سے لیکر جوانی تک اور جوانی سے لیکر شادی تک ہمیشہ کامیاب  رہے،میرا یہ ادھیڑ عمر کا دوست اب ہم سے بچھڑنے کو تھا جس کا مجھے کافی دکھ تھا ، اور دکھ کیوں نہ ہوتا کافی وقت ساتھ گزارہ تھا ،
دعا ہے ہمارے یہ دوست جہاں بھی رہے خوش رہے ، اللہ ان کا حامی و ناصر ہو ،

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply