لیاری۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط10

گزشتہ سطور میں تحریر کیا جاچکا ہے کہ 1971 کو بنگال کی علیحدگی نے لیاری کے فٹبال پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے تھےـ بھٹو حکومت نے گوکہ فٹبال کی بحالی پر توجہ ضرور دی مگر پاکستان پر مسلط اسٹبلشمنٹ نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور زوال فٹبال کا مقدر بن گئی ـ

لیاری میں فٹبال کی تاریخ کو عموماً 1930 سے جوڑا جاتا ہے جب انگریز حکام نے علاقے میں فٹبال کا شوق دیکھ کر اس کی سرپرستی کرنی شروع کردی ـ نوآبادیاتی حکام کا مشغلہ کرکٹ تھا اس لئے انہوں نے غریبوں کے کھیل کو زیادہ توجہ کے قابل نہ سمجھا ـ لیاری نے اپنی مدد آپ کے تحت فٹبال کو زندہ رکھا ـ قیامِ پاکستان کے بعد لیاری کے مطالبے پر محمد علی جناح نے فٹبال کو ترقی دینے کا وعدہ کر کے “پاکستان فٹبال فیڈریشن” کی منظوری دی ـ فٹبال کا گڑھ اور مرکز چونکہ کراچی تھا اس لئے فیڈریشن کا مرکزی دفتر کراچی میں قائم کیا گیاـ یہ صرف نمائشی اقدام ثابت ہوا ، حکومت پاکستان نے بھی انگریزوں کے نقشِ قدم پر چل کر کرکٹ کو ہی افضل سمجھاـ زیادہ واضح الفاظ میں کہا جائے تو پاکستانی حکومت نے انگریزوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر فٹبال کی بربادی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاـ اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے کرکٹ کا پروپیگنڈہ کیا گیا، اس کے لیے بھاری فنڈز مختص کیے گئے، کرکٹ میچز دکھانے کا پورا پورا بندوبست کیا گیا دوسری جانب فٹبال کچھوے کی رفتار سے رینگتی رہی ـ

برازیل کی مانند لیاری کا اوڑھنا بچھونا بھی فٹبال ہے ـ نامساعد حالات کے باوجود لیاری نے ایک سے ایک نامور کھلاڑی پیدا کیے ـ عمر بلوچ ، جنہیں پیلے کہا جاسکتا ہے ـ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاًـ عمر بلوچ اپنے زمانے کے ایسے زبردست کھلاڑی تھے کہ ہندوستانی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو بھی ان کے پرستاروں میں شمار ہوتے رہے ـ لیاری کی فٹبال کو سب سے زیادہ ڈھاکہ نے پزیرائی بخشی ـ مشرقی پاکستان کے لیگ ٹورنامنٹس میں کراچی کی فٹبال کلبوں کو بطورِ خاص بلایا جاتا اور یہ وہاں جاکر بنگالیوں کو حیران کرتے اور کپ لے آتے ـ عمر بلوچ کو مشرقی پاکستان سمیت بھارت میں بھی چاہا جاتا تھا ـ انہوں نے درجنوں عالمی و علاقائی ٹورنامنٹس میں پاکستان اور لیاری کی بھرپور نمائندگی کی ـ

علی اصغر، ایوب ڈاڈا، عبدالغفور مجنا، غلام سرور ٹیڈی، استاد موسی بلوچ، عبداللہ راہی، استاد رمضان اور تراب علی سمیت درجنوں کھلاڑی نہ صرف لیاری بلکہ فٹبال کے شعبے میں پورے برصغیر کے ہیرو سمجھے جاتے تھے ـ حکومت کی عدم دلچسپی کے باوجود لیاری نے فٹبال کے ساتھ اپنا جنونی عشق برقرار رکھاـ میرے دادا، مرحوم جمعہ کامریڈ کے مطابق پچاس کی دہائی میں برٹش کونسل، لیاری سمیت کراچی بھر کے فٹبال کلبوں کو یورپی اور عالمی میچز کے ویڈیو کیسٹس فراہم کرتی تھی ـ لیاری کے کھلاڑی ان میچز کو دیکھ دیکھ کر اپنے کھیل کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے تھے ـ یہاں مجھے معروف لیاری نشین صحافی و سابقہ فٹبالر نادر شاہ عادل کی ایک خوبصورت بات یاد آگئی ـ ان کے مطابق “یورپی و عالمی میچز نظری تربیت ، شعور ، اور ہنر مندی کا خزانہ ہیں ۔فٹبال کھیلنا صرف گیند لے کر دوڑنے کا نام نہیں ہے” ـ حکومت پاکستان اگر عالمی ٹیموں کو دعوت دیتی یا یہاں کی ٹیموں کو باہر بھیجنے کی زحمت اٹھاتی تو مختلف ممالک کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر یہاں کے فٹبالر ان کے تجربے و تکنیکس سے فائدہ اٹھاتے اور کندن بن جاتے ـ لیاری پیدائشی فٹبالر ہے ضرورت اسے مواقع فراہم کرنے کی تھی مگر اسٹبلشمنٹ نے لیاری کی ترقی پسند سیاست اور آمر مخالف مزاج کی سزا ان کے محبوب کھیل کو دی ـ

پچاس کی دہائی کے اواخر میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے فٹبال فیڈریشن کا دفتر کرکٹ کی دنیا، لاہور منتقل کردیاـ لاہور کا بھلا فٹبال سے کیا واسطہ؟ بقول شخصے، پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ سمندر کو بھی لاہور منتقل کردیتےـ فٹبال کو جو تھوڑی بہت امداد مل رہی تھی اس منتقلی سے وہ بھی بند ہوگئی ـ خراب معاشی و سماجی حالات سے گزرتے فٹبالروں کے کھیل کا معیار گرتا چلا گیاـ فیڈریشن کی منتقلی نے گراؤنڈز سنسان کردیے ـ ڈھاکہ سے تھوڑی بہت امیدیں تھیں، بنگال کی علیحدگی نے وہ موہوم امید بھی خاک میں ملا دی ـ فٹبال یتیم ہوگئی ـ

بھٹو حکومت نے مختلف اداروں میں فٹبالروں کو نوکری دے کر ادارہ جاتی فٹبال کے زوال کو روکنے کی کوشش تو کی مگر پنجابی اکثریت کی حامل اسٹبلشمنٹ نے اردو بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اسے بھی ناکام بنانے کی حتی الامکان کوشش کی اور وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے ـ کراچی پورٹ ٹرسٹ ، پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز، سندھ گورنمنٹ پریس، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، حبیب بینک اور پاکستان ریلوے سمیت متعدد اداروں کے فٹبال کلبز یکے بعد دیگرے ڈوبتے سورج کی مانند غروب ہوتے گئے ـ

جنرل ضیا الحق کو تو گویا فٹبال سے کوئی ذاتی دشمنی تھی ـ ان کے دور میں جہاں لیاری ، کرفیو اور آنسو گیسوں سے زخم زخم ہوا وہاں فٹبال کو بھی بدترین سزائیں دی گئیں ـ

نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو نے دوبارہ لیاری کی فٹبال میں روح پھونکنے کی کوشش کی مگر ان کی کوششیں بھی نقش بر آب ثابت ہوئیں ـ گوکہ ان کے ادوار میں خالق ڈاڈا، اقبال گنجا، پرویز بلوچ اور پٹو جیسے مایہ ناز فٹبالروں نے اسلاف کا نام روشن کیا مگر وہ بھی رفتہ رفتہ فٹبال دشمن پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی اڑائی گئی گرد کی دھول میں کھو گئے ـ

بے نظیر حکومت نے لیاری میں واقع گنجی گراؤنڈ کی تزئین و آرائش کر کے اسے “پیپلز پلے گراؤنڈ” کا نام دے کر فٹبال کو ترقی دینے کا اعلان کیاـ ستم ظریفی دیکھئے، آج یہ گراؤنڈ رینجرز کے قبضے میں ہے اور وہاں فٹبال کا داخلہ سخت منع ہےـ حکومت آج بھی پیپلزپارٹی کی ہی ہےـ ریلوے گراؤنڈ ، کے پی ٹی گراؤنڈ اور کے ایم سی گراؤنڈ عرصہ ہوئے فٹبال سے نا آشنا ہیں ـ کسی زمانے میں لیاری کے چند فٹبال دوستوں کی کوششوں سے گلف ایئر لائن اور لائف بوائے کے تعاون سے فٹبال ٹورنامنٹس منعقد کئے جاتے تھے ـ گینگسٹروں کے عروج کے دنوں میں وہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیاـ چند سال قبل بلوچستان کا دور افتادہ اور غیر معروف علاقہ “اوستہ محمد” لیاری کی فٹبال کو سہارا دیتا رہا ـ آج وہاں سے بھی اچھی خبریں آنا بند ہوگئی ہیں ـ شوق ہر رنگ میں رقیبِ بے سر و ساماں نکلا کے مصداق لیاری کے عوام نے گبول پارک ، مولوی عثمان پارک ، ککری گراؤنڈ، کلری گراؤنڈ وغیرہ میں مقامی فٹبال کلبوں کے ذریعے تاحال اس عالمی کھیل کو زندہ رکھا ہے ـ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ـ

کراچی آج بھی فٹبال کا مرکز ہے ـ اس مرکز کا مرکز لیاری ہے ـ افسوس کراچی میں سالوں تک حکمرانی کرنے والی ایم کیو ایم کا رویہ بھی فٹبال کے حوالے سے معاندانہ ہی رہا ـ حالانکہ ایم کیو ایم کا دعوی ہے وہ کراچی کے حقوق کا پاسبان ہے ـ

جاں بلب فٹبال کو اب بھی کسی مسیحا کا انتظار ہے ـ یہ انتظار یقیناً محض دیوانے کا خواب ہے بقول معروف شاعر گلزار “خواب تھا شاید خواب ہی ہوگا”

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply