بوریت بچوں کے لیے کتنی ضروری ہے؟

” پامیلا پال “

”میں بور ہو گیا ہوں”۔ یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے، لیکن یہ والدین کو تشویش، تنگی اور جرم کا احساس دلانے  کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر یہاں کوئی بوریت کا شکار ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اس کو خوش کرنے  یاموڈ بدلنے میں ناکام ہے۔جب کچھ کرنے کے لیے موجود ہو تو   کیسے کوئی بچہ یا بڑا بوریت کا دعوی کر سکتا ہے؟

لیکن بوریت ایک ایسی چیز ہے جس سے بھاگا نہیں جاتا بلکہ اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے ۔یہ وکٹورین دور کے ظلم جیسا نہیں بلکہ انسان کو سخت بنا دیتا ہے۔ بڑے لوگوں کے سیکھے ہوئے سبق کے بر عکس یہ ایک حقیقت ہے کہ بوریت فائدہ مند چیز  ہے۔ یہ آپ کے لیے اچھی ہے۔

اگر بچے شروع سے ہی اس کو پہچان نہ سکیں، تو وہ اس صورتحال کو دیکھ کر حیرانی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔  چلیں یہ سمجھ لیں کہ سکول  ایک بوریت والی جگہ ہے اور یہ استاد کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی بوریت بھی دور کرے۔ زندگی ایک حیرانگی کی ختم نہ ہونے والی پریڈ نہیں ہے۔ ”یہ صحیح  ہے۔ ” ماریہ سیمپل کے 2012 کے ناول میں ماں اپنی بچی سے کہتی ہے، ”برناڈٹ، تمہیں کہاں جانا چاہیے؟”۔ ”تم بوریت کا شکار ہو۔ اور میں تمہیں زندگی کا ایک چھوٹا سا راز بتانا چاہتی ہوں۔ کیا تم سوچتی ہو کہ تم بور ہو رہی ہو؟ اچھا، اس سے تمہیں مزید بوریت ہو گی۔ جتنا جلدی تم اس راز کو اپنی زندگی کے ساتھ جوڑو گی اتنی ہی جلدی تمہاری زندگی بہتر ہو جائے گی۔”

لوگ اس بات کو تسلیم کرتے آئے ہیں کہ زندگی کا زیادہ تر حصہ بوریت میں گزرتا ہے۔ اکیسویں صدی سے پہلے کی یاداشتیں بوریت  سے بھر پور ہیں۔ تب لوگ اگر  ڈرائنگ روم میں بے کار بیٹھنے سے تنگ ہو جاتے تو والک کے لیے نکل جاتے اورگھنے درختوں کے نظارے دیکھ کر دل بہلاتے۔  وہ موٹر کاروں پر نکلتے اور مزید درخت دیکھتے۔ جن کو کام کرنا ہوتا تھا ان کے لیے یہ نہایت مشکل ہوتا تھا۔ زراعتی اور صنعتی ملازمتیں اکثر  دماغ کو ماوف کر دینے والی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ مزدوری کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔  بچے اس قسم کے مستقبل کی توقع کر سکتے تھے اور یہ خیال وہ بچپن سے ہی پال لیتے تھے، انہیں بس کتابوں کی الماریوں اور درختوں کی شاخوں کے بھروسے چھوڑ دیا جاتا تھا، اور بعد میں سہ پہر کو ٹیلی ویژن پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔

صرف چند عشرے قبل بڑی عمر کے لوگ سمجھتے تھے  کہ تھوڑی سی بوریت زندگی کے لیے بہتر چیز ہے۔  اور بچے اپنے خالی منشوروں کو سراہتے تھے۔ جی کیو میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں، لین مینوئل میرنڈا نے اپنے سہ پہر کے وقت نظر انداز کیے جانے کو تربیت کا اہم حصہ قرار دیا۔  وجہ یہ تھی کہ ان کے مطابق خالی بیڈ روم  یا خالی صفحات سے بہتر کوئی ایسی چیز نہیں جو تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا کام کر سکے۔

آج کل، بچوں کی اس طرح کی غفلت کو والدین کا غیر  ذمہ دارانہ رویہ  مانا جاتا ہے۔ دی ٹائمز میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کہانی ”ماڈرن پیرنٹنگ کی  جد و جہد” میں کلیئر کین ملر نے ایک حالیہ  مطالعے کا حوالہ دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ بچے کا تعلق کسی بھی  طبقے، آمدن یا نسل سے ہو، والدین کا یہ خیال ہے کہ جن بچوں  کو سکول کے بعد بوریت ہوتی ہے، ان کو اضافی سرگرمیوں میں داخل کرنا چاہیے، اور  مصروف والدین  کو بھی بچوں کے مطالبہ کی صورت میں اپنا کام چھوڑ کر بچوں کو وقت دینا چاہیے۔ ‘

ہر فارغ لمحہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بڑے مقصد کی تلاش میں  گزارنا چاہیے،

جب والدین کے سہارے کا فقدان نہ ہو تو بچوں کو ڈیجیٹل چیزوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔جب والدین کسی لانگ ڈرائیو پر جانا چاہتے ہوں تو وہ ایسے رویے اختیار کر لیتے ہیں جیسے وہ کوئی ملک فتح کرنے جا رہے ہوں۔  وہ بچوں کو آئی پیڈ پر ان کی پسندیدہ فلمیں ڈال کر دیتے ہیں تا کہ وہ گاڑی میں بیٹھے بور نہ ہوں۔ 70 کی دہائی میں والدین کیا کرتے تھے جب ان کے بچے بوریت محسوس کرتے تھے؟ کچھ نہیں وہ بچوں کو ہوا میں سانس  لینے دیتے تھے  یا ان پر تشدد کرتے تھے۔

اگر آپ  تب بوریت کی شکایت کرتے  تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ بوریت محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ تب آپ کو جواب ملتا تھا: باہر چلے جاو  یا پھر کمرہ صاف کر لو۔ کیا یہ کوئی دلچسپ چیزیں ہیں؟ بلکل نہیں۔ لیکن یہ فائدہ مند ضرور تھیں۔

اس کی وجہ ی ہے کہ نئی چیزیں تبھی واقع ہوتی ہیں جب آپ بوریت محسوس کرتے ہیں۔ کچھ بوریت والی ملازمتیں جو میں نے کیں وہ تخلیقی بھی تھیں۔ سکول کے بعد کسی اہم فیکٹری میں کام کرتے ہوئےمیں نے  برائے فروخت شیٹوں پر بد صورت  پرویوین کی تصاویر بھی لگائیں۔ میرے ہاتھ گلو کے ساتھ چکنے ہو جاتے جب کہ سویٹر دھندلا ہو جاتا۔ کسی وجہ سے، ہر چیز بدبودار ہو جاتی۔ میرے پاس ایک وسیع تصوراتی دائرہ کار میں چلے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ جب آپ بور ہوتے ہیں تو آپ کے دماغ میں کہانیاں آتی ہیں۔ سپر مارکیٹ میں گراسری چیک کرتے ہوئے میں  نے خریدنے والے لوگوں کے الفاظ اور زبان کو سمجھنے کی کوشش کی۔

جب آپ بوریت کے عادی ہو جاتے ہیں، تو آپ خود کو دریافت  کی راہ پر ڈالنے لگتے ہیں۔آپ کو درختوں کے بیچ چھوٹے چھوٹے فرق بھی نظر آنے لگتے ہیں ، مختلف خیالات آپ کے ذہن سے گزرتے ہیں  اور نت نئی چیزیں تصور میں تبھی آتی ہیں جب آپ بے کار بیٹھے بور ہو رہے ہوں۔  آپ اپنے دماغ کو گھومنے دیتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں۔

اہمیت صرف بوریت کی نہیں بلکہ اس چیز کی بھی ہے کہ ہم اس بوریت سے نمٹتے کیسے ہیں۔ جب آپ  تھک جاتے ہیں تو  بوریت  آپ کو ایک تعمیری طریقے سے خود کو  کچھ نیا کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جب تک ہم حقیقی طور پر بوریت سے نہیں گزرتے، ہم کچھ نیا سیکھ نہیں سکتے۔

مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ بھی The GashlycrumbTinies کے  نیول کی طرح  ہمیشہ کی بوریت میں پڑے رہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ آپ اس چیز سے جان چھڑانے کا طریقہ سیکھ لیں۔ یہ بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ آپ  خود کے اندر جھانک کر اپنی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں، کتاب پڑھنے لگیں، اچھی نوکری  کا انتخاب کرنے پر غور کریں، وغیرہ۔ بوریت سے انسان تخیل کی دنیا میں جا سکتا اور خود کو منظم کرنا بھی سیکھ سکتا ہے۔

بوریت سے نمٹنے کی صلاحیت کا تعلق  اپنے آپ کو باقاعدہ بنانے اور فوکس رکھنے سے ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ زیادہ دیر ایک چیز پر توجہ  برقرار نہیں رکھ سکتے وہ خاص طور پر بوریت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ  اس تیز دنیا میں جو چیز پہلے دلچسپ محسوس ہوا کرتی تھی اب ایسی نہیں ہے  اور جیز پہلے بہت پر کشش ہوتی تھی اب بے کار سمجھی جاتی ہے۔

بچوں کے لیے اہم ہے کہ وہ بوریت محسوس  کریں  اور  چھوٹی عمر میں اکثر بور ہوتے رہیں  ۔ اسے کوئی بڑا مسئلہ سمجھ کر اس سے بچنے کے راستے نہیں ڈھونڈنے چاہیے۔ بلکہ اس کے بجائے بچوں کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ خود سے کوئی مصروفیت تلاش کریں۔

ہم نے بچوں کو اس کی تربیت دینا چھوڑ دیا ہے۔ ان کو سست مائل، بوریت والی اور دو طرفی  چیزوں کو برداشت کرنے کے بارے میں سکھانے کی بجائے،سکول انہیں ایک پنجرے میں بند کر دیتے ہیں اور اسے بچوں کی ضرورت اور تفریح قرار دیتے ہیں۔  استاد بچوں کو   دیکھنے اور سننے کی مختلف مشقوں میں مصروف رکھنے کے نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور انہیں گیمز اور سکرین پر مشغول رکھتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں بچوں کے محدود توجہ کے اوقات کو دیکھ کر ترتیب دی جاتی ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بچے لمبے لیکچر نہیں سن سکتے اس لیے ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں کے استعمال کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔

لیکن یقینا بچوں کو تفریح کے بجائے بوریت کو برداشت کرنے کے بارے میں سکھانا ان کو ایک اصل مستقبل کے لیے تیار ہونے میں مدد گار ثابت ہو گا، ایسا مستقبل جو کام اور زندگی کے بارے  میں غلط توقعات کو پروان نہیں چڑھاتا۔ یہ ممکن ہے کہ کسی دن ہمارے بچوں کو ایک ایسی نوکری کرتے ہوئے جو ان کی پسند کی ہے، پورا دن ایک ای میل کا جواب دینے میں گزر جائے۔ انہیں سپریڈ شیٹ چیک کرنا پڑیں، یا پھر ایک بڑے وئیر ہاوس میں روبوٹس کی نگرانی کرتے نظر آئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ بورنگ لگتا ہے۔ یہ کام  یا زندگی کی طرح محسوس ہوتا ہے ۔ شاید ہمیں ایک بار پھر اس سے مانوسیت اپنانی ہو گی  اور اسے اپنے لیے فائدہ مند بنانا ہو گا۔ اس تیز رفتار زندگی میں  ہو سکتا ہے ہمیں اتنا  لطف نہ آئے لیکن ہمیں اس کو  اپنا لینا چاہیے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply