بھارت کی “آزاد صحافت”۔۔۔۔۔آفاق فاروقی

میرا ایمان ہے دیانتدار پروفیشنل میڈیا معاشرے میں پیغمبرانہ کردار کے لئیے پیدا کیا گیا تھا کہ جب معاشرے کے طاقتور طبقے عام کمزور لوگوں پر ظلم کرنے لگیں یا ریاستیں اپنی طاقت کے زور پر کمزور ریاستوں کو تابع بنانے کی کوشش کریں تو میڈیا اپنے عوام کو حکمرانوں کی ظالمانہ سوچ سے آگاہ کرکے انھیں انکے ارادوں میں کامیاب ہونے سے روکیں ، جمہوری نظام کے متعارف ہونے کے ساتھ ہی میڈیا کا کردار اور دائرہ کار  مزید بڑھا اور اسکے ذمہ یہ بھی آیا کہ وہ معاشرے کے ہر ہر شعبے میں چیک اینڈ بیلنس قائم کرنے کے لئے احتساب کے عمل کو تیز اور سرگرم رکھنے کے لئیے بھی آگاہی پیدا کرتا رہے، حکومت اپوزیشن کے درمیان فطری چپقلش میں بھی درست اور غلط کو پیش کرنے کے ساتھ اگر کسی موقع پر دونوں ایوان اپنے کسی خاص مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے عوامی مفاد کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں تو عوام کو اس گٹھ جوڑ سے آگاہ کرکے حکمرانوں کو ایسا کرنے سے روکنے کے لئیے اپنی طاقت استعمال کرے جو بلاشبہ عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ، مگر بدقسمتی دیکھئے دنیا بھر کی حکومتی اسٹیبلشمنٹ نے کہیں زیادہ تو کہیں کم میڈیا کو اپنے تابع بنا لیا ہے اور میڈیا کا اصل مقصد کہیں دور ہوکر اب مارکیٹنگ ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ، بالخصوص نئی نئی جمہورتوں اور بادشاہت کے تابع ریاستوں کے ساتھ سوشلزم اور کمیونزم نظام زیر اہتمام چلنے والے ملکوں مثلا ً چین اور جنوبی کوریا میں تو میڈیا کہ حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہندوستان اور پاکستان جیسی نوزائیدہ جمہورتوں میں بھی میڈیا کی حالت اچھی نہیں ، پاکستان کے پس منظر میں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے وہاں جمہوریت کی تاریخ کوئی  زیادہ پرانی بھی نہیں اور موجودہ جمہوریت پر بھی فوجی چھاپ موجود ہے اور یہ ملک گزشتہ چالیس سالوں سے خطے میں لڑی جانے والی جنگوں اوردہشت گردی انتہا پسندی کا بھی نشانہ رہا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کے صحافیوں کا کردار ان مساعد حالات میں بھی دلیرانہ اور خاصا بیباک رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی صحافیوں نے جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے مگر بھارت جہاں جمہوریت اور ملک کی آزادی کی عمر ایک ہے ، میڈیا کا مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے تابع اور غیر جمہوری رویہ رکھنے کے ساتھ سچائیوں اور حقائق کے برخلاف ریاستی نظریے کا پرپیگنڈہ کرنا جہاں باعث حیرت ہے وہیں انتہائی  شرم ناک بھی ہے ، میں ذاتی طور پر اسکی بزدلی بے شرمی اور ریاستی غلامی کے ایک واقعہ کا گواہ ہوں اور اس واقعے نے مجھے پہلی بار یہ فخر دیا کہ میں ایک امریکی  ہی نہیں پاکستانی آزاد صحافی ہوں ۔
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پاکستان میں مشرف برسراقتدار تھے اور بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی اور من موہن سنگھ وزیر اعظم ، بھارت میں کوئ بھی جمہوری حکومت رہی ہو مسئلہ کشمیر پر انکی حکومتیں بھی پاکستانی جمہوری حکومتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے نظرے کی غلام رہی ہیں ، مشرف اور من موہن کی نیویارک کے ورلڈ آف آسٹوریا ہوٹل میں جہاں من موہن سنگھ قیام پزیر تھے دونوں سربراہ مملکت کی رات ساڑھے نو بجے ملاقات طے تھی ، ملاقات کا سارا انتظام اقوام متحدہ میں بھارتی مشن کے ہاتھوں میں تھا ، صحافیوں کو دونوں کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ اور پریس بریفنگ میں شرکت کی اجازت اور دعوت بھارتی مشن کے ہاتھ میں تھی ، جہاں سے پہلا حکم یہ ملا کہ جو صحافی ٹھیک رات ساڑھے آٹھ بجے بھارتی میڈیا سینٹر میں داخل ہوگا بس اسے ہی بریفنگ میں شرکت نصیب ہوگی اور بریفنگ ختم ہونے تک کوئ میڈیا سینٹر سے باہر نہیں جاسکے گا ، ہم بہت سے پاکستانی صحافی جن میں اکثریت مشرف کے ساتھ پاکستان سے آئے صحافیوں کی تھی جو مشرف کا دورہ اقوام متحدہ کور کرنے آئے تھے بھارتی مشن کے دئیے ہوئے وقت کے مطابق ورلڈ آف آسٹوریا کے میڈیا سینٹر پہنچ گئے ، مجھے یاد ہے نامور ٹیلی ویژن اینکر جو آجکل دی نیوز لاہور کے ایڈیٹر ہیں عامر غوری ان دنوں اے آر وائ میں لندن سے پروگرام کیا کرتے تھے ، وہ بھی آئے ہوئے تھے ، ہم دونوں کی پرانی ہائے ہیلو بھی ہے اور ہمارے درمیان ایک قدر یہ مشترک ہے کہ دونوں ہی سگریٹ خاصی مقدار میں جلاتے سلگاتے ہیں ، اور زیادہ دیر بنا سگریٹ کے رہنا خاصا دشوار ہوجاتا ہے ، من موہن اور مشرف کی ملاقات کا دیا ہوا وقت جب گزر ہی نہیں گیا بلکہ اپنی ساری حدود پار کرگیا اور رات کے قریبا گیارہ بج گئے توسگریٹ کی طلب کے ساتھ بوریت اور یہ جاننے سمجھنے کے باعث کہ ان دونوں ملکوں کے سربراہوں کے درمیان ملاقاتیں بس میڈیا مہم کے سوا کچھ نہیں ہوتیں یہ انتظار سوا سے سوا تر ہوتا چلا گیا، اور پھر عامر غوری اور میں نے اس قید خانے سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ان دنوں اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن میں شائد پریس منسٹر سابق وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور میرے بڑے بھائیوں جیسے دوست سہیل منصور تھے یا موجودہ وفاقی سیکرٹری شفقت جلیل جو ایک انتہائی  ملنسار انسان ہیں کہ جنھیں یہاں سے گئے قریبا ً بارہ تیرہ برس ہوگئے مگر آج بھی کسی نہ کسی بہانے یاد کرلیتے ہیں کہ بلاشبہ اچھے انسانوں کی ایک اپنی ہی خُو ہوتی ہے ، بہرحال ہم نے اپنے پریس منسٹر سے کہا “ بھائی  صاحب بس باہر جانا ہے “ وہ شائد بھارتیوں کی بدمزاجی سے واقف تھے اور ہمیں یہ سمجھانا بھی چاہتے تھے کہ پاکستانی افسر شاہی کا پروپگینڈہ کرنے والے آج بھارتی افسر شاہی کا بھی تجربہ کر ہی لیں ، انہوں نے ہمیں ٹکہ سا جواب دیتے ہوئے کہا “ یہاں میں بھی آپ ہی کی طرح مہمان ہوں میزبان سے پوچھیں “ انکے جواب پر ہم نے بھارت کے ایک اخبار دی ھندو کے بھارت سے آئے ایک صحافی جن سے اس بوریت کے گزرے تین گھنٹوں میں اچھی خاصی گپ شپ ہوگئی تھی ، ان سے درخواست کی وہ اپنے پریس منسٹر سے بات کریں کہ وہ ہمیں سگریٹ نوشی کے لئیے باہر جانے کی اجازت ، پہلے تو وہ ہماری درخوست سن کر کسمسائےجس کی وجہ ہماری سمجھ میں بلکل بھی نہیں آئی  ، دی ہندو کی بھارت میں وہی حیثیت ہے پاکستان میں ڈان یا جنگ کی اور ہم نے اپنے پریس منسٹروں کو ہی نہیں سفیروں اور وزرائے اطلاعات کو بھی ان اخباروں کے نمائندوں کے سامنے سر زانوں دیکھا ہے ، اتنے بڑے اخبار کے سنئیرصحافی کا اتنی چھوٹی سی بات پر کسمسانا ہمارے لئیے خاصی اچھنبے کی بات تھی، مگر ہم نے جب ان سے اصرار کیا تو وہ” مرتا کیا نہ کرتا “کے مصداق بڑے ڈھیلے انداز میں اٹھے، اور بڑے ادب سے اپنے پریس منسٹر سے مخاطب ہوئے، ابھی انہوں نے اپنی بات شرع ہی کی تھی کہ بھارتی پریس منسٹر ، جس کا قد سوا پانچ فٹ ،وزن سوا سو پونڈ رہا ہوگا ، انتہائی  منحنی کالا سیاہ ،انتہائی  چھوٹی چھوٹی چُندی آنکھیں ،مگر ان میں چمک بلا کی تھی ،فرعونی انداز میں غصے سے اٹھا ،اور بھارتی صحافی سے چلاتے ہوئے بولا “ چپ چاپ خاموشی سے جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں ،اور بھارتی صحافی بھیگی بلی کی طرح شرمندہ شرمندہ ہماری جانب بنا دیکھے اپنی کرسی پر جاکر بیٹھ گئے اور ہم حیرت اور صدمے سے جیسے سکتے میں ہی آگئے ، آور اس موقع پر ہمارے پریس منسٹر ہماری جانب انتہائی  طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے کہ رہے ہوں “ یہ ہوتی ہے “جمہوری افسر شاہی “اور یہ اوقات ہے آزادی صحافت کی “ اور ہمارے ذہن میں یہیں روزویلٹ ہوٹل میں قائم اپنے پاکستانی میڈیا سینٹر کی آزادیاں گھوم گئیں، جہاں ہم ہوٹل کی جانب سے سگریٹ نوشی پر پابندی اور اپنے پریس منسٹر اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی خوشامد کہ “خدا کے لئیے سگریٹ نوشی مت کریں، ہوٹل والے میڈیا سینٹر بند کردیں گے “ مگر ہم بہت سے صحافی انکی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کش پر کش لگاتے رہتے کہ ہمیں یقین تھا ہمارے اس جرم کو تحفظ دینے کے لئیے حکومت پاکستان ہماری پشت پر موجود ہے ، بھارتی صحافی کے ساتھ اسکے پریس منسٹر نے جو کیا وہ ہمارے لئیے خاصا بڑا دھچکہ تھا اور سبق بھی کہ پاکستان میں ابھی صحافت بہت سی مصیبتوں اور پابندیوں کے باوجود آزاد ہے ، مجھے یہ کہتے ذرا عار نہیں مسئلہ کشمیر ہو دہشت گردی کی جنگ یا انتہا پسندی کا معاملہ یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ریاستی حبالوطنی کے نظریات ، پاکستانی میڈیا نے جو لکھا اور دکھایا ہے بھارتی میڈیا تصور بھی نہیں کرسکتا ،بالخصوص پاکستان بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے پسمنظر میں بھارتی میڈیا نے اپنی اسٹیبلشمنٹ کی جسطرح غلامی کی ہے پاکستانی میڈیا کا ایک ایک کارکن صحافی کٹ سکتا ہے مگر ایسی غلامی پر تیار نہیں ہوگا ، بھارتی میڈیا باخصوص ٹیلی ویژن نے پاکستان میں دھشت گردی انتہا پسندی کے دوران میڈیا کی بہت سی قربانیوں کو بھی نظر انداز کیا اور مودی کے دور میں ھندو انتہا پسندی کو پروان چڑھانے میں بڑی مدد فراہم کی جسکے نتیجے میں بھارتی مسلمانوں سمیت ہر اقلیت کو ھندو انتہا پسندی کے بدترین مظالم کا سامنا ہے اور یہ بھارتی میڈیا ہی ہے جس کی پاکستان متعصابانہ پالیسوں کے باعث پاکستانی میڈیا کو بھی مجبوراً اپنی اسٹیبلشمنٹ کی جھوٹی سچی پالیسوں کے ساتھ ہی کھڑے ہونا پڑتا ہے ، بھارت کی ستر سالہ نام نہاد جمہوریت نے میڈیا بھی اپنی سوچ کے مطابق پیدا کیا ہے جو پلوامہ واقعہ پر یہ سوال کرنے سے معذور ہے کہ اگر خودکش حملہ اور نوجوان کشمیری ،پاکستان کی جیش محمد کے ایما پر بھارتی فوجیوں پر جا پھٹا تو اسکے پاس تین سو پچاس کلو باردود سرحد پار سے کیسے پہنچا۔۔؟ کیا بھارتی سیکورٹی ادارے بھنگ پی کر سو رہے گے ۔۔۔؟ اور اگر جیش محمد مقبوضہ وادی میں اپنی جڑیں قائم کرچکی ہے تو بھی پاکستان سے پہلے جواب دہی اپنی فورسز اور ایجنسیوں سے کی جانی چاہیے تھی اور پھر یہ کیسا میڈیا ہے جسے کمشیر میں اپنی فوج اورحکومت کے مظالم نذر نہیں آرہے۔۔۔ ؟ یہ کیسا میڈیا ہے جو مقبوضہ وادی میں فروغ پاتی آزادی کی لہر کو نہیں دیکھ پارہا، یہ کیسا میڈیا ہے جو جنگی جنون کے انجام سے بے خبر مرنے مارنے آگ لگانے پر مامور ہے ،جو اپنی ریاست پر دباؤ ڈال رہاہے کہ بس انجام کی پرواہ کئیے بغیر پاکستان پر ٹوٹ پڑو، یہ کیسا میڈیا ہے جو اپنی عوام کو جنگ کے نام پر انتہا پسندی دہشت گردی کی تربیت دے رہا ہے۔۔؟ یہ زیر نظر ویڈیو دیکھئے اور سوچیئے بھارتی میڈیاآج کے دور کا مہذب میڈیا کہلانے کا بھی مستحق ہے ۔۔۔؟ زیر نظر ویڈیو میں سعودی وزیر خارجہ کا انٹرویو کرنے والے صحافی بھارت کے ایک نامور صحافی ہیں ،مگر میرے نزدیک انھیں صحافی کہنا بھی صحافت کی توہین ہے کہ وہ میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دلال کے فرائض سر انجام دیتے نظر آرہے ہیں ، ایسے متشدد متعصب میڈیا کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر تو رہا ایک طرف مجھے تو پورے برصغیر میں انتہاپسندی دھشتگردی کی وہ لہر اٹھتی نظر آرہی ہے کہ الاماں الحفیظ

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :یہ کالم ان کی فیس بک وال سے لیا گیا ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply