• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ہم کشمیر میں دخل اندازی کر سکتے ہیں؟ایک جائزہ۔۔۔ندیم اعظم

کیا ہم کشمیر میں دخل اندازی کر سکتے ہیں؟ایک جائزہ۔۔۔ندیم اعظم

میں نے مطالعہ پاکستان کے ساتھ تھوڑی اسلامیات بھی پڑھی ہے جس نے میرے ذہن کواس جنگ کے بارے میں شدید الجھاؤ کا شکار کر دیا ہے۔میں شکرگزار ہوں گا اگر کوئ مسلم سکالر مجھے بتائیں کہ ہم کیسے حق پرہیں۔

ہم نے قرآن کریم میں پڑھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
1:” ایمان والو! الله کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کےباعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور الله سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک الله اس سے خبردارہے”.( المائدہ 5:8)

2: “اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے”۔
( النساء 4 :135)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
بدعہدی سے منع فرما دیا ورنہ یہ تو جنگ کا ایک اہم ہتھیار سمجھا جاتا تھا:
جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس (مسلمان) نے کسی معاہدی (ذمی کافر) کوقتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا؛ جب کہ اس کی خوشبو سترسال کی مسافت (فاصلہ) سے محسوس ہوگی۔ (بدورالسافرہ:۱۸۳۵)
جنگ ِبدر سے چند یوم پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ِمحترم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے، کافروں نے روک لیا اور اس وعدہ پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اگر جنگ ہوئی تو تم اس میں حصہ نہیں لو گے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا اور مدینہ پہنچ کر نبی اکرم ﷺکو صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔جنگ کا موقع آیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اب ہم کیا کریں؟ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ہم قریش سے کئے گئے معاہدے کوپورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے۔چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ باوجودخواہش کے جنگ ِبدر میں شریک نہ ہوسکے۔(حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو: حصہ دوم ص۷۳۱)
ایک فوجی مہم میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ سے غلط فہمی میں کچھ لوگ مارے گئے۔رسول اکرم ﷺکو اطلاع ملی تو اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا: ’’اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں‘‘ (بخاری) بعد میں رسول اکرم ﷺ نے مقتولین کی دیت اور اُن کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حق و باطل کا فیصلہ کرنا نہایت آسان تھا۔ اللہ کے رسول حق کے نمائندہ تھے۔
اب مسلمان کیسے خوش قسمت ہیں کہ جب بھی دو گروہوں میں جنگ ہو، اگر وہ مسلمانوں کے ہی دو گروہ ہوں تو مخالف فرقہ حق پر نہیں ہوتا اور اگر جنگ مسلم اور غیر مسلم کی ھو تو پھر غیر مسلم حق پر نہیں ہوتا۔
مسلمان نے گواہی دیتے ہوئے اپنی ترجیح صرف حق کو بنانا ہوگا۔وطن،قوم،قبیلہ،رشتے ناطے مسلمان ان سے آزاد اور حق اور صرف حق کا پرستار ہوتا ہے کی کیونکہ یہ کائنات خدا نے حق پر بنائی ہے کسی کا بھائی یادوست اگر کہیں لڑ رہا ہے تو عام طور پر لوگ اپنے بھائی یا دوست کے ساتھ مل کر اس کے دشمن سے لڑنا شروع ہو جاتے ہیں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ آپ پہلے یہ دیکھیں کہ بھائی یادوست حق پر بھی ہے یا نہیں دوسری صورت میں آپکو بھائی کو پہلے حق ادا کرنے پر مائل کرنا پڑے گا ورنہ آپ کو دوسری طرف کھڑا ہونا ہوگا۔
اب آپ مسئلہ کشمیر کو دیکھیں.اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ انڈیا کشمیر میں ظلم کی انتہا کیے ہوئے ہے۔لیکن کیا ہم اس کے مقابلے کے لیے عہد کوپس پشت ڈال سکتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“بے شک جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑا اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں لڑے اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان لائے اور گھر نہیں چھوڑا تمہیں ان کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں، اور اگر وہ دین کے معاملہ میں مدد چاہیں تو تمہیں ان کی مدد کرنی لازم ہے مگر سوائے ان لوگوں کے مقابلہ میں کہ ان میں اور تم میں عہد ہو، اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔”( انفال 8: 72)
اس آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالی یہ فرما رہے ہیں کہ اگر مظلوم مسلمان تم سے مدد طلب کریں اور ظالم قوم کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہو تو تم ان کی مدد نہیں کر سکتے یعنی اگر مدد کرنا ہے تو کھلم کھلا معاہدہ توڑ دو اور پھر باقاعدہ جنگ کرو۔یہ کسی طرح درست نہیں کہ تم یوں ظاہر کرو کہ تم اپنے معاہدے کے پابند ہوں اور درون خانہ تم معاہدے کی خلاف ورزی کرو۔پاکستان دینی طور پر کشمیر یا کسی ملک کی ایسی مدد نہیں کرسکتا جس میں معاہدوں کی خلاف ورزی ہو دین کے معاملے میں بھی اخلاقی اصولوں کو پامال کرکے مدد نہیں کی جاسکتی۔
انڈیا کا مقدمہ
انڈیا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کشمیر کی اس تحریک آزادی کی ہر معاہدے کو پامال کر کے مدد کر رہاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا کہناہے کہ پاکستان نے کارگل جنگ میں اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور ویسی ہی عیاری کا مظاہرہ کیا جیسا وہ “ہندو بنیے” سے منسوب کرتارہاہے۔ اس موضوع پر ہماری معروف صحافی نسیم زہرہ کی کتاب From Kargil to Coup پاکستان کو پہنچنے والی عسکری اور سفارتی سطح پر شدید شرمندگی کاحال سناتی ہے۔
2008 میں ہونے والے Mumbai attacks میں بھارت کے ڈیڑھ سو سے زائد عام سویلین چارروز جاری رہنے والے حملوں کا نشانہ بنے۔ہمارے میجر جنرل اطہر عباس نے 25 اپریل 2011 کو ڈان اخبار میں چھپنے والی خبر میں اعتراف کیا کہ کچھ ریٹائرڈ آئ ایس آئ کے افسران کا لشکر طیبہ کے ان جہادیوں کی ٹریننگ میں ملوث ہونا ممکن ہے، جنہوں نے ممبئ حملہ کیا۔
ہمارے سابقہ ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کے 3اگست 2015 کے ڈان اخبار میں چھپنے والے مضمون میں انہوں نے حملہ کرنے والوں کے ٹھٹھہ میں ٹریننگ کیمپ سے لے کر جس ٹرالر میں وہ لوگ ممبئی گئے۔ٹرالر کاانجن کا جاپان سے لاہور اور لاہور سے کراچی پہنچنے کا پکڑے جانے کا دعوی کیا ذکی الرحمٰن لکھوی جن پر ان حملوں کا الزام ہے ان پر راولپنڈی میں مقدمہ چلایا جارہا ہے عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان کی آواز کا نمونہ لینے کی اجازت دی جائے عدالت نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔
جس دہشت گردی کا عذاب ہم نے سالوں بھگتا ہے۔ستر ہزار شہری اور فوجی اس کا نشانہ بنے،ملک کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 125 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے بارے میں ہماری حساسیت تو اتنی زیادہ ہونی چاہیے تھی کہ ہم ممبئی حملوں کا مقدمہ خود بھرپور طریقے سے جلد از جلد چلاتے اور اگر ملزم، مجرم ثابت ہو جاتے تو انہیں کڑی سزا دے کر اپنے عزم کا اظہار کرتے کہ ہم اپنی سرزمین سے کسی طرح کی دہشت گردی کی کسی صورت اجازت نہ دیں گے۔یوں اخلاقی طور پر ہم ایک مضبوط جگہ پر کھڑے ہوتے اور انڈیا پر دباؤ ڈال سکتے کہ وہ بھی اپنے ہونے والے مظالم پر جواب دہ ہو۔لیکن معاملات کی ٹال مٹول سے دنیا میں ہمارے بارے میں اچھا تاثر نہیں گیا۔اسی طرح جہادی کیمپوں کے حوالے سے بھی ہمیں دنیا پر یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہم جہاد صرف ریاست کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ایسی تمام تنظیموں کو کسی صورت اپنے ملک میں کام کی اجازت نہیں دے سکتے اور غیرجانبدار مبصرین اگر ہمارے ملک کا معائنہ کرنا چاہیں تو وہ جب چاہیں آ سکتے ہیں۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل دونوں ملکوں کے حوالے سے فیس سیونگ کا بہت چرچا ہے ۔ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ یہ زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ یہاں کی فتح کوئی اہمیت نہیں رکھتی اگر وہ اخلاقی اصولوں کو پامال کر کے حاصل کی گئی ہو۔ مسلمان ہر حال میں اخلاقی اصولوں کے پابند ہیں۔دشمن اخلاقی اصولوں کو پامال کر سکتا ہے مسلمان نہیں۔کسی ایک انسانی جان کے قتل کو اللہ تعالی نے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے تو جنگ جیسا عظیم ظلم جس سے اربوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اگر وہ اخلاقی اصولوں کو پامال کر کے شروع کی گئی تو جو فریق ایسا کرے گا سوچئے کہ وہ آخرت میں اپنی فیس سیونگ کیسے کرسکے گا۔ اللہ تعالی ہم پر حق واضح کر دے آمین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply