وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں۔۔۔ عبدالرؤف خان

 

ہاں شاید اگر آج سے برسوں پہلے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں پر چیختے چنگھاڑتے، مونہہ سے جھاگ نکالتے ہوئے دوسرے فرقے کو کافر کہنے والے دین فروشوں کو چوک میں کھڑا کرکے ٹکٹکی پر باندھ کر ننگا کرکے کوڑے مارے جاتے تو آج ہم یہ دن نہ دیکھتے۔اے کاش اگر صحابہ اکرام کی سپاہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے نام پر بننے والی سپاہ کے خونی لشکروں کو جنم دینے والوں کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جاتا تو امت شیعہ سُنی میں تقسیم نہ ہوتی اور یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اے کاش اگر گوجرانوالہ میں ایک ہمسائی عورت کے جھوٹے توہین قرآن کے الزام کے جواب میں جماعت اسلامی کے ایک حافظ قرآن کو زندہ پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے والوں کو بھی اُسی طرح سے سزائے موت دے دی جاتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اے کاش کہ اگر راجووال حجرہ شاہ مقیم میں منعقد محفل نعت کے خطیب قاری بشیر احمد کے ہاتھ کو بھی ٹوکے سے الگ کردیا جاتا کہ جس نے دوران خطاب حاضرین سے پوچھا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے۔ جس پر محفل نعت میں شریک ایک پندرہ سالہ طالب علم انور علی کاہاتھ غلطی سے اُٹھ گیا۔ جس پر محفل نعت میں خطیب نے بھرے مجمع میں اُسے گستاخ رسولؐ کہہ دیا۔ معصوم بچے انور علی کو مولوی کی بات پر شدید غصہ آیا کہ جس کا دل یاد نبی صلی اللہ علیہ وآ لہ سلم سے آباد ہے اُسے گستاخ کہہ دیا گیا ہے وہ محفل سے اُٹھ کر چلا گیا اور گھر جا کر ٹوکہ سے وار کرکے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور پلیٹ میں ڈال  کر مولوی کو پیش کردیا۔  مولوی کٹا ہاتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ انورعلی درد کی شدت سے بے ہوش ہوگیا۔ انور علی نے بتایا کہ مولوی کے سوال کرنے کے انداز سے اُسے یہ لگا کہ کون کون ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو مانتا ہے، لیکن سوال کا اچانک رخ تبدیل ہونے پر یہ کہا گیا کہ کون کون ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں مانتا ،انور علی کا ہاتھ غلطی سے اُٹھ گیا لیکن مولوی کے تحقیر آمیز رویہ اور گستاخ کے فتوے نے انور علی کو اتنا ذہنی دھچکا دیا کہ اُس نے وہ ہاتھ ہی جسم سے الگ کردیا جس نے غلطی کی۔

اے کاش اگر ریاستی ادارے اور معاشرہ مذہب کے نام پر تفریق پیدا کرنے والوں کے خلاف پہلے ہی اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا، اے کاش اگر ان دین فروشوں کے خلاف پہلے ہی سخت کارروائی کردی جاتی تو یہ واقعات کا تسلسل پیش نہ آتا ۔جس میں ایک شخص نے تبلیغی جماعت کے دو ساتھیوں کو ٹوکے کے وار  کرکے مسجد میں ہی موت کی نیند سُلا دیا۔

یہ بے چارے ایک بزرگ کراچی سے چلے تھے ، گھر سے نیت باندھ کرنکلے تھے ایک سال اللہ کی راہ میں دینا ہے۔ ایک سال کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ نہ گرمی کو دیکھا نہ حبس کی شدت کی پرواہ کی بس ایک ہی ارادہ لے کر گھر سے نکلے تھے ۔میرا اللہ راضی ہوجائے۔ بغیر کسی معاوضے اور لالچ کے یہ لوگ ہر کسی کو اللہ کے دین کی طرف بُلاتے نظر آتے ہیں۔ جو گھر میں کسی کی بات بھی برداشت نہیں کرتا جب وہ تبلیغ کے راستے پر نکلتا ہے تو پھر یہ گالیاں بھی کھاتے ہیں، بے عزتی بھی برداشت کرتے ہیں، لوگ انکا مذاق بھی اُڑاتے ہیں لیکن یہ کبھی غصے میں نہیں آتے۔ میں نے انہیں ہمیشہ ہی صابر پایا۔ انہیں خود  کہتے سُنا کہ یہ تبلیغ نبیوں والا کام ہے۔ اُس بزرگ کو کیا پتہ کہ اُسے بھی نبیوں والی سُنت ادا کرنی ہوگی۔ تھوڑی بہت بحث کے بعد ایک مدرسے کا نوجوان بپھر گیا لڑپڑا۔ بزرگ کی سفید داڑھی کا حیاء بھی نہ کیا ،عقیدے کے اختلاف نے امن کے دین کا درس ہی بھُلا دیا۔ لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اس نوجوان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا بلکہ پھاؤڑا لے کر چپکے سے دبے پاؤں چنیوٹ کے نواح میں قائم اس چھوٹی سی مسجد کے صحن میں گہری نیند میں سوئے بزگ کے سر پر زور کا وار کیا کہ بزرگ کا بھیجہ باہر آگیا۔ غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا ،پھر دوسرے کے سر پر وار کیا تو شور مچ گیا۔

نوجوان کو پکڑ لیا گیا، پولیس نے پرچہ درج کرلیا۔ میں نے جو لکھنا تھا لکھ دیا جواب میں آپ نے پڑھ لیا لیکن جب تک ان شدت پسند خیالات کو شکست نہ دی گئی ایسے ہی کسی کا بھیجہ باہر نکلتا رہے گا۔ قاتل غازی بنتے رہیں گے۔ اگر سزائے موت مل گئی تو جواب میں شہادت کا بُلند رتبہ اور عظیم الشان مقبرہ بھی بن جائے گا۔ خوب شہرت بھی ملے گی، سیاست بھی چلے گی نام بھی بیچا جائے گا۔ امن کے دین کو تشدد اور وحشیوں کے دین کا لباس پہنا کر کفار کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج موجود ہوتے تو خون کے آنسو روتے کہ میں نے انہیں پیار اور اخلاق کا درس دیا تھا ،یہ چنگیزیت ان میں کہاں سے آگئی؟ میں نے تو انہیں وہ دین سکھایا تھا کہ زانی آتے تو عزتوں کے رکھوالے بن جاتے، چور آتے تو امین بن جاتے، قاتل آتے تو محافظ بن جاتے۔ لیکن آج اس اُمت کو کیا ہوگیا ہے؟جن کے ہاتھ میں امن کا پرچم ہونا چاہیے تھا انہوں نے تلوار پکڑی ہوئی ہے۔  جنہوں نے کہنا تھا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور آپس میں تفرقہ مت کرو آج وہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر کفر کے فتوے جاری کررہے ہیں۔خدا را ،اب بھی پانی سر سے نہیں گزرا ،اب بھی سنبھل جائیے دین فروش ملاؤں کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ ایسے مولوی کو سُننے سے انکار کردیں جو فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہو۔ اختلاف رائے کو برداشت کریں نہ کہ اختلاف رائے کی بناء پر لوگوں کی جان لینا شروع کردیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں۔۔۔ عبدالرؤف خان

Leave a Reply