باغات میں جنسی پھندے لگائیں۔

نہایت افسوس کیساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ اس عنوان کے تحت باغات میں ایسا کوئی کام نہیں ہوتا جس میں آپ کی دلچسپی کا کوئی خاص سامان پوشیدہ ہو، لہذا ککو کی ڈگر پر سوچنے سے پرہیز کریں۔ تاہم اس عنوان سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ محکمہ زراعت کے جس کسی افسر نے بھی یہ نام جنسی پھندہ رکھا ہے، وہ جمی اور ککو کا کبھی نہ کبھی شاگرد ضرور رہ چکا ہے یا ان کے فلسفے سے متاثر نظر آتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے وہ خٹک صاحب کا مرید ہو یا کبھی ان کے پھندے کا شکار رہ چکا ہو۔

جنسی پھندہ باغات پر حملہ کرنے والی سرخ مادہ مکھی کو قابو کرنے کیلئے لگایا جاتا ہے، یہ مکھی باغات میں پھلوں اور کھیتوں میں سبزیوں کے پھولوں پر انڈے دیتی ہے، جو فروٹ اور سبزی کا پھول اور کونپل کِھلتے ہی اسے کھا جاتے ہیں، اگر آپ پالک کے پتوں میں جا بجا سوراخ دیکھیں تو وہ اسی مخلوق نے کھایا ہوتا ہے۔

یہ مکھی پھول کے علاوہ پھل میں سوراخ کرکے اس کے اندر بھی انڈے دے دیتی ہے، جس سے نکلنے والے بچے فروٹ یا سبزی کا گودا کھانے لگتے ہیں، اس سے فصل کو کیرے، مطلب گراوٹ، کی بیماری لگتی ہے یعنی پھل اور سبزی پکنے کی بجائے گل سڑ کر پودوں سے گرنے لگتے ہیں، اور پیدا ہونے والے بچے دو چار روز میں مکھیاں بن کر پھر سے باقی پودوں پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں، اس بیماری اور مصیبت سے نمٹنے کیلئے مکھی کی نسل کُشی کیلئے اسے جنسی پھندہ لگایا جاتا ہے۔

جنسی پھندہ یہ ہوتا ہے کہ میتھائل اور کلورین بیسڈ ادویات سے بوریاں بھگو کر کھیتوں میں جگہ جگہ بچھا دی جاتی ہیں، اس کی خوشبو سے مسحور ہو کر مذکورہ مکھی پھل پر حملہ آور ہونے کی بجائے بوری کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے اور وہیں بوری پر بیٹھ کر انڈے دینے لگتی ہے جو ادویات سے ضائع ہو جاتے ہیں، ان بوریوں کو روزانہ کی بنیاد پر میتھائل، کلورین یا مجوزہ دوائی سے بھگونا پڑتا ہے تاکہ مکھی روزانہ کی بنیاد پر شکار ہوتی رہے، اس کیمیکلائزڈ بوری کو جنسی پھندہ کہتے ہیں۔

جب سے یہ نظام آیا ہے تب سے کئی زمینداروں کے گھر طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ جب کسانوں کی بیویوں کو پتا چلتا ہے کہ موصوف روزانہ کھیتوں میں جا کے جنسی پھندہ لگاتے ہیں تو وہ برداشت نہیں کر پاتیں، بعض کی تو اولادیں بگڑ گئیں کہ ابا جی کھیتوں میں جنسی پھندے لگا سکتے ہیں تو ہم کالج میں کیوں نہیں لگا سکتے؟

کبھی غریب عورتیں بھی کھیتوں میں مزدوری کیا کرتی تھیں، ماضی میں کئی بار اس بات پر بھی دیہاتوں میں لڑائیاں ہو چکی ہیں کہ پیغام دینے والے نے جا کر ان سے یوں کہا کہ چوہدری صاحب گندم بو رہے ہیں اس لئے سب عورتیں کل آکر بیج ڈلوا جانا، اب جنسی پھندہ لگوانے کے پیغام پر بھی یہی پھڈا ہو جاتا ہے۔

اوریا صاحب کو اس فحاشی کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور مولویوں کو بھی سخت احتجاج کرنا چاہئے کہ جن کھیتوں کا رزق ہم کھاتے ہیں، وہاں کس ڈھٹائی کیساتھ جنسی پھندے لگائے جاتے ہیں جس سے رزق میں کراہت پیدا ہوتی ہے۔ نیز زرعی کاموں کے سرکاری طور پر اتنے گھٹیا نام رکھنے سے یہ بات بھی صاف طور پر عیاں ہے کہ فاشسٹ لبرل طبقہ اس ملک کو کس ڈگر پر ڈالنا چاہتا ہے۔

مولوی حضرات اس گھمبیر بے حیائی کے معاملے پر احتجاج کرتے ہیں یا نہیں، یہ ان پر منحصر ہے لیکن ایک عاجزانہ سی اپیل ہے کہ علماءاکرام اگر اس معاملے پر احتجاج کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں تو پھر برائے مہربانی جس طرح محکمہ زراعت نے مکھی کی نسل کُشی کیلئے کھیتوں میں جنسی پھندے کا اہتمام روا رکھا ہے، اسی طرح علماءاکرام کرپٹ سیاستدانوں کیلئے بھی پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کسی جنسی پھندے کی گنجائش نکالیں۔ میچ فکسنگ میں ملوث کرکٹ ٹیم کو تو جنسی پھندے کا لالچ دے کر اس بوری پر دوچار دن مسلسل بٹھانا چاہئے۔ جنسی پھندے کے حقدار بندے تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن اس پھندے کے کثرت استعمال سے معاشرے میں جنسی کا لفظ کہیں زیادہ ہی پاپولر نہ ہو جائے، اس لئے جو ہو گیا سو گیا، بس اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

ایک پولیس والے نے مجھے بتایا کہ تھرڈ ڈگری کیلئے طریقے تو ہم نے بھی بڑے بڑے کسُوتے ایجاد کر رکھے ہیں لیکن یہ زراعت والے تو ہمارے بھی استاد نکلے۔ اب اس کا خیال ہے کہ آنسو گیس کا نام جنسی گیس رکھنا ہوگا تاکہ لوگوں کو تکلیف کی بجائے سواد آئے اور لاٹھی چارج کی بجائے ہم ڈنڈوں کو کیمیکل لگا کے جنسی چارج کیا کریں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عوام پٹنے کے بعد میڈیا پہ بتانے سے شرمائے گی کہ دراصل ان کے ساتھ پولیس کی طرف سے ہوا کیا ہے۔ اس طرح پولیس اور حکومت دونوں کی ساکھ بچی رہے گی۔

پاکستان میں میرٹ کا قتل عام کرنیوالوں کو قطعاً معاف نہیں کرنا چاہئے جن کی بدولت اہم پوزیشنوں پر ایسے لوگ آجاتے ہیں جنہیں مناسب الفاظ کا استعمال تک نہیں آتا۔ جب تک اس محاسبے کا انتطام نہیں ہو جاتا تب تک اس بات سے بھی ڈرنا چاہئے کہ کل کوئی ماہر معاشیات فائنانشئیل کرنچ کو معیشت کا جنسی پھندہ قرار نہ دیدے۔ سنسنی خیز خبریں پیش کرنیوالوں کا بھی بھروسہ نہیں، وہ بھی سنسنی میں کچھ ترمیم کرکے ساتھ میں جیم چپکا دیں۔ آجکل جس طرح کے میڈیکل فزیشن آرہے ہیں، ان کا بھی پتا نہیں کل کلاں کھانا کھاتے ہوئے گلے میں لگنے والے پھندے کو بھی اپنی طرف سے کوئی پرکشش نام دے ڈالیں۔

مجھے تو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ جہاں ماہرین زراعت اس سادہ سی بات کو جنسی پھندے کا نام دے چکے ہیں، وہاں اینیمل ہسبینڈری کے ماہرین شکاری کتوں کے اس باہمی ربط کو ویسپا۔وار نہ قرار دے دیں جس کے تحت بریڈنگ سیزن میں وہ دونوں مخالف سمت کو منہ کرکے ایکدوسرے کو کھینچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ریلوے کی دو بوگیوں کو باہم کپلنگ کرنے کے تصور کی بنیاد پر اسے بوگی پوزیشن نہ کہہ دیں۔

عامۃالناس سے گزارش ہے کہ محبوب کو رام کرنے کیلئے کبھی اسے جنسی پھندے والی اس بوری پر مت بٹھانا مبادا وہ مکھی کی طرح مست ہو کر وہیں انڈہ دینے پر راضی ہوجائے کیونکہ جیسے ہی اسے پیندے پر کیمیکلز کی چبھن محسوس ہوگی وہ آپ کے سر میں اینٹ اٹھا کے مار دے گی۔ ایسا ککو کے ساتھ ہو چکا ہے، جب وہ کھاد کی بوریوں کے پیچھے چھپ کر رومانس لڑانے کے چکر میں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے ایک جنسی پھندہ اور بھی ہوتا ہے جو باغات میں ہی لگایا جاتا ہے، اسے بیان کرنا یہاں مناسب نہیں۔ تاہم اس پھندے پر ایک گانا بنا ہوا ہے، آپ چاہیں تو اپنے علم کی پیاس بجھانے کیلئے وہ گانا ضرور سن سکتے ہیں، اس کے بول کچھ یوں ہیں کہ
؎ میں امب چُوپن لئی گئی، باغ وچ پھڑی گئی، آہا جی باغ وچ پھڑی گئی۔

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply