مرد”ناول سے ماخوذ اقتباس۔۔۔عارف خٹک

“کتے کے بچے، کتنی بار تجھے کہا ہے کہ جب کسی کام کا بولوں تو غور سے سنا کرو۔ مجنون کی طرح میرا منہ تکنے لگ جاتے ہو، بدذات نسل”۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاس والے کمرے میں گل مینہ اپنے نو سالہ بچے پر چیخ رہی تھی۔ جو ہکا بکا اپنی ماں کا منہ تک رہا تھا۔ بالآخر پٹاخ کی آواز آئی اور اس کا زناٹے دار تھپڑ نو سالہ بچے کے گالوں کو زخمی کرگیا۔۔
وہ دوسرے کمرے میں بستر پر نیم دراز دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا ہی تھا۔ ۔یہ روز کا معمول تھا۔ گل مینہ اس کی بیوی تھی جو مڈل تک پڑھی ہوئی تھی۔ ان کی  ہم زبان تھی۔ مگر اس کی زبان اتنی گندی تھی کہ اپنی اولاد کو ماں بہن کی گالیاں دینے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں تھی۔
شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔ دونوں کی پسند کی شادی تھی۔ زریاب خان نے خود پسند کرکے گل مینہ سے شادی کی تھی حالانکہ گھر والوں نے کافی سمجھایا تھا کہ شہر کی لڑکی ہے تم گاؤں کے باسی۔ مزاج کا مسئلہ ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ اپنی برادری میں شادی کرلو۔ مگر زریاب نے اتنے دلائل دیئے کہ گھر والے مجبور ہو کر گل مینہ کا ہاتھ مانگ بیٹھے۔ گل مینہ سوات کی رہنے والی تھی جس کے آباواجداد بسلسلہ روزگار کراچی آبسے تھے۔ کراچی کی  کچی آبادی میں پلی بڑھی گل مینہ نے پہلی نظر میں پچیس سالہ زریاب خان کا دل چرا لیا تھا جو نیا نیا آئی بی اے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا، اور ایک اچھی کمپنی میں جاب کررہا تھا،زریاب کا گورا چٹا رنگ، اچھا لباس اور اچھی نوکری  دیکھ کر جانے  نجانے کتنی لڑکیوں نے  آنکھوں میں خواب سجا لئے تھے۔ مگر زریاب کو یونیورسٹی اور شہر کی لڑکیاں اس لئے ناپسند تھیں کہ وہ فیشن زیادہ کرتی ہیں اور شوہر کو اپنا غلام تصور کرتی ہیں۔ لہذا اس کی خواہش تھی کہ کم پڑھی لکھی اور پشتون لڑکی ایک بہترین بیوی ثابت ہوسکتی ہے جس  کو آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔۔
“گل مینہ۔۔۔۔۔” ۔۔زریاب کی دھاڑ نے ایک لمحے کیلئے گھر میں سکوت طاری کردیا۔ گل مینہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح آکر زریاب کے سر پر کھڑی ہوگئی۔ اور خشمگیں نگاہوں سے شوہر کو دیکھتے ہوئی غرائی۔ “یہ کون سا طریقہ ہے بلانے کا؟”۔ زریاب غصے سے کانپ رہا تھا۔ “یہ کونسی زبان ہے جو تم اپنے بیٹے کیساتھ استعمال کررہی ہو؟۔” زریاب غصے سے کانپ رہا تھا۔۔۔
گل مینہ نے آنکھیں میچتے ہوئے جواب دیا۔ “دفتر میں رنڈیوں کیساتھ کام کرتے کرتے اب تم اور کر بھی کیا سکتے ہو۔ اب تو آپ کو احساس ہورہا ہوگا کہ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں۔ لہذا بچے کا بہانہ بناکر مجھ پر مت چڑھ دوڑو۔ اوقات جانتی ہوں تمھاری۔”
زریاب کا بلڈ پریشر آسمان کو چھونے لگا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ مگر وہ بچے کو دیکھ کر زیادہ تر چپ ہوجاتا کہ بچے پر اثر نہ پڑے۔ مگر اس کی یہ خاموشی گل مینہ کو شکست کا پتہ دیتی تھی۔ لہذا روز بروز گل مینہ کی گالیاں اور چیخ و پکار بڑھتی ہی  جا رہی تھی،زریاب زیادہ تر گھر سے باہر وقت گزارنے لگا۔۔
“تم نے مجھے گالیاں کیوں دیں؟۔ کتا بولا ہے تم نے مجھے،۔۔۔۔۔ کیا یہی تربیت کی ہے تیری ماں نے؟۔” زریاب شدت جذبات سے کانپ رہا تھا
گل مینہ کو پتنگے لگ گئے کہ بات اب ان کے خاندان پر آگئی ہے۔ ٹک سے جواب دیا۔
“کیا میری ماں رنڈی ہے؟۔ کیا تم یہ کہنے کی کوشش کررہے ہو کہ ہمارا خاندان رنڈیوں کا خاندان ہے؟”۔ زریاب ہکا بکا گل مینہ کا منہ دیکھنے لگا۔ زریاب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس وقت وہ اپنی بیوی کی زبان کاٹ کر پھینک دے۔ مگر اس چیخ و پکار سے اس کا بچہ گھبرا کر رونے لگا،۔ بے بسی سے زریاب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ کتنی بار اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس عورت کو طلاق دیکر گھر سے رخصت کرے مگر بیٹے کا سوچ کر وہ خود کو تسلی دیتا کہ بچہ ذہنی طور پر تباہ ہوجائیگا۔ سو وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔
زریاب نے جلدی میں ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی اور دھڑام سے دروازہ بند  کرکے  گھر سے باہر نکل گیا۔ تاکہ ماحول مزید ناقابل برداشت نہ ہو۔
“اللہ کرے تم کسی ٹرک کے نیچے آکر کتے کی موت مرجاو۔ تم نے میری ماں کو رنڈی بولا ہے۔۔۔۔۔ رنڈی ہوگی تیری ماں،تیری بہنیں، تیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل مینہ کی چیختی ہوئی گالیاں زریاب کے کانوں میں سیسہ پگھلا رہیں تھیں۔ غصے میں گاڑی اسٹارٹ کرکے وہ پارکنگ لاٹ سے نکل آیا۔ اس وقت زریاب یہ سوچ رہا تھا کہ اگر گاؤں یا خاندان کے کسی فرد نے یہ گالیاں سن لیں تو اس کی اوقات دو ٹکے کی نہیں رہے گی۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس عورت کیساتھ کیا کرے۔ جس نے شادی کے تیسرے دن اپنے رنگ ڈھنگ دکھانا شروع کردیے تھے۔ گاؤں سے آئی ہوئی ماں نے بہو کا انداز اور رویہ  دیکھا تو منہ پر خاموشی کے تالے لگاکر واپس پشاور چلی گئی،اور آج تک واپس اس گھر میں دوبارہ نہیں آئی۔ گاؤں میں کوئی میت یا شادی پر گل مینہ نہیں جاتی تھی۔ کیوں جاتی اس کا گھر یہیں  تھا ماں باپ یہیں  تھے۔ دو بہنیں جن کیساتھ ہر وقت فون پر مصروف رہا کرتی تھی۔ دونوں بہنوں کے شوہروں کی حالت بھی زریاب سے مختلف نہیں تھی۔ دونوں اپنے گھر والوں سے الگ ہوگئے تھے۔ ان کی بیویاں بھی گل مینہ کی بہنیں تھیں اور اپنی بڑی بہن کے نقش قدم پر تھیں۔ یہاں وہ اپنے شوہر کی زندگی تباہ کرتی تھی وہاں ماں کے گھر بھابیوں پر عرصہ دراز تنگ کرکے رکھا تھا۔ کیونکہ ان کی ماں نے ابھی تک بیٹیوں کو گھر کی سربراہی نہیں  سونپی تھی۔ ان تین بہنوں کی ساری زندگی ماں کا گھر تھا۔
زریاب نے ایک خطرناک فیصلہ کرلیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments