استشراق کے مطالعہ کے جدید منہج کی ضرورت۔۔طفیل ہاشمی

میں نے اپنے تحقیقی مطالعے کے دوران عربوں کے یونان، روم، اسکندریہ، ہندوستان اور ایران سے علمی استفادے کی تاریخ بالاستیعاب پڑھی تھی، اس کے بعد مسلم علوم کے یورپ پر اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا۔ میرے پاس ایسی اصل کتب بھی تھیں جن میں سائنسی تجربات کے پہلو بہ پہلو گنڈے، ٹوٹکے اور منتر بھی مذکور تھے۔ مسلم مترجمین نے سائنسی اکتشافات کو لے لیا اور توھمات کو نظر انداز کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ عربوں کے پاس کتاب اللہ کی سادہ تعلیمات، چند عقائد، عبادات اور اخلاق کے سوا کوئی ایسے علوم نہیں تھے جو تمدن کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ ساری ضروریات متمدن تہذیبوں سے لے کر انہیں توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی کٹھالی سے گزار کر ساری دنیا کو ہر پہلو سے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ علم کے پیاسے تھے اور جہاں سے علم مل سکے کسی تعصب کے بغیر لے لیتے تھے۔

امرواقعہ یہ ہے کہ کاروان علم پچھلی چند صدیوں سے مشرق سے کوچ کر کے مغرب میں جا آباد ہو گیا۔ ابتداء اسلام کی بازنطینی اور مسیحی مقبوضات کو دنیا کے نقشے پر دیکھنے اور جس تیز رفتاری سے اسلام نے ان سے وہ سب ممالک چھین لئیے انہیں تاریخ میں پڑھنے کے بعد ان کی اسلام دشمنی، تعصب اور اسلام، اسلامی تعلیمات اور مقدسات سے نفرت بجا طور پر قابل فہم ہے۔ ان کا بظاہر ناقابل تلافی نقصان ہو گیا تھا لیکن انہوں نے نفرت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کے لیے مسلم جامعات اور اسلامی سکالرز کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے اپنے سماج کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کا ادراک کرنے کے بجائے کہ ہم زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اپنی محنت کو دوبالا کردیں، اپنے مسل مضبوط کریں اور جہاں وہ پہنچ چکے ہیں وہاں سے شروع کر کے آگے بڑھیں۔ ہماری بیشتر توانائیاں ان کے عیوب گنوانے، ان کی کوتاہیاں شمار کرنے، ان کی بددیانتیان گننے اور ان کے تعصبات کا ماتم کرنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے رویے میں چند مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے

1_ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ ان کے اقتدار اور تہذیب کو جس قدر ہم سے نقصان پہنچا تھا اس پر ان کا غم و غصہ، نفرت و توہین بے جا نہیں تھا۔

2_ان کا انسانیت پر احسان ہے کہ وہ مشترکہ انسانی ورثہ جسے ہم نے ایک ہزار سال تک ترقی دی انہوں نے نہ صرف سنبھالا بلکہ اسے مزید آگے بڑھایا اور اس وقت وہ ساری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے

3_ہمیں ان علوم و نتائج سے نہ صرف استفادہ کرنا چاہیے بلکہ ان میں مزید مہارت بہم پہنچا کر اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے

4_اسلامی علوم کے حوالے سے ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہماری ہزار ہا نایاب کتب اور علمی خزانے انہوں نے محنت شاقہ سے بہترین شکل میں ایڈٹ کر کے دنیا تک پہنچائے اور ہمارے لئیے تحقیقی کام آسان تر کر دئیے۔

5_ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ان کی غلط فہمیاں، تعصبات، اور نفرتیں دور کر کے انہیں محبت کا پیغام دیں کیونکہ وہ
بھی

محمد رسول اللہ کی امت دعوت ہیں
اور رسول اللہ کے وصال کے بعد اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس پیغام کو ہر ہر فرد تک پہنچائیں
اس کے لئے ضروری ہے کہ استشراق کا مطالعہ ایک مختلف زاویے سے کیا جائے جس کی اساس قرآن پاک میں
تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم
اور لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ۔۔۔
میں بیان ہوئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہ امر ملحوظ رکھیں کہ وہ اس ایمان اور عقیدت کے حامل نہیں جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ اس لئیے ان کی تعبیرات ہم سے مختلف ہوں گی۔

Facebook Comments