نسیم بی بی کا خواب سچا تھا۔۔محمد وقاص رشید

یہ مہوٹہ موہڑہ کا جنگل نما سنسان و ویران علاقہ تھا۔جنگلی جانور بہت بے چین تھے۔ درندے خوفزدہ تھے اور وحشی حیوان سراسیمگی کے عالم میں تھے۔ ایک ہُو کا عالم تھا۔۔۔جنگل کے پورے نظام پر سکوت و ہیبت طاری تھی،اندھیری غاروں ، درختوں کے سنسان جھنڈ اور ویران جھاڑیوں میں چھپے ہوئے جنگلی جانور جیسے سور بھیڑیے وغیرہ ایک دوسرے سے جانی دشمنی تک بھول بھلا  کر ایک دوسرے کو سرگوشیاں کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔۔۔شش۔۔۔ایک درندہ یہاں آیا ہوا ہے۔  موٹر سائیکل پر ایک عورت بھی ساتھ ہے اور ایک چودہ ماہ کا بچہ ۔ہم نے اسکی آنکھوں میں ایسی وحشت دیکھی ہے،اسکے مکروہ جسم سے ہوس کی بساند کے بھبھوکے اٹھ رہے ہیں ۔جن سے ہمارا سارا جنگل متعفن ہو چکا ہے، اسکی بدن بولی سے   ایک ناپاک وحشت و بربریت ٹپک رہی تھی،جس سے سارا جنگل آلودہ ہو چکا ہے۔ یہ ہے کون بد صفت بد بخت بد کردار۔۔ شش ۔۔ ہم سے بھی بد تر حیوان ہے،یہ انسان ہے انسان۔۔

اس انسان نما حیوان کا نام واجد ہے۔۔۔یہ تھانہ چونترہ کے علاقے میں فرنیچر کا کام کرتا ہے۔  اسکے ساتھ جو عورت ہے۔۔۔۔ نہیں تھی۔۔۔ جی ہاں تھی۔۔۔یہاں ایک جیتی جاگتی بھیک مانگ کر ہی سہی مگر ہنستی کھیلتی ماں کی زندگی کو اپنے بیٹے سمیت “ہے” سے” تھی” تک پہنچنے میں اتنی ہی دیر لگتی ہے جتنی راقم کو یہ جملہ مکمل کرنے میں لگی۔ ۔اس ماں کا نام نسیم تھا ۔نسیم وہاڑی کی رہنے والی تھی، اسکی کم عمری میں شادی ہو گئی اور بیاہ کر یہ ساہیوال چلی گئی، ساہیوال میں بھی جس شے نے اسکا پیچھا وہاڑی سے کیا وہ تھی بھوک،مفلسوں کے زائچے میں غربت ،بے بسی ،احتیاج اور مجبوریوں کی لکیریں ہی تو ہوتی ہیں۔ قسمت کے ستارے کیونکہ سوئے رہتے ہیں اس لیے ا نکی چال ہوتی ہی نہیں جو انکی چال سے یہ لکیریں بدل جائیں۔ انکی جگہ غریب خود ہی اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر چلتے چلتے قبر تک پہنچ جاتے ہیں۔

نسیم کا خاوند بھی ایک غریب آدمی تھا۔۔۔ نسیم کو اولاد کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا۔۔ انتظار اور غریب کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے،پھر نسیم کی زندگی میں بادِ نسیم بن کر یوسف آیا۔یوسف۔۔۔یوسف کے دنیا میں آنے پر نسیم ہواؤں میں اڑنے لگی۔۔اپنے بیٹے کو پڑھانے لکھانے اور بابو بنانے کے خواب دیکھنے لگی،وہ اپنے بیٹے سے ٹوٹ کر پیار کرتی تھی اور دن رات بس اسی کی بلائیں لیتی تھی۔ہر ماں کی طرح اسکے خیال میں بھی اسکا بیٹا دنیا کا حسین ترین بیٹا تھا۔۔۔ لیکن نسیم کیونکہ غریبی کی ردا اوڑھے ہوئے تھی اس لیے اسے دنیا کو یقین دلانا تھا کہ اس کا بیٹا خوب صورت ہے سو اس نے حسنِ وجمال کی نسبت سے اسکا نام یوسف رکھ دیا۔۔۔اسے معلوم نہیں تھا کہ حضرت یوسف کے فراق میں تو جنابِ یعقوب نے آنسوؤں کے ساتھ بینائی بہا دی لیکن ارضِ پاکستان پر اسے اپنے لعل یوسف کے فراق میں اپنا خون بہانا ہو گا اور اتنا کہ یہ فراق وصال بن جائے اور وہ اپنے یوسف کے ساتھ ہی اس جہان کو خیرباد کہہ دے۔

نسیم اپنی آنکھوں میں اپنے یوسف بابو کے خواب لے کر راولپنڈی آ گئی جہاں وہ اپنے ماموں رمضان اور بڑی بہن شمیم کے ساتھ رہنے لگی۔اس سارے خاندان کا پیشہ گداگری تھا۔۔۔نسیم اپنی بہن اور ماموں سے اکثر کہتی کہ میں یوسف کو اپنی محنت مشقت سے پڑھاؤں لکھاؤں گی اور اسے بڑا آدمی بناؤں گی۔ روتی آنکھوں کے خواب آنسوؤں کے سنگ بہہ جاتے ہیں یا پھر نوچ لیے جاتے ہیں۔ نسیم بی بی نے گداگری چھوڑنے کے لیے کئی دفعہ اونچے اونچے گھروں میں لازمہ بننے کی سعی کی لیکن بے سود۔اسے کہیں ملازمت نہ مل سکی۔۔۔وہ یوسف کے تعلیم یافتہ بابو بننے کے خواب کو کشکول بنا کر اسکے لیے رزق مانگتی رہی۔۔یوسف کاباپ ساہیوال ہی میں تھا اور یہاں پنڈی انکے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔۔۔وہ بھی نسیم اور یوسف سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔

نسیم اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ آج اسکو گداگری میں کچھ ملنے والا نہیں بلکہ نظامِ حیات سے خیرات میں ملنے والی زندگی ہی چھننے والی ہے۔وہ صبح یوسف کو اٹھائے اپنے ماموں اور بہن کے ساتھ گداگری کے لیے اپنے ٹھکانے پر پہنچی تو کچھ دیر بعد وہاں واجد نامی انسان نما حیوان بھی آ گیا جو کہ اس خاندان کا ایک جاننے والا تھا۔۔۔اس نے نسیم بی بی کو دوسری اولاد کے لیے تعویز دلوانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔۔سو اس دن یہ ابلیس نسیم کو اسکے بابو یوسف سمیت لے کر مہوٹہ موہڑہ کے کسی پیر کے پاس لے گیا۔۔۔ راستے میں نہ جانے کب سے اپنے من میں پلتی خباثت اور ناپاکی کے اظہار کے لیے روئے زمین پر یہ بوجھ، پوری انسانیت کے چہرے پر ایک بد نما داغ یہ درندہ واجد انہیں اس علاقے کے ایک جنگل نما ویرانے کی طرف لے گیا جہاں پر اس کے مکروہ ترین ہاتھوں نے وہ گھناؤنا ترین غیر انسانی جرم سرزد کیا کہ انسانیت پر سے پہلے سے اٹھا ہوا ،اعتبار مزید جاتا رہا۔

جنگل کے جانور بھی سوچ کر ششدر رہ گئے تھے کہ اسے تو ہم سے خدا نے افضل بنایا ہی اس لیے تھا کہ اس میں انسانیت ہے ، وہ انسانیت جو یہ آدم زاد تو فرشتوں کا مسجود تھا ہی اس لیے کہ اسے علم عطا کیا گیا تھا علم جو روئے زمین پر سب سے بڑی طاقت ہے جو انسان کو اپنی تخلیق کی وہ آگاہی دیتی ہے جس کی پگڈنڈیوں پر چل کر انسان خدا تک پہنچتا ہے۔یہ تو ہم باقی تمام مخلوقات سے اشرف ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے ہوئے تھا ہی اس وجہ سے کہ اسے دردِ دل کی دولت عطا ہوئی۔۔۔تو اس بے رحم نے اپنے دل میں کون سا وحشت و درندگی کا کیسا مقتل آباد کیا ،اپنی سوچوں میں کیسی پراگندگی کی ریاضت کی اپنی فکر کو کس بربریت کی راہ پر ڈالا کہ جس سے ہم اس جنگل کے حیوان وحشی درندے بھیڑیے سور پناہ مانگتے ہیں اور جس کا انجام یہ آج دیکھنے کو ہے ،اپنی سوچوں میں پلتے مقتل کو اس زمین پر منتقل کرنے کو ہے۔۔۔جہاں اس کی فکری پراگندگی کی بھینٹ دو انسانی زندگیاں چڑھنے جا رہی ہیں۔کیا اس نام نہاد اشرف المخلوقات کو یہ تک احساس نہیں کہ صرف چودہ ماہ پہلے اس زمین پر اپنی ماں  کا بابو بننے کے لیے آنے والا یوسف، خدا  کو اتنی جلدی واپس جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کتنا روئے گا، اس منصف و عادل قادر مطلق شہنشاہ کے دربار میں اپنی توتلی سی زبان میں کیسے گڑگڑا کر اس اذیت اور درد کی شکایت کرے گا جس نے اسے کربناک موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔اپنی ماں کو اپنی عصمت کی بھیک مانگتے روتا گڑگڑاتا اور چلاتا دیکھ کر اسکے لیے آخری آنسو بہانے اور رونے کے جرم کی سزائے موت۔

کائنات کی انسان سے وابستہ سب سے مقدس شے ایک عورت کی عصمت کی ارزنی کا عالم اس ملک میں ملاحظہ کیجیے کہ جہاں نہ زینب جتنی بچیاں محفوظ ہیں نہ سانحہ موٹر وے کی طرح زینب جتنی بچیوں کے سامنے انکی والدہ ۔افسوس کہ روز کے  اخبار پر جب تک اس طرح کی خبر ماتم کناں نظر نہ آئے اخبار تازہ نہیں لگتا۔۔ سوشل میڈیا پر بھی آئے روز ہیش ٹیگ #JusticeFor کے ساتھ نیا نام آ جاتا ہے۔۔واجد نامی اس بھیڑیے نے بھی اس تعویز کا خراج نسیم سے اسکی عصمت کی صورت وصول کیا۔۔۔ صد حیف کہ دوسری اولاد کے لیے دیا جانے والا تعویز نسیم کے سالوں کے انتظار کے بعد ملنے والے پہلے بیٹے کی قبر کا کتبہ بن گیا۔۔۔۔کاش کہ خدا کسی غریب کو انتظار ہی نہ کروائے کہ کہ اس انتظار کے دورانیے ہی میں مذہب فروش بیوپاری اپنی اپنی دکانیں اور محصول چونگیاں چلاتے اور خدا کے منتظر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ اپنی ماں نسیم کو روتا تڑپتا دیکھ کر رونے اور چلانے والا اسکا مستقبل کا پڑھا لکھا بابو اپنی بھوک کی وجہ سے اور بھی نازک گردن پر وحشی درندے کی طرف سے خنجر کا وار نہ سہہ پایا۔۔۔ اور جب نسیم نے اپنے یوسف کو بچانے کے لیے مزاحمت کی تو پلید آدمی نے اس کی گردن پر بھی خنجر کا وار کیا ۔خون ان میں تھا ہی کتنا جو کوئی فوارہ پھوٹتا ، رگوں سے گالوں تک خون کی سرخی پر بھی ملکی وسائل کی طرح صرف امرا کا حق ہے ۔دونوں کو زخمی چھوڑ کر یہ بھیڑیا بھاگ گیا۔ ۔

کوئی دو گھنٹے کے بعد جب یہ نسیم کی بہن شمیم اور رمضان کے پاس سے بغیر کوئی رابطہ کیے تیزی سے گزرا۔۔تو انہیں شک گزرا اور نسیم اور یوسف کی فکر انکے دل میں جاگی ۔ انہوں نے جب تلاش شروع کی تو جو منظر انکی آنکھوں نے اور بعدازاں پہنچنے والی پولیس کے کیمرے نے ریکارڈ کیا ۔ اسے دیکھ کر دل کیا روح بھی خون کے آنسو روتے روئے۔  اپنے انسان ہونے ہی پر شرمندگی کا ایک بوجھ محسوس ہونے لگا ۔ایک شہ رگ کٹی نزع کی ہچکیاں لیتی ماں کے پیروں میں پڑے اسکے حسین ترین بابو بیٹے یوسف کی خون میں گلا کٹی لاش دیکھ کر حضرت انسان کے خلیفہءِ خدا ہونے پر سے رہا سہا ایمان بھی جاتا رہا۔

ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے محسنِ انسانیت ص کے بعد کی پندرہ صدیوں میں انکی امت میں موجود انسانیت کی تنزلی اس پندرہ سیکنڈ کی ویڈیو سے عیاں ہے ،جہاں خدا کے آخری نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک امتی بیٹی اپنے مردہ بیٹے کو قدموں میں لٹائے اس جہان کو خود بھی الوداع کہتے کہتے بڑی معدوم سی مرگ بھری آواز میں پولیس آفیسر کے سوالوں کے بمشکل جواب دے پا رہی ہے ۔کاش اسکے اور اسکے حسین یوسف بابو کا خون زمین پر پڑتا تو یہ پھٹ پڑتی اسکی آخری ہچکی صورِ اسرافیل بن کر اس جہان کے خاتمے کا اعلان کر دیتی۔

تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ اپنے بابو کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یوسف کو پڑھانے کا اسکا خواب سچا تھا ۔ لگن اتنی پکی تھی کہ جب یوسف ہی چھن گیا تو اس نے اس جہان کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا جسے نہ اسکا وجود گوارہ ہے نہ اسکے خواب ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

درندے واجد نے پورے ملک میں اپنی تصویر والا اشتہار دینے کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے مکروہ ترین جسم کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے ،مہوٹہ موہڑہ جنگل کے جانوروں نے جس جسم پر شاید اس لیے حملہ نہ کیا ہو کہ کہیں اسکا ناپاک بدبودار گوشت نوچ کر ان میں اس انسان جیسی درندگی خباثت بے رحمی اور بربریت نہ آ جائے۔ بس وہ میری اور آپ کی طرح یہی سوچ رہے ہیں کہ کاش انسانوں کی عدالت اس بھیڑیے کو ایسی عبرتناک سزا دے دے کہ پھر کوئی کسی نسیم سے نہ اسکی عصمت چھینے نہ اسکی زندگی نہ اسکا بابو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply