قصہ ہمارے شاعر دوست کا۔۔۔عنبر عابر

جب  وہ تازہ تازہ فیسبک پر وارد ہوا تھا تو اندھیر نگری چوپٹ راج تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔مصرعِ طرح سمجھ کر ہر ایک اس پر طبع آزمائی کرتا۔ شہہ پاکر وہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی گالیاں بکنے لگا۔ببانگِ دہل ٹھرک جھاڑنے لگا۔کھرا انسان تھا اس لئے انباکسی معاشقوں سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔جو شخص باہر حاجی بنتا اور انباکس میں ٹھرک جھاڑتا اسے بدترین منافق سمجھتا۔ اکثر یہ شعر گنگناتا رہتا”جو حق پر ڈٹ جائے اسی لشکرِ قلیل سے ہوں“۔اس حق گوئی اور بے باکی کا نقصان یہ ہوا کہ اس کے ساتھ صرف دو فیمیل آئی ڈیز ہی فرینڈ رہ گئیں۔وہ دونوں آئی ڈیز بھی خود اسی کی تھیں!

ایک دن اس نے جی کڑا کرکے کسی شاعر کا شعر چوری کردیا۔اور خوب واہ واہ سمیٹی۔پھر اس کے حوصلے بڑھ گئے۔وہ اتنا جری ہوگیا کہ مرزا غالب کے کئی غزلوں پر دن دیہاڑے ہاتھ صاف کرگیا۔جس کسی نے کمنٹ میں اعتراض کیا۔اس ناہنجار کو پہلے رپورٹ کرتا پھر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بلاک کردیتا۔طنزیہ مسکراہٹ اس لئے کہ وہ آپ کے فیض سے محروم جو رہ گیا۔
وہ تاریخ کا پہلا سورما تھا جس نے مختلف شاعروں کو ایک دوسرے سے لڑوایا۔وہ کرتا یوں، کہ ایک شعر غالب کا لیتا اور دوسرا میر کا۔ایک داغ کا دوسرا ذوق کا۔جہاں کہیں بس چلتا اور موڈ ہوتا تو دوسرا شعر اپنی طرف سے بھی لکھ مارتا۔یہ طریقہ کارگر رہا۔یہ گھپلا کسی کے چشمِ تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا۔جب قاری غزل کے ہر شعر میں کئی کئی شعرا کو دست بگریباں دیکھتا تو مجبوراً فیصلہ آپ کے حق میں دیتا !
آپ کا کلام بہت وزنی ہوتا۔اس لئے سننے کے بعد سر پر بوجھ سا پڑ جاتا۔آپ معنی کے بجائے قافیہ بندی پر زیادہ توجہ دیتے۔اور قافیہ بندی میں تک بندی کو مفتٰی بہ قول سمجھتے۔ہر روز کسی نا کسی زمین پر ناجائز قبضہ جما لیتے۔آپ نے ہمیشہ تہذیب سے گرے اشعار کہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی پذیرائی ملی۔آپ ہی وہ پہلے شاعر ہیں جس نے سہاگ رات کی تمام تر کارروائی کو تفصیل سے مع جزئیات منظوم شکل میں بیان کیا!
ایک بار آپ نے کسی شاعر کا کلام چوری کیا تو خوب ہاہاکار مچی۔وہ دے مار اپنے دوستوں کو مینشن کررہا تھا۔آپ نے اسے فراخ دلی سے اپنے تمام دوستوں کو مینشن کرنے کی اجازت دی۔تاکہ ان کے سامنے تصفیہ ہو۔آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد حریف نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سب دوست، رشتے دار حتی کہ ایک دو پولیس والے بھی مینشن کردیے تو آپ نے تحمل سے ایک ایک کرکے سب کو بلاک کردیا۔حریف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آپ کو دیکھنے لگا۔یہ اچانک وار اس کے سان وگمان میں بھی نہیں تھا۔اس کے بعد آپ اس کے ریپلائی میں گھسے اور “لو یو “کہہ کر اسے بھی بلاک کردیا!
ایک بار ہمیں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو آپ چھوٹتے ہی فرمانے لگے۔”اس ملاقات پر ہمارا ایک شعر ہوجائے“ہم نے مروتاً کہہ دیا۔ “ضرور“۔ایک شعر سے دوسرا شعر جڑتا گیا اور دیوان تلک بات جا پہنچی۔آخر تک آپ نے سسپنس برقرار رکھا اور یہ پتا ہی نہ چلنے دیا کہ یہ دیوان کس شاعر کا ہے۔کبھی ہم فیصلہ کرتے یہ فیض کا ہے تو کبھی پلڑا فراز کے حق میں بھاری ہوجاتا…وہ تو آپ کا بھلا ہوں کہ آخر میں خود ہی یہ معمہ حل کردیا کہ دیوان اس کا اپنا ہی ہے۔اس دن غزلیں خونم خون ہوگئی تھیں۔ہر طرف اشعار پڑے کراہ رہے تھے۔یہاں وہاں زمینیں بنجر ہوگئی تھیں۔ آپ نے ہمیں مختلف پیچیدہ بحور میں غوطے دے دے کر ادھ موا کردیا تھا۔ہمارے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گئے تھے۔مزید سہنے کی تاب نہیں رہی تھی۔اس ملاقات کے بعد اکثر چلتے ہوئے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا تھا۔اس اندھیرے میں آپ کے اشعار پھلجڑیوں کی صورت میں نظر آتے جسے عرفِ عام میں دن میں تارے نظر آنا کہتے ییں!

ایک بار انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ ہمیں بہت پسند ہیں۔کیونکہ آپ دنیا کے واحد شخص ہیں جو ہماری غزلیں شوق سے سنتے ہیں۔ہماری اس خوبی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے آپ نے ہماری شان میں ایک قطعہ بھی لکھا جسے قطعۂ تاریخِ وفات کہتے ہیں۔ آپ اکثر ہمیں شاعری کے رموز سکھاتے۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے شاعری لکھنے کی خواہش کو ہمیشہ کیلئے سینے میں دفن کردیا۔ایک دن کہنے لگے”شاعری عشق چاہتا ہے۔سوز چاہتا ہے۔جو تم میں ناپید ہے“ہم بے پوچھا “حضور آپ کو کبھی عشق ہوا ہے“ فرمانے لگے”سامنے گلی میں جو لونڈا رہتا ہے نا۔اس کے ساتھ آج کل عشقِ حقیقی فرما رہا ہوں“میر کے ساتھ اگر آپ کی کسی خصلت میں مشابہت تھی تو وہ یہی قبیح خصلت تھی۔ہم نے جلدی سے اپنے کپڑے اچھی طرح درست کئے اور الٹے قدموں آپ کے حجرے سے نکلنے میں عافیت جانی۔
جب بھی کوئی نئی غزل لکھتا(چوری کرتا) سب سے پہلے ہمیں اس پر گواہ مقرر کرتا۔غضب خدا کا کئی مشاعروں میں جب وہ رنگے ہاتھوں، الف ننگی غزلوں کے ساتھ دھر لیا گیا تھا۔اس نے خاموشی سے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو اور خود لاتعلق ہوکر بیٹھ گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے مقدر کی بے عزتی بھی ہمیں بھگتنا پڑتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر وہ منحوس دن آگیا جب آپ کی کتاب شائع ہوئی۔ادھر آپ جامے میں پھولے نہ سماتے تھے اور ادھر شعرا کے چودہ طبق روشن ہوئے جاتے تھے۔آپ نے اس کتاب کو “گلدستہ“ کے عنوان سے معنون کیا تھا۔واقعی یہ کتاب اسی عنوان کی ہی مصداق تھی کیونکہ اس کتاب سے مختلف شعراء کے کلام کی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔ایک بار ہم نے زبانی ایک شعر آپ کی نذر کیا تو گویا ہوئے۔”بہت خوب۔حسرت کو خوب یاد رکھا ہے تم نے“
ہم حیرت سے بولے”مگر حضور ہم نے یہ آپ کی کتاب میں ہی دیکھا تھا“
پر اعتماد لہجے میں بولے”حسرت بھی بندہ بشر تھے۔خواہ کتنا بڑا شاعر کیوں نا ہوں کبھی کبھار ہاتھ کر جاتا ہے“
اس جوابِ آں غزل کے بعد ہمیں قدرت سے یہ گلہ کرنا بے جا محسوس ہوا کہ اس نے مسروق منہ کو اس قدر تاخیر سے کیوں پیدا کیا۔!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply