اس لیے اب گلہ تو ہے ہی نہیں
تم میں خوفِ خدا تو ہے ہی نہیں
رو رہا ہوں میں اپنی میت پر
کوئی میرے سوا تو ہے ہی نہیں
شرم آئے تمھیں مگر کیسے
شہر میں آئنہ تو ہے ہی نہیں
مذہب ِ امن و آدمیت کا
اب کوئی پیشوا تو ہے ہی نہیں
جم کے توہینِ آدمی کیجے
کوئی اس کی سزا تو ہے ہی نہیں
دے رہا ہوں عبث دہائی میں
آپ نے سوچنا تو ہے ہی نہیں
اس کے انڈوں کا کیا کروں مظہر ؔ
مسئلہ سانپ کا تو ہے ہی نہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں