دھمکیوں کا شوربہ۔۔۔۔سلیم مرزا/حصہ اول

میری تو مت ہی ماری گئی ہے ۔صبح صبح بیگم نے دھمکی دی کہ اگر گھر کی اکانومی نہ بدلی تو میکے چلی جائے گی ۔بازو ٹھیک ہوتا تو میرے لئے یہ سعودی انویسٹمنٹ سے بڑی خبر ہوتی ۔مگر میں سرکاری ایم او یوز اور بیگم کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔مجھ تک دونوں کے ثمرات اس حد تک ہی پہنچتے جس قدر گھر میں پکا گاجر کا حلوہ پہنچتا ہے ۔کچن میں برتن دیکھ کر پوچھوں کہ کون لایا تھا تب پتہ چلتا ہے پرسوں بنا تھا، ابھی ابھی ختم ہوا ہے ۔
لہذا سرجھٹک کر گھر سے نکلنے لگا تو۔۔دوسرا جھٹکا لگا ۔۔۔
کمپیوٹرماؤس کے نیچے سے دس دن پرانا بجلی کا بل برآمد ھوا ۔اور نحوست کا اندازہ لگائیں پورا تیرہ ہزار کا ۔بندہ پوچھے سعودی شہزادہ میرے گھر آیا تھا؟
اب گھر رکنا، خطرے کو دعوت دینے کے مترادف تھا ،نظر بچا کر گلی میں آیا تو دودھ والا مجھے دیکھ کر چھپنے لگا ۔لپک کر جالیا ۔
“یار تم۔پیسے ہی نہیں مانگتے ہو؟ کبھی مل بیٹھو حساب کتاب کرلیں ”
اس نے شاکی نظروں سے دیکھا ۔اور پوچھا۔۔۔۔۔”اسلام آباد سے کب آئے “؟
کیا بتاتا کہ تمہاری نظر نہ پڑتی تو آج بھی اسلام آباد ہی تھا ۔
اس نے دودھ بند کرنے کی دھمکی دی جسے میں نے انٍڈین میڈیا کی دھمکیوں میں شامل کرکے نظر انداز کیا ۔اور اسے سوموار کو سعودی چیک کے کیش ہونے کا بتا کر جان چھڑائی ۔سڑک پہ کھڑے ہو کر چاند گاڑی میں بیٹھنےہی لگا تھا کہ فون بج اٹھا ۔
“عائشہ کے اسکول سے کال تھی، اس کا آج رزلٹ تھا ۔ان کو بتایا کہ وہ ننھیال گئی ہے ۔وہ کہنے لگے آپ خود آکر اس کا رزلٹ لے جائیں ۔
میں نے حامی بھری مگر مجھے پتہ تھا کہ انہوں نے واجبات کی ادائیگی کے بنا رزلٹ نہیں دینا ،اس ملک میں عجیب سیاپا  چل رہا ہے ،بچے پاس ہوجاتے ہیں ۔۔۔پاپا فیل!
اس سے پہلے فیضان کہ  اسکول والے بھی سابقہ فیسوں کی ادائیگی کے بغیر اس کا نویں کا داخلہ نہ بھیجنے کا عندیہ دے چکے تھے ۔ وہ سیانا ہے، ایک دن اسکول جاتا ہے ۔ایک دن غائب، ٹیچر کو کبھی فیس کا پوچھنا بھول جاتا ہے ۔کبھی غیر حاضری کا ۔۔
غربت بھی لکن میٹی جیسی ہوتی ہے ،نہ چاہتے ہوئے بھی چھپنا پڑتا ہے  کہ کوئی چھو نہ لے۔۔
رکشےمیں بیٹھتے ہی دو دفاعی تجزیہ کار انڈین دھمکیوں پہ بحث فرما رہے تھے ان کے درمیان میں لائن آف کنٹرول بنا میں سب کچھ بھگت رہا تھا، افغانستان میں روس کے  تیے پانچہ سے لیکر تابخاک پینٹاگان ہر معرکہ کا فاتح ہم تھے ۔
اس سے پہلے کہ وہ سومنات تک پہنچ کر لوٹ مار کرتے میرا اسٹاپ آگیا۔۔
شہر پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا، بازار کا چکر لگایا ۔چکن والی دکان پہ لکھا تھا چکن دوسو روپے کلو ۔
آلو شوربہ ۔۔؟
لپک کر ایک کلو کا آرڈر کیا ۔
مرغیوں کے دلال نے پہلے سے مرحوم مرغیوں میں سے کسی کی گردن کسی کی کلیجی اور کسی کی پوٹ پکڑ کر پی ٹی آئی حکومت کی طرح کلو پورا کیا ۔
دوسو پکڑایا تو اس نے مجھے تعجب سے اور میں نے شاپر کو حسرت سے دیکھا۔
“تیس روپے اور دیں، صفائی کی کانٹ چھانٹ کے ”
اس نے شاپر اپنی طرف کرلیا ۔
میں نے تیس روپے دیکر شاپر کو مضبوطی سے پکڑلیا ۔ جیسے سرکار ٹویٹر والوں کو پکڑتی ھے ۔
سبزی والے کے پاس آلو اتنے سستے ذلیل ھورھے تھے جیسے فواد چوھدری کے بیان۔ پندرہ کے کلو آلو تیس کے دو ٹماٹر، اور دس کے دھنئیے کے چھ پتے خرید کر میں آلو شورے کہ اتنا نزدیک پہنچ گیا کہ اس کی خوشبو تصور کو مہکانےلگی۔ واپسی کیلئے رکشے میں بیٹھے بیٹھے میں نے دھنیے کو سونگھا ، کوکین کی سی فیلنگز آئی ۔
چکن والے شاپر کو دو تین بار ھاتھ سے دبایا ۔ھڈی نہ چبھتی تو سنی لیون ۔
گھر پہنچتے ھی تین کمروں میں بیگم کو ڈھونڈا، وہ اور عائشہ کپڑوں کا، ڈھیر لگا رھی تھیں ۔شاپر دیکھتے ھی اس کامنہ بالکل ویسا ھوگیا جیسے سہاگ رات کو مجھے دیکھ کر پہلی بار بنا تھا
“پوچھ تو لیا کریں، کوکنگ آئل نہیں ھے ”
باھر کوئی ناہنجار گھنٹی پہ ہاتھ رکھ کے بھول گیا۔
میں نے شاپر وہیں چھوڑے، باہر مالک مکان کا بیٹا مجھے دیکھ کر کھل اٹھا ۔
“چاچو، چار مہینے ہو گئے یں ”
اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔۔۔۔یں نے اسے پیشگی مبارکباد دی
ڈھیر ساری دعاؤں کے درمیان اس نےبتایا کہ کہ اگر اس ماہ کرایہ نہ ملا تو اس کے پاپا نے کچھ ایسے پیغامات بھیجے ہیں جو بذریعہ میسنجر بھیجے جائیں تو سائبر کرائم کے زمرے میں آتے ہیں ۔
بچے کو بہلا پھسلا کر محلے کی دکان تک پہنچا ۔
دکاندار نے مجھے دیکھتے ہی ایک لمبا سا کھاتہ نکال لیا ۔
ہم دونوں نے مل کر ملک کی اقتصادی بدحالی ۔ڈالر کی بڑھتی قیمتوں ۔اور دیگر باھمی دلچسپی کے امور پہ آدھا گھنٹہ سیر حاصل گفتگو کی ۔اور ایک لیٹر آئل کی تھیلی تین سو قسموں کے بعد میری ھوئی ۔
گھر پہنچتے ہی واشنگ مشین کی آواز سے اندازہ ہوگیا کہ آلو شوربہ کس نے پکانا ہے ۔
باقی آئندہ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply