برین ڈرین۔۔۔روبینہ فیصل

باہر برف کی ٹھنڈک پاؤں کے تلووں ، کانوں کی لووں ، اور ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں کو منجمند کر رہی تھی ۔۔ جو بھی عضوگرم کپڑوں سے بچ کر اس کی پہنچ میں آتا ہے اسے سرد کر رہی تھی ۔ اس سال برف کچھ عجیب انتقامی انداز سے برس رہی ہے جیسے کہ اب کے مزہ چکھا کے ہی دم لے گی ۔ جب سے میں کینیڈا آئی ہوں تب سے بچوں کو اتنی دفعہ سنو ڈے کی چھٹی ہو ، ایسا پہلی بار ہی ہو ا ہے ۔ ہر دوسرے دن سنو سٹورم اور میسی موسم کی پیشن گوئی کانوں میں آگ لگارہی ہے ۔ایسے میں یو آئی ٹی کا فنکشن اٹینڈ کرنے کا موقع  ملا ۔۔ یوای ٹی ایلمونائیزکا فنکشن اٹینڈ کرنے کا یہ میرا دوسرا یا تیسر ا اتفاق تھا مگر اس سے پہلے کبھی اتنا رش دیکھنے کو نہیں ملا تھا ۔ مسسز ساگا کا ایک بینکوئٹ ہال کچھا کچھ بھرا ہوا تھا ۔میں نے سوچا یا تو کھانابہت اچھا ہوگا اور یا پھر کوئی معروف شخصیت یا کوئی بہت نامور گلوکار ،گلوکارہ کی پرفامنس ہو گی جو ایک مجمعہ لگا پڑا ہے مگر یہ میری خام خیالی تھی، ایسا کچھ بھی نہیں تھا ، کھانا بھی عام سا تھا اور شخصیتیں بھی وہی جو ہر پاکستانی فنکشن کی زینت ہو تی ہیں ، دو پاکستانی خواتین ایم پیز، ایک پاکستانی قونصل جنرل اور ایک عدد پاکستانی منتخب کونسلر ۔۔۔
تو گویا یو ای ٹی کے فنکشن میں اتنا رش یو اے ٹی کی وجہ سے ہی تھا ۔ لاہور کی وہ انجئیئرنگ یو نیورسٹی جسے یہ سب لاہور میں ہی چھوڑ آئے تھے مگر حقیقت میں ساتھ ساتھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔ منتظمین میں شامل مظہر شفیق نے مجھے بتایا کہ تھوڑے سے لوگوں نے مل کر اسے کچھ سال پہلے شروع کیا تھا کہ سب پرانے ساتھی مل بیٹھ کر یادیں تازہ کریں گے اور دیکھیں اب کتنے زیادہ ایلومینائی شامل ہو گئے ہیں ۔پانچ میزیں مذید لگوانی پڑیں ۔۔بقول ابرار احمد :
گھر کے ایک ٹھکانے کے لئے
گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا
مظہر بھائی جو یو ای ٹی کے ہی ہیں اور اس آرگنائزیشن کو سٹارٹ کرنے والوں میں سے ایک نام ان کا بھی ہے ، ان کے اصرار پر وہاں چلی تو آئی مگر اتنا رش دیکھ کر بھاگنے کے لئے پر تولنے لگی کہ اچانک ہماری میز پر بیٹھے ایک انجنیئر جوڑے( میاں بیوی دونوں ہی یو ای ٹی کے پڑھے ہو ئے تھے ) میں سے شوہر صاحب کے ایک جملے نے میرے پاوں جھکڑ لئے ۔۔ وہ بڑی معصومیت سے ہمیں بتا رہے تھے کہ میں تو یہاں صرف پرانے چہرے دیکھنے آتا ہوں ۔۔ اور حساب لگاتا رہتا ہوں کون کتنا بدل گیا ہے ۔۔ اس ایک سادہ سی بات نے مجھے اس کرب کا احساس دلایا جو پرانے ساتھیوں سے ملنے کی خوشی میں پنہاں ہوتا ہے ۔۔اور اس احساس نے میرے اندر ایک اداسی بھر دی ۔
درد ہجرت کے ستائے ہو ئے لوگوں کو کہیں
سایہ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
(بخش لائلپوری )
ہم سب اپنے اپنے ہاتھوں میں اپنا اپنا وقت تھامے ایک دوسرے کے چہرے کی جھریوں میں اپنے زمانہ طالبعلمی کے ان سنہرے دنوں میں جا پہنچتے ہیں جہاں ہم نہ صرف خود اپنے تھے ، بلکہ وہ زمین بھی ہماری اپنی تھی ۔۔۔سب کچھ تو اپنا تھا ۔۔ سڑکوں پر اڑتی مٹی ، گندا ، مٹیالا پانی ، شوخی سے بھری خود اعتمادی ،ہمارے گندے مندے میلے کچیلے لوگ اور آگ برساتی دھوپ ۔۔۔بس وہی ڈھونڈنے ایسے کسی مقام پر جا پہنچتے ہیں ۔جیسے کہ عارف امام نے کہا تھا :
تلاش رزق کا یہ مر حلہ عجب ہے کہ ہم
گھروں سے دور بھی گھر کے لئے بسے ہو ئے ہیں
ساڑھے پانچ سو سے زیادہ پاکستانی انجئینرز اور ان کی فیملیز ، کینیڈا کی اس سرد رات کو اس ہال میں فقط ایک دوسرے کو ملنے کے لئے اکھٹے ہو ئے تھے ۔ کس کے چہرے پر کتنے زمانے بیت گئے ۔۔ کون پہلے کیسا ہوتا تھا ، اب کیسا ہو گیا ۔۔ اتنی سی بات کی کھوج میں ، باہر ہونے والے برف کے طوفان نے بھی کسی کووہاں تک پہنچنے سے نہیں روکا ۔۔۔۔ کینیڈا کی ٹھنڈ کوشکست دئیے سب انجئینرنگ یو نیورسٹی کی فضا کی گرمی کو وہاں کھینچ لائے ۔۔ اس کا والہانہ اظہار میوزک کے پروگرام کے ساتھ اور تقویت پکڑ گیا۔ پروفیشنل گلوکار تو بدر تنویر تھے، جنہوں نے حمد سے آغاز کیا ، اور بعد میں مائیک فواد احمد، معروف سنگر جواد احمد کے بھائی کو دے دیا گیا کہ وہ بھی اسی یو نیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے ، انہوں نے گانا شروع کیا تو سماں بندھ گیا ۔مجھے ان کی آواز جواد احمد سے زیادہ بہتر لگی ۔ ۔۔ اور جب انہوں نے عابدہ پروین کی یار کی گھڑولی گائی تو وہاں ایک سماں بندھ گیا ۔ اور پھر پرانے ساتھی وجد کے عالم میں سٹیج کے سامنے مست ہو کر دھمال ، بھنگڑا اور لڈی ، جس کو جو آتا تھا ، ڈالنے لگے ۔۔۔ فواد احمد کی آواز کا سحر تھا ، یا ان ناچنے والوں کی مدہوش کیفیت کے بہت سی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں مگرمیں اس وقت یہ سوچ رہی تھی کہ ؛
پانی میں عکس اور کسی آسمان کا ہے
یہ ناو کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
(احمد مشتاق )
فواد احمد جو پاکستان میں رہتے اور گلوکاری کو زیادہ توجہ دیتے تو شائد جواد احمد کی طرح ہی مشہور ہو تے مگر انہوں نے وطن چھوڑ دیا ، اور ہر اس آرٹسٹ کی طرح جو اپنی زمین چھوڑ دے تو اس کی قیمت موقع ،شہرت اور نام سے محرومی کی صورت نصیب بنتی ہے۔۔
مجھے ڈاکٹر ڈینس آئزک ، مسرت نذیر ، اور سہیل رعناکاخیال آیا ، جو یقیناًاپنے بچوں کے بہتر مستقبل ، امن اور خوشخالی کے لئے ہماری طر ح ہجرت پروں سے باندھ کر اڑ آئے تھے ۔ مگر ایسا کر کے انہوں نے اپنے لئے گمنامی کا دروازہ چنا، وہ عزت اور شہرت جو پاکستان میں رہتے ان کا مقدر بن سکتی تھی ، اس سے ہاتھ دھوئے ۔ ڈرامہ سیریل” دھواں “سے شہرت پانے والے عاشر عظیم، جو پاکستان کے کرپٹ نظام سے اوب کر سول سروس اور اپنا تخلیقی کئیرئیر وہیں دفنا کر ، کینڈا میں ٹرک چلا تے نظر آتے ہیں۔کیسا کیسا ٹیلنٹ ملک بدر ہو نے پر مجبور ہے ۔ ہم مہاجرین اپنا آدھا دھڑ اٹھائے اپنے باقی آدھے دھڑ کا مطلابہ کس سے کریں ؟
اور وہاں ، اس ہال میں جہاں یو ای ٹی کا فنکشن ہو رہا تھا ، پاکستان کی عظیم ترین درسگاہ سے پڑھے ہو ئے جنہیں انجئنیر بنانے کے لئے ماں باپ کے علا وہ حکومت کے پیسے بھی شامل تھے، یہاں ایک اجنبی دیس میں سالہا سال رہنے کے باوجود نہ اپنے کئیرئیر میں اس طرح مقام بنا سکے ( چند ایک کو نکال کے ) اور نہ اس دھرتی کو اپنا گھر مان سکے ۔۔ وہ اس محرومی کو بھلائے ، پرانے دنوں کی یاد کو سینے میں اگائے ، وجد کی حالت میں ، یار کی گھڑولی پر رقص کر رہے تھے ۔۔۔۔
پاکستان میں پرانے کلاس فیلوز کو اکھٹا کرنا ایک مشن ایمپوسیبل ہوتا ہے ، اور یہاں وطن سے دور ایک کال پر سب اکھٹے ہو جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن کے اندر رہنے والوں کے اندر کسی چیز کو کھو دینے کا کرب شامل نہیں ہو تا ، اس لئے وہ جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں ،اسی دھرتی پر پڑھ لکھ کر ، نوکریاں کرتے ، کبھی کبھار، گھڑی دو گھڑی کے لئے اپنی سٹوڈنٹ لائف کو یاد کر کے ایک آدھ آہ بھی بھر لیتے ہیں مگر انہیں نہ کو ئی تشنگی محسوس ہو تی ہے اور نہ کوئی خلا ۔۔ وہ باہر بیٹھے اپنے دوستو ں کو رشک کی نگاہ سے دیکھ کر اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ ہم یہاں سے کیوں نہیں نکلے یا کیوں نہیں نکل سکے ؟
ہم لوگوں کا غریب الوطنی کا دکھ اپنی جگہ مگر لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ جب اتنے سارے پروفیشنلز کا کسی ملک سے انخلا ہو جاتا ہے تو پیچھے کیا بچتا ہے ۔ نقصان چلے جانے والوں کا ہی نہیں پیچھے رہ جانے والوں کا بھی ہو تا ہے اسی لئے توناصر کاظمی نے کیا خوب کہا ہے کہ :
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
ہجرت کبھی بھی انسان کو مکمل نہیں رہنے دیتی ۔ چاہے وہ جبرا ہو یا مرضی سے کی ہو ۔ اس لئے یہاں ، کینڈا میں سب اپنی اپنی زبان ،ثقافت ، ذات برادری اور یادوں کی گٹھڑی کو اللہ کی رسی سے بھی زیادہ مضبوطی سے تھامے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نہ جانے کب پاکستان کے حالات ایسے ہو نگے کہ یہ جو سارا برین ملک کے اعلی اداروں سے تعلیم پا کر ترقی یافتہ ممالک کو اور ترقی کی طرف لے جا نے کے لئے ڈرین ہو گیا ہے واپس جانے کا سوچنے لگے ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply