انتظار کے محض دس برس۔۔۔۔محمد خان داؤد

کہنے کو تو وہ دس سال گزرے ہیں۔ پر کیا سال بس دنوں کے بدلنے، تاریخ کے بدلنے، رات کے دن میں اور دن کے رات میں بدلنے کا نام ہوتا ہے؟۔ نہیں وہ دس سال نہیں گزرے۔ ان دس سالوں میں، دس بہاریں گزری ہیں۔ دس سردیاں گزری ہیں۔ دس گرمیاں گزری ہیں۔ کئی عیدیں گزری ہیں۔ کئی سورج ڈھلے ہیں۔ کئی چاند طلوع ہوئے ہیں۔ کئی چاند ڈوبے ہیں۔ کئی بارشیں برسی ہیں۔ پت جھڑ میں درختوں سے کئی پتے جھڑے ہیں۔ پرانے درختوں پر نئے پتے کھلے ہیں۔ پرانے رستوں کے درمیاں پتھر حائل ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے بیچ کئی نئے رستے بنے ہیں۔

ان دس سالوں میں بچے جوان ہیں۔ سیاہ بالوں میں کئی چاندی کے تار چمکے ہیں۔ کئی بوڑھے ہوتے جوانوں نے اپنے ہاتھوں سے ان چاندی کے تاروں کو سیاہ رنگ سے ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔ ان دس سالوں میں جوان ہوتی بچیاں پیا گھروں کو سدھار گئی ہیں۔ وہ مائیں بنی ہیں۔ ان کے دامنوں میں بچے کھیل رہے ہیں۔ وہ ان دس سالوں میں کئی گھر نئے بچوں سے بھر گئے ہیں۔ ان دس سالوں میں تھر کے کچے چونروں میں کئی بچے ہلاک ہوئے ہیں، کئی چونرے بچوں سے خالی ہوئے ہیں۔

کہنے کو دس سال گزر ے ہیں۔ ان دس سالوں میں کئی لوگ دنیا سے گئے اور کئی بچے پیار کی سزا میں اس دنیا میں آئے۔ پر کہنے کو دس سال گزرے ہیں۔ سوکھی زمیں ہری ہوئی اور ہری زمیں سوکھی۔ سرِ آکاش کئی تارے ٹوٹے اور کئی تارے چمکے۔گھاس کے کئی تنکے پیروں تلے کچلے گئے اور کئی تنکے نئے اُگ آئے۔ کہنے کو دس سال گزرے ہیں۔ ان دس سالوں میں سچی باتوں کی جگہ جھوٹے وعدوں نے لے لی۔ کئی پیر اپنوں کی تلاش میں نکلے اور کئی پیر تھک کر رُک گئے۔ کئی آنکھیں انتظار کی اذیت میں مبتلا رہیں اور کئی آنکھیں انتظار کر کر کے مٹی میں دفن ہوگئیں۔

پر وہ آنکھیں مٹی سے سُرخ پھول بن کر نہیں نکلیں! کہنے کو دس سال گزرے ہیں۔ یہ دس سال، دس دن نہیں ہوتے۔ یہ دس گھنٹے نہیں ہوتے۔ یہ دس منٹ نہیں ہوتے۔ یہ دس سیکنڈ نہیں ہوتے۔ دس سال! دس سال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انتظار کی اذیت سے گزر رہا ہو، تو اس سے تو دس سیکنڈ بھی نہیں گزرتے۔ پر وہ ماں دس سال گزار چکی ہے۔

انتظار کے دس سال۔ مُصیبت کے دس سال۔ التجا کے دس سال۔ تکلیف کے دس سال۔ سب کچھ کھو دینے کے دس سال۔ اللہ کو سب کچھ کہہ دینے کے دس سال۔ اللہ کے نہ سننے کے دس سال۔ در پر دستک نہ ہونے کے دس سال۔ کانوں کو “اماں” نہ سُننے کے دس سال۔ روح کو گھائل کر جانے کے دس سال۔ روح کی اذیت میں رہنے کے دس سال۔ خوابوں کے قتل ہو جانے کے دس سال۔ ماں کی نیند مر جانے کے دس سال۔گھر کے ویران ہونے کے دس سال۔ انصاف کی راہ تکتے رہ جانے کے دس سال۔

اُس کے گھر کو نہ لوٹنے کے دس سال۔ اس کے پیچھے بچ جانے والے بدن کے کپڑوں کے دس سال۔گھر میں رکھے اس کے نئے پرانے جوتوں کے دس سال۔ اس کے بدن کی خوشبو، اس کی باتوں، اس کے قہقہے، اس کے خوش ہونے، اس کی محبت بھری ناراضگی، اس کے گُنگنانے، اس کی پڑھی اور ان پڑھی کتابوں، اس کے ادھ لکھے سیاسی پمفلٹ اور اس کے قدموں کی رہ جانے والی چاپ کے دس سال۔

بہت سی خاموشی کے دس سال۔ ماں کے ماتم کے دس سال۔ ماں کی زندگی کے رُک جانے کے دس سال۔ فرزانہ کے کوئٹہ سے کراچی، اور کراچی سے اسلام آباد کے ماتمی جلوس کے دس سال۔ ماں کے گھر میں رہ جانے کے دس سال۔ فرزانہ کے مسنگ پرسن کے کیمپ کو آباد کرنے کے دس سال۔

کہنے کو دس سال گزر گئے ہیں۔ پر کہنے کو اک لمحہ نہیں گزرتا۔ اگر دس سال گزر گئے ہیں تو اس ماں کا ماتمِ یاراں کم کیوں نہیں ہوتا؟ کہنے کو تو دس سال گزر گئے ہیں، پر اس ماں کی آنکھوں سے وہ پانی اب بھی کم نہیں ہوا جسے دیکھنے والے آنسو کہتے ہیں!
کہنے کو دس سال گزر گئے ہیں! دس سالوں میں ندیاں بھی سوکھ جاتی ہیں، کنویں خالی ہو جاتے ہیں، دریا پیچھے ہٹنے لگتے ہیں، سمندروں میں وہ تلاطم نہیں رہتا جس سے کنارے ڈرتے ہیں …. پر وہ آنسو کب تھمیں گے جو اک ماں دیوانوں کی طرح اک فریم زدہ فوٹو لیے گلیوں اور شہروں کے پریس کلبوں پر گھومتی نظر آتی ہے۔ ہاتھوں میں تصویر ہوتی ہے، آنکھوں میں آنسو۔

کوئی انجان انسان قریب جا کر اس ماں سے پوچھتا ہے یہ کس کی فوٹو ہے۔ تو ماں بہت ہی مختصر جواب دیتی ہے کہ، “میرا بیٹا ذاکر مجید!”

دس سالوں میں لوگ لوگوں کے گھر بھول جاتے ہیں۔ ان کے بتائے پتے بھول جاتے ہیں۔ بیٹے اپنی ماؤں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہیں۔ پر وہ دس سالوں میں ان ماؤں کی قبروں کو بھول جاتے ہیں۔
پر وہ ماں اس بیٹے کو نہیں بھول پائی جس بیٹے کو پہلے خضدار نے بھلایا، پھر بلوچستان نے، پھر اس ماں اور بیٹے کو وہ ریاست بھی بھول گئی جو بیٹا کہاں ہے سب جانتے ہیں، پر کوئی نہیں جانتا!
اور ماں ماتمِ یاراں میں غلطان!

ان دس سالوں میں انتظار کی اذیت اور بڑھ گئی ہے، اگر کچھ نہیں بدلتا تو اس ماں کا دکھ۔ ان دس سالوں میں بہت کچھ رُک گیا ہے، اگر کچھ نہیں رُکتا تو اس ماں کی برستی آنکھوں سے اشک۔

کہنے کو دس سال گزر گئے ہیں۔پر اذیت بھرا تو اک لمحہ بھی نہیں گزرتا تو کوئی جائے اور جا کر اس ماں سے پوچھے جس ماں کے ہاتھوں میں اک تصویر ہے جس تصویر میں اک مسکراتا نوجوان اپنی ماں کو دیکھ رہا ہے اور ماں کی آنکھوں سے اشک رواں ہیں۔ کوئی بھی اس ماں سے پوچھے گا کہ انتظار کی اذیت کیا ہوتی ہے تو وہ ماں اپنے بیٹے کی تصویر کو چوم لے گی اور یہی اس کا جواب ہو گا!

Advertisements
julia rana solicitors london

کہنے کو دس سال گزر ے ہیں!
کہنے کو صرف دس سال گزرے ہیں!
صرف دس سال!!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply