• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی امیگریشن کا بھنگ بھوسڑا ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

امریکی امیگریشن کا بھنگ بھوسڑا ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

امریکی فلم ٹُوٹسی میں ایک مرد مائیکل ڈوروتھی ، ٹی وی ڈرامہ سیریز کے لیے عورت کا کردار ادا کرتا ہے اس میں جب فلم ڈائریکٹر اسے مشکل کردار کا پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ
People don’t desire even to dream in their own country ..
یہی امریکن ڈریم تھا جو دوسری جنگ عظیم سے ۹/۱۱ تک امریکہ کی آبادی میں کڑوروں کا اضافہ کر گیا ۔ اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ  مشہور امریکی جریدہ اٹلانٹک نے اس بحث پر نہ صرف خصوصی شمارہ نکالا بلکہ اس کے سرورق پر no vacancy کا بورڈ لگایا ۔ یہی معاملہ ٹرمپ جیسے نابلد اور متعصب شخص کو نہ صرف امریکی صدر بنا گیا بلکہ پورے یورپ میں متعصب جماعتوں اور لیڈروں کو الیکشن جتوا گیا ۔
امیگرئشن کا معاملہ امریکہ میں بہت پرانا ہے ۔ گوروں کے راج کی تمنا میں ایک مشہور امریکی وکیل ، لکھاری اور علم حیوانیات کے ماہر ، میڈیسن گرانٹ نے ۱۹۱۶ میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں اپنی Nor dist Theory متعارف کروائی  اور اس کا عنوان ہی کچھ یوں تھا
The Passing of the Great Race; or the racial basis of European History ..

گرانٹ اس وقت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا یہ باور کروانے میں کہ  نارڈک نسل کا گورا ہی صرف امریکی ہونے کے قابل ہے ۔امریکہ کے صدر جانسن نے اسی پر ۱۹۲۴ کا متعصب ترین امیگرئشن ایکٹ بنایا جس میں صرف نارڈک نسل کے گوروں کو امریکی سیٹیزن شپ دینے کا قانون پاس کیا گیا ۔ آخر یہ ایکٹ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سرد جنگ کے حالات دیکھتے ہوئے ۱۹۶۵ میں بدلا گیا اور نئے قانون میں تعصب کو ختم کیا گیا ۔ ایک دفعہ پھر ۱۹۹۰ میں امیگرئشن ایکٹ پاس ہوا اور اس میں امیگریشن کی ہر سال کے لیے تعداد رکھ دی جو پانچ لاکھ اور چالیس ہزار مقرر ہوئی  ۔ دراصل یہ سارے ایکٹ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کو نہیں ہلا سکے جو ۱۸۶۸ میں کی گئی تھی جس کے تحت ہر امریکہ میں پیدا ہونے والا بچہ امریکی شہری ہو گا ۔ ٹرمپ نے اس ترمیم کو ختم کرنے کا بہت دفعہ عندیہ دیا لیکن کانگریس میں برتری نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہا ۔

مجھے بہت شدید دکھ ہوتا ہے جب میں بہت ساری پاکستانی فیملیوں کو امریکہ میں بچہ پیدا کرنے آیا دیکھتا ہوں ۔ جب میں ہانگ کانگ میں رہتا تھا تو امیر چینی اسی طرح کرتے تھے ۔ بچے  کی پیدائش پر امریکہ میں پچاس ہزار ڈالر کا خرچہ ہے جو وہ چیرٹی کے کھاتے ڈال کر فیلاڈیلفیا سے پاسپورٹ لے کر واپس پاکستان رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔ بچی جب بڑی ہو گی تو امریکی پاسپورٹ ہولڈر ہونا اس کا مستقبل سنوارے گا ۔ اور پاکستان جا کر امریکہ کو برا بھلا کہنا ۔ گالیاں دینا اور پرچم جلانا ۔ بہت ہی سنگین قسم کی منافقت ۔

اصل معاملہ خراب کہاں سے ہوا ؟ لوگ تو مختلف تہذیبوں یا کلچرز سے آتے رہے لیکن ایک متفقہ کلچر evolve نہیں ہو سکا ۔ یہ بالکل انصار اور مہاجرین کی طرح کا معاملہ تھا ۔ معاشی اور سیاسی طاقت سے لوگوں کو کنٹرول  کرنے کا مسئلہ ۔ اس کا حل صرف یہ تھا کہ  یا تو کنٹرول کم کر دیے جاتے یا پھر مختلف تہذیبوں سے آئے ہوئے لوگ امریکہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھال لیتے ۔ کل ہمارے ایک ہالینڈ سے پاکستانی وکیل دوست نے اس پر بہت اچھا لکھا کہ  اگر آپ کو اپنی تہذیب اتنی عزیز ہے تو پھر آپ برائے مہربانی اپنے ملکوں میں ہی رہیں ۔

آج یہ صورتحال ہے کہ  پورا جنوب ، شمال کے ملکوں میں صرف اور صرف بہتر معاشی حالات کی وجہ سے شفٹ ہو رہا ہے ۔ اس کو اٹلانٹک کے رپورٹر ڈیوڈ فرم نے بہت اچھا لکھا کہ
The Great golden ticket in to a whole new life..is exit from the less successful countries of the global south in to the more successful countries of the global north ..
more than half the population of South Africa and Kenya wants to move out ..
اس سارے کھیل میں جس چیز کا مجھے بہت دکھ ہے وہ یہ کہ  یہ سارے لوگ اپنے ملکوں کے حکام اور سربراہان پر پریشر نہیں ڈال سکے کہ  ریاست کو درست چلایا جائے ، سارا زور امیگریشن پر ہے اور امیگریشن کے بعد اپنی بات منوانے اور اپنا کلچر شمال پر ٹھونسنے کا ۔ ایسا نہیں چلے گا beggars can’t be choosers
آپ نے beg کیا تھا نیشنیلٹی کے لیے ۔ یہاں امریکہ میں درجنوں پاکستانی سفارتکار اپنی نوکریوں سے استعفی دے کر امریکہ میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ موجودہ نیویارک کا قونصل جنرل بھاری بھرکم راجہ نے درخواست دے دی ۔ امریکہ نے افغانستان جنگ میں جتنا بھی survive کیا وہ پشتونوں کو امریکی نیشنیلٹی کا لالچ دے کر ساتھ ملایا اور ڈاکٹر شکیل درانی بھی ایسا ہی کیریکٹر ہے ، بہت ظلم ہے ۔ ہم کیوں نہیں نواز شریف کے باہر علاج پر احتجاج کرتے ؟۔۔۔کیوں نواز شریف کے اور عمران خان کے بیٹے تو باہر سیٹل ہیں اور وہ ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں ؟

کل پاکستان سوشل میڈیا پر تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو بہت کوریج ملی جب وہ سیاہ لباس اور چادر میں کرائسٹ چرچ کے سانحہ والوں کو ملی ۔ اس سے کیا ہو گیا ، وہ مسلمان ہو گئی ؟ پہلے خود سانحہ کروایا ۹/۱۱ کی طرح اور پھر lip service ۔
میں ٹائم میگزین میں ہنڈورس کی ایک فیملی کا پڑھ رہا تھا جن کا مرد اپنی بیٹی سمیت خطرناک راستوں سے اپنے والدین کا گھر گروی رکھوا کر پانچ ہزار ڈالر سمگلرز کو دے کر امریکہ آیا اور ادھر آ کر پتہ لگا کہ  ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے تین سالہ بچی کو الگ رکھا جائے گا اور اسے الگ ۔ وہ چھوٹی بچی روز جیتی ہے روز مرتی ہے ۔ اب تو ہم نے چند ٹکوں کے لالچ میں رشتوں کو  بھی پامال کر دیا ۔ میری والدہ کہتی تھیں  “بیٹا امریکہ کوئی  جنت کا ٹکٹ ہے جو لوگ دوڑے جاتے ہیں ؟ اور میں مسکراتا اور کہتا کہ  کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملک کو نہیں بنانا اور شوبازی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے اس لیے لوگ امریکہ کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

ڈٹرٹے نے کہا ہے کہ  آہستہ آہستہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے گا کہ  کسی کو لیبر کے لیے باہر نہیں جانا پڑے گا ۔ یہ ہوتی ہے حُب الوطنی اور قوم بنانے والی سوچ ۔ ہمارے حکمران تو ساٹھ اور ستر کی دہائی  کے نیویارک کے اٹالین مافیا سے بھی بدتر ہیں ۔ وہ تو چاہتے ہیں لوگوں کا استحصال اور قتل و غارت ۔
میں جب اسپوکین میں تھا تو ایک سیمینار میں جانے کا موقع ملا جہاں موضوع یہ تھا کہ  کیوں نہ امریکہ ان ملکوں میں invest کرے اور ان کے حالات ٹھیک کرنے میں سربراہان کی مدد کرے تا کہ لوگ نقل مکانی کے لیے مجبور ہی نہ ہوں ۔ میرا ادھر یہ موقف تھا  کہ  امریکہ یہ کام اگر کرے گا تو وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کہلوائے گا ۔ کم از کم چار پاکستانی سربراہان کا خون پہلے ہی پاکستانی عوام امریکہ کی گردن پر ڈال رہے ہیں ، اب شید مزید یہ ممکن نہ ہو ۔
ایک سوس لکھاری میکس فرش نے کہا تھا؛
we wanted workers but we got people instead ..
یہ ہے شمال کا mindset اسی ساری امیگریشن پر ۔ وہ آسٹریلوی باشندہ جس نے معصوم نمازی مسجد میں بُھون دیے وہ یہی mindset کیری کر رہا تھا ۔ آسٹریلیا کا وزیر اعظم اسکاٹ موریسن اندر سے ٹرمپ سے بھی کالا متعصب شخص ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ  وہ ممالک اب ہمیں نہیں چاہتے تو بہتر یہی ہے کہ  ہم اپنے ملک ٹھیک کریں ۔ وہاں بھی ہم نے ڈاکٹر شہباز گل جیسے امریکی بٹھا دیے ۔ آج نہیں تو کل ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ کتنے لوگ روزانہ یمن ، شام ، عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہی مرتے ہیں ، بھوک ننگ ، فساد فتنہ اور حکمرانوں کے تشدد سے ۔ ان کے خلاف کیوں نہیں آواز بلند کی جاتی ؟

شمال کے ملک درختوں سے پیسہ نہیں توڑتے ، وہ اچھی پلاننگ کرتے ہیں ۔ حُب الوطنی دکھاتے ہیں ۔ امریکہ کے منصوبہ بندی والوں کو علم ہے کہ  اگر آج امیگریشن نہ بند کی گئی  تو اگلی تین دہائیوں میں آبادی میں اضافہ چالیس کروڑ ہو گا ۔ جس سے امریکی سڑکیں ، انفراسٹرکچر کم پڑ جائے گا ۔ آلودگی اور لڑائی  جھگڑے عروج پر ہوں گے ۔ جاپان جہاں آبادی بہت ہی انتہا کی حد تک گر رہی اس کے باوجود ورکرز کو نیشنیلٹی دینے سے انکاری ہے ۔ یہاں تک کہ  شادی کی صورت میں بھی بہت محدود حقوق دیے جاتے ہیں ۔ بالکل سعودی عرب اور چین والی پالیسی ۔

قدرت نے ہمیشہ ایک اپنا بیلنسنگ ایکٹ رکھا ہوتا ہے ۔ اس میں قدرت کی طرف سے ہر تہذیب کے لیے بہت کچھ تھا اگر ہم پیار محبت سے رہتے ۔ استحصال ، لُوٹ کھسوٹ اور کنٹرول سے پرہیز کرتے ۔ اب یہ کرنا پڑے گا ۔ اب ۲۲ کروڑ پاکستانی دیوار کے ساتھ لگا دیے گئے ہیں اب ان کے لیے یہ لڑائی  do or die کی جنگ ہے ۔ موجودہ نظام کو ایک ندیم نامی شخص نے ٹویٹر پر عوامی انصاف کا بھنگ بھوسڑا کہا ۔ اس کا بھی کیدو والا حال کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہیر وارث شاہ پر ہی ختم کروں گا جہاں ہیر کی سہیلیوں نے کیدو کے بھنگ کے دور توڑے ؛
سہلیاں لاہ ٹوپی پاڑ جُلیاں سنگھ نوں گھٹیو نیں

بھن دور تے کُتکے چھڑن لتیں روڑھ وِچ کھڑل دے سُٹیو نیں

جھنجھوڑ سر توڑ کے گھت مودھا لانگڑ پاڑ کے دھڑا دھڑ کُٹیو نیں

وارثؔ شاہ داڑھی پُٹ پاڑ لانگڑ ایہہ اکھٹڑا ہی چاء کھُٹیو

Advertisements
julia rana solicitors
وارث شاہ

یہ حال حکمرانوں کا پاکستانی عوام کو کرنے کی ضرورت ہے جو کیدو کا ہیر کی سہیلیوں نے کیا ۔ بھول جائیں امیگریشن کو ۔ پاکستان میں ہی رہنا ہے ، وہیں اپنی مسجدیں آباد کریں اپنی تہذیب کو قائم رکھیں ۔ اب ہندوستان نے بھی انشا ء اللہ انہی لائنوں پر تقسیم ہونا ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب نقل مکانی بالکل ختم ہو جائے گی ۔ پاکستان پائندہ باد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply