جینٹلمین۔۔۔۔۔ مدثر بشیر

کسی سرکاری دفتر میں سائل کی چائے سے تواضع بذاتِ خود الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے لیکن یہاں انوکھا پن اس لئے بھی سوا تھا کہ یہ دفتر تھا بھی محکمہ بجلی کا ۔بلوں نے لوگوں کا دماغ الٹا دیا تھا سو سرکاری میزوں کے دوسری جانب ہر نوع کا آدم زادجلا بھنا کھڑا تھا۔انہی میزوں کی قطار کے آخری میز کے ساتھ زنجیر سے بندھی کرسی پرساٹھ کے پیٹے کی ایک عورت چائے سے لطف اٹھانے میں مصروف تھی۔ اس کے مقابل لگ بھگ تیس برس کا جوان برا جمان تھا۔ چائے پیتی عورت کے دانت پورے شدومد سے گواہی دے رہے تھے کہ کم از کم دس پان روزانہ کی بنیاد پر ان کا رزق بنتے ہیں۔ چائے کے ساتھ گفتگو جاری رکھتے ہوئے اس نے اپنے پرانے سے بٹوے سے بل نکالا۔ بٹوے کی وضع قطع بتا رہی تھی کہ اپنے عروج کے دنوں میں خاصا قیمتی رہا ہوگا۔ بل میز پر رکھتی ہوئی بولی ’’یہ پکڑ لو بیٹا، کہاں سے بھریں ہم اکٹھا دو ہزار کا بل!‘‘
’’ دکھائیں ،آج کی ریڈنگ نوٹ کر کے لائی ہیں؟‘‘ کلرک بابونے ہاتھ بڑھا کر بل تھام لیا۔
’’ لے بتا… میں بوڑھی اماں، میں کیا جانوں یہ ریڈنگ ویڈنگ کیا ہوتی ہے، کیسے نوٹ کرتے ہیں‘‘
’’ اچھا …. بل آپ کے نام پر ہے؟ خورشید بیگم، فصیل روڈ ٹکسالی دروازہ لاہور‘‘ کلرک بابو نے بل پر درج پورا پتہ پڑھ ڈالا۔
’’ ہاں بیٹا ، یہی ہے پتہ اور مکان بھی میرے نام ہے، اور تم یہ بتاؤ بھلے آدمی، تیرے پاس تیسری چوتھی بار آئی ہوں اور پتہ تم آج پڑھ رہے ہو؟‘‘
’’ اس کی ضرورت ہی آج پڑی ہے، خیر…. میٹر کی ریڈنگ میں کسی کو بھیج کر منگوا لوں گا اور جو بل پر ہے اس سے موازنہ بھی کر لوں گا‘‘ کلرک بابو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’ اور پھر اس کے بعد…. اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘
’’ وہ میں دیکھ لوں گا، بل کی طرف سے آپ بے فکر ہو جائیں، آپ مجھے اپنی گائیکی کے بارے میں بتائیں‘‘ کلرک بابو نے بل اپنی جیب میں ڈال لیا اور وہ بڑھیابے فکری کے عالم میں ٹانگیں کرسی پر رکھ کر بیٹھ گئی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ و ہ ایک سرکاری دفتر میں ہے جہاں بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہیں۔
’’سدا جیئے توکلرک بابو، اب گانا رہ کیا گیا ہے…. بیٹا میں شرافت خان صاحب کی شاگرد ہوں، میری ماں کا نام مہرو بیگم تھا‘‘ بڑھیا کے لہجے میں تفاخر کا عنصر نمایاں تھا۔
’’ اچھا…. ہاں، یاد آیا، ان کا نام پرانی فلموں میں دیکھا ہے اور آپ کا بھی‘‘ کلرک بابو نے یادداشت کے کسی گوشے میں جھانک کرقدرے پرجوش لہجے میں بتایا۔
’’ ہاں…. کچھ فلموں کے گیت گائے ،کچھ میں اداکاری بھی کی، ہائے…. کاش میں خان آصف کے پیچھے ہندوستان چلی جاتی تو….‘‘ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور جملہ ادھورہ چھوڑ دیا۔
’’ تو…‘‘ کلرک بابو نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کریدا۔
’’کیا ہوسکتا تھا…. یہاں تویہی ہوسکتا تھا، اوپر نیچے چار بچے ہوئے، پہلے تین لڑکے اور پھر ایک بیٹی، لڑکے تینوں کے تینوں باہر چلے گئے، بس میری بیٹی میرے پاس ہے‘‘
’’کیا مطلب، کہاں چلے گئے؟‘‘ کلرک بابو کے چہرے پر سوال کے ساتھ ساتھ حیرت بھی دکھائی دی۔ اس سے پہلے کہ بوڑھی عورت جواب دیتی ایک چپڑاسی وہاں آن دھمکا، ایک شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ بڑھیا کو دیکھتے ہوئے بولا’’ مسعود قریشی صاب، اندر سے بلاوہ ہے آپ کے لئے‘‘
’’ آتا ہوں‘‘ مسعودقریشی نے مختصر جواب دیا اور خورشید بیگم کی جانب نظر کی، وہ اسے متوجہ پا کر گویا ہوئی ’’ میرے بھولے پتر… ہمارے ہاں باہر چلے جانے کا مطلب آبائی پیشہ چھوڑ کر ہیرا منڈی سے باہر چلے جانا ہے۔‘‘بات مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے ہونٹوں سے پان کی لالی کچھ اس انداز سے صاف کی کہ اسے دیکھ کر دوسری میزوں سے دبی دبی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ کلرک بابو نے چونک کرہنسی کی آواز کا پیچھا کیا اور بوڑھی عورت سے بولا ’’ چلیں، آپ اب جائیں، میں آپ کے گھر آؤں گا‘‘
’’ چلو ٹھیک ہے، میں بھی نیچے رکشہ کھڑا کر کے آئی ہوں، اس نے بھی اتنے پیسے مانگ لینے ہیں انتظار کے‘‘
’’جی جی… آپ جائیں، میں شام کو چکر لگاؤں گا، آپ کا بل میں اپنے پاس ہی رکھوں گا‘‘
’’ اچھا…. جیتا رہ بیٹا ….نام کیا ہے تیرا، میرے تو ذہن سے ہی نکل گیا‘‘ نشست چھوڑتے ہوئے بڑھیا نے سوال کیا۔
’’ جی میرا نام مسعود ہے…. مسعود قریشی، اور یہ…. میرا نمبر بھی رکھ لیں‘‘ اس نے اپنا موبائل نمبر ایک کاغذ پر لکھ کردے دیا۔
’’ لیکن لگتے تم کشمیری ہو… یا پٹھان‘‘ اس نے فقرہ اچھالا اور مسکراتی ہوئی باہرکو چل دی۔اس کے جاتے ہی ایک اور سائل بل لیے میز پر آ کھڑا ہوا اور برا سا منہ بنا کر بولا ’’ جناب ہمیں بھی چائے ملے گی یایہ سہولت صرف کوٹھے والیوں کے لئے ہی ہے‘‘
’’تشریف رکھیں جناب، آپ تو چائے کے ساتھ ٹھنڈے کے بھی مستحق لگ رہے ہیں، حکم کریں، کیا خدمت کروں؟‘‘ مسعود نے اپنے ردِ عمل میں پنہاں طنز کوخوشگوار لہجے میں لپیٹ کر بیان کیا ۔
’’ نہیں باؤ جی، آپ بس یہ بل دیکھ لیں، مہربانی ہو گی‘‘ اس بار سائل کی آواز خفت آمیز تھی۔ مسعود نے اس سے بل لے کر دفتری کارروائی شروع کر دی۔
مسعود قریشی کا روزگار تو سرکاری دفترسے وابستہ تھا لیکن جب بھی اسے فراغت نصیب ہوتی ،اخبارات و جرائد میں لکھنے کی برسوں پرانی علت پوری کرنے میں لگ جاتا۔ اسے امید تھی کہ خورشید بیگم سے میل ملاقات میں کوئی منفرد کہانی یا فیچراس کے ہاتھ آ جائے گا۔ یوں بھی وہ فنکاروں، اداکاروں، صداکاروں اور لکھاریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ سماج میں فنونِ لطیفہ سے منسلک ہنرمندوں کا احترام جس کے یہ حقدار ہیں،قطعی بعید از قیاس ہے، بلکہ یہاں تو انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس امر کی تلافی وہ اپنے طرزِ عمل سے کرنے میں کوشاں رہتا تھا۔ اس سلسلے میں اسے جہاں کہیں موقع ملتا، وہ ہر ممکن حد تک جاتا۔
دن بھر دفتری مصروفیات میں الجھا رہا، شام ہوئی تو خورشید بیگم کا خیال آیا۔ کچھ دیر سوچا، ایک کاغذ پر کچھ نوٹس لیے، بل جیب میں ڈالا اور موٹر سائیکل پر شاہی قلعے کی عقبی گلیوں کی جانب نکل گیا۔
بل پر درج پتے کی تلاش میں وہ دھیمی رفتار سے چلتا گیا، دو تین جگہ رک کر راستہ پوچھا تو جواب میں رہنمائی کے لئے ہمراہ آنے کی پیشکش ہوئی جسے اس نے مسکراتے ہوئے واپس کردیا اور کھوج کا سفر جاری رکھا۔ آخر کار ایک تنگ وتاریک گلی کے دھانے پر رکااوربل پرلکھے نمبر کو دیوار پر آویزاں بجلی کے میٹروں کے نمبروں سے ملایا۔ گلی کے دونوں کونوں پر گتے کے ڈبے بنانے والے قابض تھے، ان سے گھر کا محلِ وقوع سمجھا اور اس بند گلی میں داخل ہو گیا۔ بائیں ہاتھ کے ایک مکان کے باہر پہلوان نما لڑکا کھڑا تھا۔ اس کے گلے میں تین تعویز تھے جن کے عین وسط میں پستول کی گولی لٹک رہی تھی۔
’’ ہاں شہزادے، کیا خدمت کریں؟‘‘ اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور بولا۔
’’ پہلوان جی… مجھے خورشید بیگم سے ملنا ہے‘‘
’’گذر جائیں، یہ انہی کا گھر ہے‘‘ لڑکے نے دروازے سے ایک طرف ہو کر راستہ دیا۔مسعود گھر کے اندر داخل ہو گیا جہاں ایک چھوٹے سے صحن میں دوتین سال کا ننگ دھڑنگ بچہ آئے گئے سے بے خبر کھیلنے میں محو تھا۔
’’آجائیں قریشی صاحب، اندر کمرے میں ہی آجائیں‘‘ گومگو کی کیفیت میں کھڑے مسعود قریشی کو خورشید بیگم کی آواز نے راہ سجھائی۔
’’ یہ آپ کا گھر ہے، اتنا چھوٹا سا؟‘‘ کمرے میں کھڑے مسعود نے حیرت سے گردوپیش کا جائزہ لیا۔
’’ بیٹا بھلا ہو میری بیٹی کے باپ کا، وہ بہشتی ایک جینٹلمین تھا، وہی یہ مکان میرے نام لگا گیا، ورنہ یہ بھی نہ ہوتا‘‘ خورشید بیگم بات کرتے ہوئے چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ جی…. جی میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ مسعودایک موڑھے پر بیٹھ گیا۔
’’ اوئے صغیر….جا اک بوتل پکڑ لا‘‘ خورشید نے پہلوان نما لڑکے کو آواز دی۔
’’ یہ کون ہے؟ اور بوتل کی کیا ضرورت ہے، تکلف نہ کریں‘‘
’’ مجھے یہ نانی کہتا ہے، ویسے ٹائم لگوانے والا ہے میری بیٹی کا‘‘
’’ جی…..؟ آپ کی بیٹی….؟ یہ اس کا بیٹا؟….. اور یہ مکان آپ کی بیٹی کے باپ کا؟….. سمجھا نہیں میں!‘‘
’’ بیٹا ماں وہی کہلاتی ہے ناجو بچوں کو پالتی ہے، ان کا پیٹ بھرتی ہے اور یہ بھی تو میری بیٹی کی کمائی کھاتا ہے نا، تو اس ناطے سے میری بیٹی اس کی ماں ہوئی اور میں اس کی نانی‘‘ خورشید بیگم نے ایک لمبی سانس لی، پان منہ میں رکھا اور پھر سے گویا ہوئی۔ ’’ قریشی باؤ میں تمام عمر اس کوشش میں رہی کہ میرے بچے کسی ڈھاڑی سے نہ ہوں، میری خواہش تھی کہ میرے بچے کسی جینٹلمین سے ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ لڑکے تو ڈھاڑیوں میں سے ہی تھے، اسی لئے ماں کو بڑھاپے میں چھوڑ گئے، ان کے رنگ بھی سانولے تھے اور نین نقش بھی موٹے، البتہ میری بیٹی تو بالکل حور ہے اور لگتی بھی ہے جینٹلمین کی بیٹی۔ اسی جیسی اونچی لمبی، گوری چٹی اور آنکھیں بھی باپ سی نیلی‘‘۔ خورشید بیگم جانے کس رو میں بہہ نکلی، مسعود قریشی حیرت سے اسے تکتا رہا۔
’’ بات ابھی بھی میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘
’’ بہت سیدھے ہو تم بھی قریشی باؤ، قریشی جو ہوئے، یہاں کے ہوتے تو سمجھتے‘‘ خورشید بیگم بات کر کے خود ہی ہنس دی۔اس دوران پہلوان نما لڑکا بوتل مسعود کو تھما گیا۔
’’ یہ جگہ اور اس کے بھید میرے لئے نئے ہیں خورشید بیگم صاحبہ‘‘ مسعود نے بوتل سے ایک گھونٹ بھرا۔
’’ دیکھ باؤ …. روزِ محشرخدا ہر بندے کواس کی ماں کے نام سے پکارے گا اور ہم رنڈیاں تو اسی دنیا میں حشر بِتا جاتی ہیں، ہمارا کیا حساب کتاب ہونا ہے بھلا، بس جزا ہی ہے، اسی لئے ہماری قبروں پر ہمیشہ ماؤں کے نام ہوتے ہیں باپوں کے نہیں‘‘ بات مکمل کر کے خورشید بیگم صحن میں چلی گئی۔ مسعود ابھی اسی مخمصے میں تھا کہ بالائی منزل سے گھنگھروؤں کی چھنک سنائی دی اور ساتھ ہی ایک دو تین چار، ایک دو تین چار کی گنتی کی آواز آئی جو قدرے بلندتر تھی۔ وہ کان لگا کر سننے کی کوشش کررہا تھا کہ خورشید بیگم کمرے میں پلٹ آئی، اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تو وہ اوپر کی سمت اشارہ کرکے بولی ’’ یہ کمرہ ایک ماسٹر صاحب کو کرائے پر دیا ہواہے اور وہ میری کرن کو بھی ناچ سکھاتے ہیں‘‘
’’ کرن…..؟ آپ کی بیٹی کا نام ہے، وہی جینٹلمین کی بیٹی؟
’’ ہاں، اور یہ دیکھو…. اس کا بچہ بھی کسی ڈھاڑی سے ہو گیاہے‘‘ اس بار خورشید بیگم کا اشارہ برآمدے میں کھیلتے ہوئے بچے کی جانب تھا۔
اتنے میں لوہے کی سیڑھیوں سے کسی کے اترنے کی صدا آئی جس کا خاتمہ ایک خوبرو دوشیزہ کے کمرے میں پہنچنے پر ہوا۔ اس کا سارا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا، سانس پھولی ہوئی تھی اور بِنا دوپٹے کے اس عالم میں وہ عام عورت سے زیادہ عورت لگ رہی تھی۔ اس نے مسعود قریشی کو دیکھ کرسوالیہ نگاہوں کا رخ ماں کی جانب کر لیا۔
’’ کرن یہ قریشی باؤ ہے، ہمارے بل کی وجہ سے بیچارہ یہاں دھکے کھا رہا ہے‘‘
’’ قریشی صاحب…. قریشی صاحب…آپ تو عزتوں والے لوگ ہیں، آپ کا یہاں کیا کام؟‘‘ کرن اپنی ماں کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولی۔ قریشی بنا پلک جھپکے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ اس دوران تین چار لڑکیاں کرن کے پیچھے آن کھڑی ہوئیں۔ کچھ دیر مسعود کو ہونقوں کی طرح ساکت دیکھ کر دبی دبی آواز میں ہنستی رہیں اور پھر پیروں سے گھنگھرو اتار کر پنڈلیوں پر تیل کی مالش کے بعد ہنستی ہوئیں واپس اوپر چلی گئیں۔ ان کے پیچھے کرن بھی گھنگھرو چھنکاتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
’’ قریشی بیٹا … چل تجھے ماسٹر صاحب کا سبق دکھاؤں، تو نے کونسا روز روز آنا ہے‘‘ خورشید بیگم نے نیا پان نکالا ۔ مسعود جو اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا، میکانکی انداز میں اس کی پیروی کرنے لگا اور وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر ایک کمرے میں داخل ہو گئے، جہاں ایک پھٹا پرانا اور میلا سا قالین بچھا تھا۔ ایک کونے میں ہارمونیم والا طبلے والے کے سنگ بیٹھا تھا جبکہ دوسرے کونے میں ہاتھوں میں دو ڈنڈیاں تھامے ماسٹر صاحب براجمان تھے۔ ان کے مقابل چھ لڑکیاں دو حصوں میں بٹی کھڑی تھیں، ان کے بیچ کرن اپنی گوری رنگت اور نکلتی قامت کے باعث انگریز معلوم ہوتی تھی۔ ماسٹر صاحب سے اشارہ پاکر مسعود اور خورشید بیگم ایک جانب بیٹھ گئے۔
’’ دینو بابا ….کہروا بجائیں‘‘ ماسٹر کا مخاطب طبلے والا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہارمونیم والے نے بھی ایک گیت چھیڑ دیا اور پھر یکایک تمام لڑکیاں بھی حرکت میں آگئیں اور کمرہ طبلے، ہارمونیم اور گھنگھروؤں کے تال میل سے وجود میں آنے والی موسیقی سے گونجنے لگا۔ اس پر لڑکیوں کے سم پر ایک ساتھ اٹھتے قدم، لہراتے بازو اور لچکتی کمریں کمرے کی فضا کو خوابناک بنا رہی تھیں۔یکبارگی مسعود کو یوں لگنے لگا کہ جیسے وہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں ہے اور اس کے سامنے رقص جاری ہے، لیکن یہ سپنا دیرپا ثابت نہ ہوا اور ماسٹر کی آواز سے چکنا چور ہوگیا۔ ’’پونم جی… اپنا بلاؤز ٹھیک کریں اور دوپٹے کو سلیقے سے لپیٹیں، اسٹیج والے کام اسٹیج پر کیا کریں، یہاں سبق چل رہا ہے‘‘
’’ او کے ماسٹر صاحب‘‘ پونم نے رک کرماسٹر کی ہدایات کے مطابق درستی کی اور پھر دوبارہ سبق کا آغازہوا۔
سبق ختم ہوا تو مسعود نے سب سے اجازت لی اور سیڑھیاں اتر گیا۔ گلی کے باہر ایک بارِ دیگر میٹر کی ریڈنگ لی اور گھر کی جانب چل دیا۔
اگلے دن مسعود نے بل درست کروا کر جیب میں ڈالا اور خورشید بیگم کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ سارے رستے سوچتا رہا کہ آج وہاں بیٹھنے سے گریز کرے گا، کوئی فیچر یا کہانی ملے نہ ملے ،بس بل پکڑاکر نکل آئے گا۔ گھر کے باہر اسے پھر وہی پہلوان نما لڑکا ملا۔ بلانے پر خورشید بیگم باہر آئی تو اس نے چار سو روپے کا بل اسے دے دیا۔ بل دیکھ کر اس نے مسعود کا ماتھا چوم لیا۔ وہ لوٹنے لگا تو خورشید بیگم نے بصد اصرار اسے روکنے کی سعی کی لیکن وہ رضامند نہ ہوا۔ اصرار کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ کرن دوپٹہ سیدھا کرتی دروازے پر آ گئی ’’ قریشی باؤ … آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ہمارے لئے اتنا کچھ کیا‘‘
’’ نہیں جی، مہربانی کیسی، آپ کا بل ہی غلط تھا اور ویسے بھی میرے نزدیک فنکار بہت قابلِ قدر ہوتے ہیں‘‘ مسعود نے خورشید بیگم کی جانب دیکھتے ہوئے جملہ مکمل کیا۔
’’ جناب ہے تو یہ مہربانی ہی، ویسے مجھے یہ لگتا ہے کہ شائد آپ نے میری کل والی بات کا برا منایا ہے‘‘
’’ ارے نہیں، اسے چھوڑیں آپ، ایسی کوئی بات نہیں‘‘
’’ لیکن میں کیسے مانوں؟ … ہاں اگر آپ کل آجائیں تو بھی مجھے یقین آ جائے گا، کل کچھ فلم والوں نے آنا ہے ، میرا ڈانس ہو گا‘‘
’’ہونہہ … اچھا، وقت ملا تو ضرور….‘‘مسعود نے ایک نظر کرن کودیکھا اور گلی سے باہر چلا گیا۔
باہر آکر وہ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی بجائے اسے لے کر پیدل ہی چلنے لگا۔ راستے میں اسے پان سگریٹ کی اورجوتوں کے ڈبے بنانے والوں کی دوکانیں دکھائی دیں، جگہ جگہ نشئی اور دلال نظر آئے۔ اسے خیال آیا کہ آج سے پچاس برس پہلے یہاں بڑے بڑے جاگیرداروں کے علاوہ موسیقاروں سمیت فلمی صنعت کے مختلف شعبوں سے منسلک شخصیات کی تسلسل سے آوا جاوی تھی، جو اس ہیرا منڈی میں نت نئے ہیروں کی تلاش میں آتے تھے ۔ اب یہاں منڈی قائم ہو چکی ہے اور وہ بھی جوتوں کی۔ لیکن کیسی بات ہے کہ یہاں عورت کی قیمت جوتی سے بھی آدھی تھی۔ من ہی من میں اس نے پختہ ارادہ کیا کہ آئندہ یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ اگلے دن اس کے موبائل پر کرن کے بہت سے فون آئے لیکن وہ ہیرا منڈی نہ جانے کے فیصلے پر قائم رہا۔ یونہی ایک ماہ گذر گیا تو ایک دن خورشید بیگم خود اس کے دفتر آگئی اور گھر آنے پر اصرار کیا۔
اس شام نجانے کیوں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خورشیدبیگم کی طرف چلا گیا۔ اس بار صغیر اسے سیدھا ماسٹر صاحب کے کمرے میں لے گیا جہاں ایک نئی لڑکی کو شاگرد کیے جانے کی رسم جاری تھی۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ماسٹر نے لڑکی کی کلائی پر دھاگہ باندھا، ہارمونیم والے کو کت کارکا کہااور طبلے والے کو تین تال سے آغاز کرنے کا اشارہ کیا۔ خود اس کے اپنے لبوں پر بول تھے جو ہاتھوں میں پکڑی ڈانڈیا کی آواز سے ہم آہنگ تھے۔
نادِھن دِھن نا
نادِھن دِھن نا
نا تِن تِن نا
نادِھن دِھن نا
لڑکی نے ناچنا شروع ہی کیا تھا کہ ماسٹر نے اسے روک دیا اور ایڑھیوں کی چال بتائی۔ اس دفعہ وہ ایک دو تین چار، ایک دوتین چارکی گنتی دہرا رہا تھا۔ طبلے والا تین تال بجاتا گیا، یہاں تک کہ ماسٹر نے کت کار کا پہلا سبق مکمل کیا اور وہاں موجود آٹھ لڑکیوں کو چار چارکے دستوں میں تقسیم کر دیا، ہارمونیم والے کی جانب دیکھ کر بولا ’’ چلو بھئی، کہروے کی چال شروع کرو‘‘
ماسٹر کی گنتی سے ہم آہنگ ڈانڈیا اور اس پر لڑکیوں کا رقص جاری تھا۔ مسعود کو یوں لگنے لگا کہ جیسے لڑکیاں ہواؤں کے مانندہیں اور ان کے گھنگھرو بادلوں کی طرح۔ دھیمی تال پر سمندر کی ٹھہری ہوئی لہریں بن جائیں توتیز تال پر بگولے سی اڑتی جائیں۔ گیت ختم ہوا تو ماسٹر نے نئی لڑکی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’ رانی یہ کہروے کی چال تھی، چار ماترے کی، اس کے بول یاد رکھنا، دھنک تاتا، تک تاتا، دھنک تا تا، تک تاتا، اور اس کے سنگ طبلے کے بول ہوں گے، دھاگے ناتی، ناتے دِھن نا ۔‘‘ جواب میں رانی نے اثبات میں سرکو جنبش دی۔
اس کے ساتھ بیٹھی ایک بڑھیا نے طبلے والے کو اشارہ کیا، طبلے والے نے ماسٹر سے رضامندی چاہی، ماسٹر ہارمونیم والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک گیت گنگنانے لگا۔
سجنا، بیلیا بھاگ میرے جاگ گئے نیں
میں جاگ پئی آں
میں اوہو ای آں جیہڑی
تیرے ناں لگ گئی آں
لڑکیاں پھر ناچنے لگیں۔ مسعود کو محسوس ہوا کہ جیسے کرن یہ گیت اس کے لئے گا رہی ہے۔ گیت کا آخری حصہ بڑھیا نے گایا ۔ گیت ختم ہوا تو مسعودنے سب سے اجازت طلب کی اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔
اس کے کئی دنوں بعد تک اس پر عجیب کیفیت طاری رہی۔ فون پر کرن سے بات ہوتی رہی لیکن اس کے بار بار مدعو کرنے کے باوجود وہ اس کے گھر نہ گیا۔ پھر ایک دن اس نے اسے خورشید بیگم کی بیماری کا بتایا اور آنے کی درخواست کی جسے وہ رد نہ کر سکا اور ہیرا منڈی جا پہنچا۔
کرن اسے دروازے پر ملی اوربتایا کہ خورشید بیگم اپنے بڑے بیٹے سے ملنے اس کے گھر گئی ہے۔ وہ واپس لوٹنے لگا تو کرن نے رکنے پر اصرار کیا، مسعود نے اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ وہ اسے لے کرکمرے میں آگئی۔
’’ آپ کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘
’’ وہ ماں کے ساتھ گیاہے‘‘ کرن نے اپنی زلفیں سلجھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ آپ کے بھائی خاصے خوشحال ہیں، آپ لوگ پھر بھی….‘‘ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورہ چھوڑا اور صحن کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ پہلی بات تو یہ کہ وہ میرے بھائی نہیں ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر وہ بھائی ہوں بھی توان کی خوشحالی سے مجھے کیا مطلب؟‘‘ یہ سن کر مسعود خاموش ہو گیا اور کرن چائے بنانے لگی ۔
’’ آپ کے اپنی بیوی سے مراسم کچھ اچھے نہیں لگتے‘‘
’’ایسی تو کوئی بات نہیں، بس اسے مذہبی لوگ ذرا زیادہ بھاتے ہیں‘‘
’’ مولویوں جیسے….؟‘‘ کرن کھلکھلائی۔
’’ شائد…. لیکن میں نہ تو مولوی ہوں اور نہ ہی مذہبی‘‘
’’ کیا یہ دو مختلف چیزیں ہیں….؟‘‘ کرن نے چائے میز پر رکھی اور حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ فرق تو ہے، مذہب کے ہر ماننے والے نے اسے اپنی پسند کی شکل دے رکھی ہے‘‘
’’ صحیح…. تو پھر آپ یہاں ہیرا منڈی میں….. کیوں؟‘‘
’’ ارے…. اس بات کا اس بات سے کیا تعلق؟ …… اچھے میاں بیوی ہم شائد ساری عمر نہ بن سکیں مگر کوشش ہے کہ اچھے ماں باپ ضرور بن جائیں بچوں کے لئے، اور جہاں تک یہاں آنے کا تعلق ہے تو اس کا مقصدفیچر یا کہانی کی تلاش ہے، اور کچھ نہیں‘‘ مسعود گہری سوچ میں گم ٹھہر ٹھہر کے بول رہا تھا، اس کی آواز اتھاہ گہرائیوں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ قریشی صاحب آپ کا لکھا کہیں چھپتا بھی ہے یا بس ایسے ہی لگے رہتے ہیں‘‘ کرن کے لہجے میں بے تکلفی جھلک رہی تھی۔
’’ فیچر لکھوں تو ضرور چھپتا ہے، البتہ کہانی کبھی کبھار ہی چھپتی ہے‘‘
’’ وہ کیوں….؟ آپ الٹی سیدھی باتیں لکھتے ہوں گے‘‘ اس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی.۔
’’ نہیں… شائد میں اپنی پسند سے لکھتا ہوں، یا پھر چھاپنے والوں کے پاس مجھ سے بہتر افسانہ نگار موجود ہیں‘‘
’’ ہونہہ… چلیں چھوڑیں، میں ذرا کپڑے تبدیل کر کے آتی ہوں‘‘ کرن کھونٹی سے کپڑے اتار کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
یونہی کچھ وقت گذر گیا۔ وہ واپسی کا ارادہ کیے ہوئے، اجازت لینے کے لئے کرن کا منتظرتھاکہ اس کی آواز سنائی دی۔ ’’ قریشی صاحب…. ذرا اندر آئیں‘‘
آواز کے تعاقب میں وہ نسبتاََ تاریک کمرے میں داخل ہوگیا جہاں کرن اسے آئینے کی طرف چہرہ کیے کھڑی سجھائی دی۔
’’ قریشی صاحب…. یہ ذرا بکل لگا دیں پیچھے سے‘‘
اتنی دیر میں اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوچکی تھیں۔ اسے چست شلوار میں ملبوس کرن کی برہنہ کمر دکھائی دی تو اس کاوجود اوپر سے نیچے تک دہل گیا۔ کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ بکل لگاتے ہوئے یکلخت اس پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا اور اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ کرن کی دودھیارنگ کمر پر موجود کچھ مندمل اور چند تازہ زخموں اور دانتوں کے نشانات نے اسے ہلا کر رکھ دیاتھا۔ وہ جیسے لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا اور اپنی تمام تر قوت مجتمع کرکے فقط اتنا ہی کہہ پایا۔ ’’یہ زخم….. یہ نشان…..کیسے؟‘‘
’’قریشی صاحب…. یہ صرف کمر اور پیٹھ پر نہیں، چھاتیاں بھی ان سے بھری پڑی ہیں‘‘ یہ کہہ کراس نے چہرہ مسعود کی طرف کر لیا لیکن وہ تاب نہ لا پایا اور اس وقت تک نگاہیں جھکائے رہا جب تک کہ اس نے قمیض نہ پہن لی۔
’’ میں نے کچھ پوچھا تھا‘‘ مزید کھڑا رہنے کی سکت نہ رہی تو وہ وہیں ایک کرسی میں ڈھیر ہو گیا۔
’’ قریشی صاحب … یہ زخم جسم پر ہی نہیں، روح پر بھی ہیں، اور باقی رہے دانتوں کے نشان …. تو جناب ہم یہاں آنے والوں کی وہ خدمت کرتی ہیں جو انھیں گھر سے نہیں ملتی‘‘
’’ یہ خدمت ہے؟ نہیں… یہ تو ظلم ہے، پیسے دینے کا یہ مطلب تو نہیں….‘‘
’’ مطلب ہے… ایک… افسانہ نگار صاحب…. مطلب ہے‘‘ کرن نے قدرے بلند آواز میں کہا، اس کے لہجے میں تلخی در آئی تھی مگر اس نے بات جاری رکھی۔
’’ قریشی صاحب … کرائے کا جسم وہ کھیتی ہے جسے جس جوہڑسے چاہو تر کر لو، جہاں چاہو ، جیسے چاہو ہل چلاؤ، اور اگر کبھی فصل اگ آئے تو یہ کہہ کر انکاری ہو جاؤ کہ پتہ نہیں کس کا بیج ہے‘‘ اس کے لہجے کی تلخی رندھیا چکی تھی۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسعود کے گلے لگ گئی جو اس صورتِ حال کے لئے قطعاََ تیار نہیں تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، اس نے نرمی سے کرن کو پیچھے دھکیلا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ کرن… پھر کبھی بات کریں گے، میں تو بس اس لئے آیا تھا….. خیر … چھوڑو…‘‘ مسعودبات ادھوری چھوڑ کر نکل گیا۔
اس دن کے بعد کرن نے اسے بہت سے فون کیے، بار بار بلایا لیکن وہ دوبارہ جانے کا حوصلہ نہ کر پایا، یہاں تک کہ ایک شام کرن نے اسے فون کر کے بڑی بڑی قسمیں دیں اور کہا ’’ صرف ایک بار آجاؤ، اس کے بعد کبھی نہیں بلاؤں گی‘‘
اگلی شام وہ ایک بار پھر ہیرا منڈی چلا گیا۔گھر میں کرن کے علاوہ کوئی نہیں تھا، لیکن اس دن گھر کی حالت یکسر بدلی ہوئی تھی۔کمروں کے فرش دھلے ہوئے تھے اور پردے اوربستروں کی چادریں تبدیل کی گئیں تھیں، سب کچھ اجلا اجلا دکھائی دے رہا تھا۔ اس دن کرن کا روپ بھی سوا تھا، باریک جالی دار سیاہ لباس میں سے چھلکتا گورا بدن اور چہرے پر آتا جاتا گلابی رنگ سحر طاری کر رہا تھا۔ وہ ابھی اس سحر سے نہ نکلا تھا کہ کرن نے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ وہ اسے لے کر بستر پر بیٹھ گئی اور بنا کچھ کہے مسعودکی ٹانگیں دبانے لگی۔ مسعود کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جوان تھا اور فنکاروں کی قدر کرنے والا تھا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی فنکار سے اس طرح خدمت کروائے گااورنہ ہی اسے عورتوں سے جسمانی تعلق کی ہوس تھی۔ ادھر کرن کی گرم گرم سانسیں اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اسے ایک سیلاب کی طرح گھیرے ہوئے تھیں اور کہیں دور بہا لے جانے پر مصر تھیں۔
’’ قریشی صاحب… بس آج کی شام آپ کی خدمت کروں گی، اسے پچھلے چنددنوں کا حق سمجھ لیجئے گا‘‘
مسعود جو اپنی سدھ بدھ گنوائے بیٹھا تھا ایک دم سے اٹھا اور بنا کچھ کہے سنے کنڈی کھول کر باہر نکل گیا۔ کرن بستر پر لیٹی رہ گئی۔ جانے کتنا وقت ایسے ہی بیت گیا۔
خورشید بیگم نے آ کر اسے جھنجھوڑا ’’میری بیٹی کی مراد پوری ہوگئی؟‘‘
کرن سکتے میں اٹھی اور ماں کے گلے لگ گئی، چند لمحوں کے گہرے سکوت کے بعددبی دبی سسکیوں کی صدا آنے لگی جو بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ خورشید بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ٹھوڑھی سے پکڑ کراس کا چہرہ اوپر اٹھایا۔ گالوں پررواں آنسوؤں کو صاف کیا تو کرن کے منہ سے ہوک سی نکلی اور ساتھ ہی ایک آواز برآمد ہوئی جو کسی گہری کھائی یا کنویں سے ابھرنے والی صدا سے مشابہہ تھی ’’ ماں…. میرے لئے تو تجھے ایک جنٹلمین مل گیا تھا لیکن اس تپتے صحرا میں میرے نصیب کا کوئی نخلستان نہیں….‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

پنجابی سے اردو ترجمہ زاہد نبی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply