مارچ میں مارچ اور عورت۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

ایک سماج جو مختلف طبقات میں تقسیم ہو کی عورتوں کے استحصال کی جڑیں خاندان میں عورت کے مخصوص کردار میں موجود ہیں. ایک خاندان میں بطور صرف ‘نسل بڑھانے والا فرد’ عورت کے خاندان کے اندر اور اُسی کے نتیجے میں سماج کے اندر اُسکی ثانوی حیثیت کا سبب ہے. ایک طبقاتی سماج کے نجی ملکیت کے حامل خاندانوں کی عورتیں ملکیت کے وارث جبکہ محنت کش خاندانوں کی عورتیں نظام کے تسلسل کے لیے محنت کشوں کی نئی کھیپ اور نسل پیدا کرتی ہیں.

ہم اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں کہ محنت کش طبقات اپنے خاندانوں میں محنت کشوں کی نئی نسل اپنی مدد آپ کے تحت پیدا کرتے اور اُن کی پرورش کرتے ہیں. ہمارا ریاستی نظام اور ہمارے حکمران طبقات محنت کشوں کی نئی نسل کی پیدائش و پرورش میں سماجی/اجتماعی مداخلت کے خلاف ہیں تاکہ اُن کو محنت کشوں کی نئی کھیپ ‘مفت’ میں میسر آتی رہے. عورت کے سماجی رتبے میں اضافے اور اُس کے استحصال کے جڑ سے خاتمے کی اولین شرط خاندان کے اندر اُس کی “بےاُجرت محنت” کا خاتمہ ہے. خاندان کے اندر عورت کی بےاجرت محنت کا خاتمہ بتدریج ممکن نہیں ہے. یہ سماج کی اشتراکی و اجتماعی بنیادوں پر یکسر تبدیلی سے ممکن ہو سکتا ہے. موجودہ وقت میں تو سماجی ارتقاء کا یہ معیاری قدم صرف اور صرف طبقات کی فیصلہ کی وسیع لڑائی کے بعد ہی میسر آ سکتا ہے. کیونکہ ہمارے آقا ہمیں اپنا اقتدار اخلاقاً پلیٹ میں پیش کرکے دستبردار ہونے والے نظر نہیں آتے.

لیکن یہ جنگ شروع کرنا، لڑنا اور جیتنا ناممکن بالکل بھی نہیں ہے. آپ حکمرانوں کے سابقہ پانچ سالوں کے فیصلے دیکھ لیں، پچاس سالوں اور پانچ سو سالوں کے کارناموں کی تاریخ دیکھ لیں، یہ نااہل جاہل اور نکھٹو ہیں. یہ طبقہ مسلسل قبریں کھودنے پہ لگا ہوا ہے. ایسے طبقے کی شکست اور محنت کش طبقے کی فتح ایک “ناگزیر سچائی” ہے. لیکن یہ بھی ایک حقیقی بات ہے کہ محنت کش یہ جنگ صرف اور صرف اپنے بل بوتے پہ جیت سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے آج کل اپنی مدد آپ کے تحت نئی نسل پیدا کیے جا رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں. اور ہاں اگر آپ سماج کو تبدیل کرنے کے بعد اُس کی نئی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو عورت کی مدد لینی ہو گی.

بحران زدہ موجودہ معاشرے، اس کی اقدار، اس کی اخلاقیات اور اس پہ عدم اطمینان، اِس کی ناانصافیوں اور اِس کے مظالم کو بہت گہری بےچینیوں کا سامنا ہے. تاہم ظلم بہت سی مختلف اشکال اَپنا چکا ہے جن میں سے کچھ بہت زیادہ پرانی اور گہری ہیں. لیکن موجودہ معاشرے میں مرکزی تضاد تنخواہ دار محنت کشوں اور حکمرانوں کے درمیان موجود ہے.

ظلم کی عالمگیرترین اور تکلیف دہ ترین شکل پدرسری دنیا میں خواتین کا استحصال ہے. اس افسوسناک ظلم کے خلاف خواتین کی جدوجہد اہمیت کا حامل ہو چکی ہے. اگر ہم خواتین کے استحصال کی حقیقی بنیادیں تلاش کرنی ہیں تو ہمیں تاریخ میں بہت پیچھے جانا ہو گا. زراعت کی دریافت/ایجاد، پیداوار کے انبار، خاندانی نظام کا آغاز، ریاست کا آغاز اور نجی ملکیت کے قاعدوں کا آغاز ایک ساتھ ہی جنم لے رہے تھے. اور اگر بغور جدلیاتی مطالعہ کیا جائے تو ریاست، نجی ملکیت اور پدرسری کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ہے پناہ طاقتور دولتمند طبقہ!!!

نہ تو سیاسی کارکن ریاست کے خلاف اکیلے جیت سکتے ہیں، نہ ہی محنت کش دولت کے انبار کے مقابل اکیلے کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اکیلی عورت طاقتور مرد کے مقابل آ سکتی ہے. اِس دولتمند طبقہ کے خلاف جنگ کے لیے عوام کو اپنے اندر موجود صنفی تقسیم، مذہبی تقسیم، نسلی تقسیم سمیت تمام دیگر جھوٹی تقسیموں کو متحدہ عوامی و عالمگیری جڑت کے پاؤں نیچے روندنا ہو گا.

مارچ کے جائز ترین اور حقیقی مطالبات کو جن سلوگنز، جن نعروں، اور جن تحریروں نے تباہ و برباد کر دیا وہ سب کے سب پاکستانی لبرل کمیونٹی کی طرف سے تھے. عوامی ورکر پارٹی کے وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کا کردار مثبت مگر ساتھی انتہائی منفیت زدہ تھے. اگر اِس مارچ میں سے لبرل کمیونٹی لوچ پُنے کو اگنور کیا جائے تو یہ مارچ جاندار تھا. نعرے لگاتی ہوئی پُرجوش، اچھے مستقبل کی امیدوں سے منور اور نظام کو للکارتی ہوئے عورتوں کو مبارکباد نہ دینا بھی استحصال کی شکل ہو گی.

جبکہ مارچ میں موجود لبرل طبقے کے مزاحیہ نعروں سے جان چھڑوانا مارچ کے منتظمین کی مرضی ہے، لیکن لبرل طبقے کے لیے میرا کہنا وہی ہے جو مارچ 2018ء میں کہا تھا کہ

“مرد کی جگہ عورت، عورت کی جگہ مرد لکھ، پڑھ اور مستعمل کر لیا. دنیا بھر جو کچھ جیسا جیسا ہو رہا وہی ہونے دیں بس مرد کی جگہ عورت اور عورت کی جگہ مرد کو دے دیں. جو کام/مزدوری مرد کر رہا ہے عورت کو کرنے دیں اور جو کام/مزدوری عورت کر رہی ہے مرد کو کرنے دیں. کیا “انسان” کے مسائل حل ہو جائیں گے اور کیا “انسان” آزاد ہو جائے گا؟

اگر مودی کی جگہ “سونیا” کس دے دیں اور ٹرمپ کی جگہ “ہیلری” کو بٹھا دیں، کیا دنیا کا نقشہ بدل جائے گا؟

لبرلزم کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ انسان کو انسان کی نگاہ سے نہیں بلکہ کموڈٹی سمجھ چکی ہے. اِن کی بنیاد میں انسان جسم و شعور کی بجائے کچھ گھوڑا شوڑا ہے کہ بس بھاگے بھاگے جاؤ کیونکہ مقابلہ بازی ہی تخلیقیت ہے اور تخلیقیت ہی امارت (آسودگی) کو جنم دیتی ہے. لبرلزم چاہتا ہے کہ انسان اِس نظام کو مرد و زن کے مسائل کا موجد ہے کے خلاف جنگ نہ لڑے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

بھائی دو جمع دو والا آسان معاملہ ہے کہ جتنی عورت ذلیل ہے اتنا ہی مرد رسوا ہے. جتنی قدغن عورت پہ ہیں اتنے جبر مرد پہ بھی ہیں. اِس ذلالت و رسوائی، قدغن و جبر کا ماخذ جنس نہیں بلکہ سماج کا معاشی ڈھانچہ ہے. اگر سماج کی کُل دولت کُل پہ خرچ ہو تو مرد ایسے دس دس گھنٹے چودہ چودہ گھنٹے عذاب نہ جھیلے اور عورت بھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی بکواس زندگی نہ گزارے. دو دو تین تین گھنٹے کی ‘سماجی ملازمت’ کے بدلے سکھ بھری زندگی کے لیے آپ کو جنسی جدوجہد کی بجائے طبقاتی جدوجہد کرنی ہو گی.”

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply