دسمبر۔عاشقوں کا گلو بٹ

جب خزاں کا موسم شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی انسانی مزاج بھی تبدیل ہو جاتا ہے، انسانی طبیعت کا میلان ایک بے نام سی اداسی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے اسی لئے دنیا بھر میں اس موسم کو اداسی کے موسم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مثبت سوچ ہر چیز میں مثبت پہلو تلاش کر لیتی ہے، اس موسم میں درختوں کے پتے زرد، خشک یا سنہری ہو جاتے ہیں، سبزے کی جگہ باغات میں جابجا پت جھڑ کا راج سنہرے پتوں کے تختے بچھا دیتا ہے اسی لئے دنیا کے بعض خطوں میں خزاں کو سنہری موسم بھی کہا جاتا ہے۔
آپ خزاں کو سنہری موسم کہیں یا اداسی کا موسم اور اس کے تحت اپنے جذبات کو جیسے چاہیں بیان کریں اس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن جب لوگ اپنے جذبات بیان کرنے میں اوور ایکٹنگ اور انتہا پسندی کی حد تک یک رخی اختیارکرتے ہیں تو عجیب بودے پن کا احساس ہوتا ہے کیونکہ یہ زندگی کا ایک موڑ ہے، زندگی یا اس کے مراحل کا اختتام نہیں اس لئے اپنے جذبات کا اظہار اسی قدر ہونا بہتر ہے جس قدر ماحول کا تقاضا ہے۔

ماحول کا تقاضا صرف تبدیلی کی حد تک ہے جس میں پرانے پتے جھڑ جاتے ہیں اور نئی کونپلیں کھلنے کا عہد شروع ہوتا ہے، اسی بات کے پیش نظر شاعروں میں کچھ شاعرانہ جزبات بھی بھڑکتے ہیں جس میں پت جھڑ کو جدائی کا استعارہ بنا کر خیال آرائی کی جاتی ہے۔
کوئی اپنی بھولی بسری محبت کو اسی کنائے کا سہارا لے کر بیان کرتا ہے تو کوئی زرا آگے بڑھ کر درد جدائی کو بھی اسی آئینے میں لفظوں کا پیرہن عطا کرتا ہے، کوئی بے وفا محبوب کو اپنی وفائیں یاد کرواتا ہے تو کوئی محبوب کے جھوٹے عہد و پیمان کو یاد کر کے روتا ہے، کوئی وہی پرانی قربتوں کے لمحے یاد کرکے پھر وہی عاشقی کے زمانے ڈھونڈتا ہے جس میں بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے تو کوئی محبوب کا سنگ آستاں یا کُوئے جاناں کے وہی گم گشتہ سائے ڈھونڈتا ہے۔
ان شاعروں کی شاعری کو کل ملا کر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ رونے والوں کا اک حشر بپا ہے، اور یہ سب کچھ دسمبر میں ہی کھل کر سامنے آتا ہے، کیونکہ دسمبر سال کا آخری مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ خزاں کا آخری اعلان بھی ہوتا ہے جس کے بعد سردی کا باقائدہ موسم شروع ہو جاتا ہے۔
جس طرح گائے پہلے چارے کھانے میں سبقت کرتی ہے اور جب پیٹ بھر کر چارہ کھا لے تو پھر ایک طرف بیٹھ کر تادیر جگالی کرنے میں مگن رہتی ہے اسی طرح سارا سال عاشق حضرات دھکے کھاتے ہیں اور پھر دسمبر میں ایک طرف بیٹھ کر جگالی کرنے لگتے ہیں اور جگالی بھی اتنی کرتے ہیں کہ ارد گرد کا ہر دیکھنے والا بندہ بھی پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ زخم خوردہ درد ہجر کا مارا عاشق اب تک زندہ کیسے ہے اور آگے کےلئے بچے گا کیسے؟
دسمبر میں بینکار کو زیادہ سے زیادہ ڈیپازٹ حاصل کرنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے اور عاشق زیادہ سے زیادہ بھڑاس نکالنے پر مائل نظر آتا ہے، مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایک دن کےلئے ڈھیر سارا ڈیپازٹ اکٹھا کرکے کلوزنگ ڈے منانے کا فائدہ کیا ہے؟
جبکہ سارا سال بھی یہ لوگ وہی کام کرتے ہیں، بعض بینکر تو پاؤں ہاتھ لگانے چل پڑتے ہیں کہ ایک رات کے لئے ہی سہی کچھ کروڑ کا سہارا دے دو بھائی، اکتیس دسمبر کو پیسہ چھوڑ دو پہلی جنوری کو چاہے سارا نکال لینا، بعض خُڑوس بینکار تو انتیس، تیس، اکتیس دسمبر کو کسی کا چیک بھی پاس نہیں کرتے اور بزنس مین صبر کے گھونٹ بھر کے چپ ہو جاتا ہے کہ ان بیچاروں کی کلوزنگ ہے۔
امر واقع یوں ہے کہ بینکار اور عاشق کو سارا سال پیسے اور محبوب سے کھیلنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا لیکن پھر بھی پیٹ نہیں بھرتا اور جو کسر بچ رہتی ہے وہ دراصل دسمبر میں نکالنا چاہتے ہیں اس لئے یہ مالیاتی اور عاشقانہ مجبوری کم ہوس زیادہ دکھاتی دیتی ہے۔
جس طرح بائیس جون سال کا سب سے لمبا دن اور بائیس دسمبر سال کی سب سے بڑی رات ہوتی ہے اسی طرح بینک میں کلوزنگ ڈے کی رات سال کی سب سے قیمتی رات ہوتی ہے، سمجھ سے باہر ہے کہ ایک رات کےلئے اتنا ڈیپازٹ اکٹھا کرنے سے انہیں کیا صحت حاصل ہوتی ہے، شائد اس کا راز وہ عاشق ہی بہتر جانتا ہے جسے کبھی ایک رات تابعدار محبوب کے ساتھ گزارنے کو ملی ہو، اسی طرح دسمبر میں رونے والوں کا راز بھی شائد بینکر سے بہتر کوئی نہ جانتا ہو جو خود ڈیپازٹ کےلئے دسمبر میں روہانسا ہوا پھرتا ہے۔
اصل بات ہو رہی تھی شاعروں کی، کچھ خیال آفرین شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس موسم کو جب بیان کرتے ہیں تو واقعی ان کی شاعری احساسات پر احسان لگتی ہے لیکن بیشتر دسمبری شاعر کمادوں میں رونے والے "باہرلے" کی طرح ہوتے ہیں جن کی نہ کوئی سُر ہے، لے ہے، نہ تان ہے، اس بات کے پیش نظر دسمبر کے اس فغاں کیش گروہ کو دو حصوں میں تقسیم کر لینا چاہئے، یعنی پہلا گروپ شعراء اکرام کا اور دوسرا گروپ شوراء کرام کا۔
جب ایک نارمل اور خوشحال انسان کوئی غمگین گانا سنے تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ کونسا دکھ سامنے رکھ کر سنے اسی طرح شوراء کرام کو بھی اس ماحول میں ککھ سمجھ نہیں آتی کہ کس کو محبوب سمجھ کے روئیں، کچھ تو کثرت محبوب کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں اور کچھ کسرت محبوب کی وجہ سے جبکہ کچھ تہی دامن شوراء کرام محلے کی ٹیوشن پڑہنے جانے والی، سبزی و سودا سلف لیجانے والی لڑکیوں کو ہی لفٹ نہ کرانے پر انہیں سنگدل محبوب سمجھ کر روتے رہتے ہیں کیونکہ شوراء کرام یہ تصور ہی نہیں کرسکتے کہ لڑکیاں عشق کے علاوہ بھی کسی کام سے باہر نکلتی ہیں۔
شوراء کرام کی ابھی بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی تو یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے سفاری پارک میں سیر کےلئے ٹرام چلتی ہے تو کچھ لوگ قرینے سے اس میں بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ جگہ نہ ملنے کے باعث ٹرام کے ارد گرد جنگلے سے چمٹ جاتے ہیں، ایسے ہی جو لوگ سلیقہ مند شاعری کرتے ہیں وہ شعراء اکرام ہوتے ہیں اور جو لوگ دسمبری قسم کی عشقیہ شاعری کے جنگلوں اور چھجوں سے چمٹ جاتے ہیں وہی دراصل شوراء کرام ہوتے ہیں۔
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دسمبر میں شعراء اکرام سے زیادہ رونا پیٹنا شوراء کرام نے مچا رکھا ہوتا ہے، کچھ عاشق حضرات تو شعراء کی شاعری کا سہارا لیتے ہیں جبکہ باقی حضرات اس مقصد کےلئے خود اپنی ذاتی شاعری کرتے ہیں، ان شوراء کرام کی شاعری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ سارا سال ان کی پوسٹیں جب ایسی ھوتی ھیں تو ان کی شاعری کیسی ہوتی ہوگی، مثال کے طور پہ:۔
ہیلی کاپٹر کی تصویر کے ساتھ یہ ایسا کیپشن لگاتے ہیں کہ کمنٹ میں سات لکھ کر دیکھیں، ہیلی کاپٹر اڑتا ہے کہ نہیں، یا مکھی کی فوٹو پہ لکھیں گے کہ کمنٹ میں دو لکھ کر دیکھیں یہ مکھی اڑتی ہے کہ نہیں؟
بامراد ہونا شائد اسے ہی کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر بھی پزیرائی مل جاتی ہے، نیچے سو پچاس ایسے بھی ہوتے ہیں جو باقائدہ سات اور دو لکھ کر دیکھتے ہیں، پتا نہیں ایسے لوگوں نے کبھی مکھی اڑتی نہیں دیکھی یا ھیلی کاپٹر نہیں دیکھا لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ دونوں طبقے ہی دسمبر میں شوراء کرام بن بیٹھتے ہیں۔
ایسے لوگ جاتی ہوئی گاڑی کو بھی گالی دے ڈالتے ہیں کہ مٹی اڑا کے ان کے اوپر ڈال گئی، پہلے اپنے کھڑے ہونے کی جگہ تو دیکھیں کیا واقعی آپ کسی معقول جگہ پر کھڑے ہیں؟ لیکن مسئلہ یہ ھے کہ ان عاشقوں اور شوراءکرام کو اپنے اس علم و فضل اور اپنی پوزیشن کی اگر اتنی سمجھ ہوتی تو دسمبر کا یوں ناطقہ بند نہ کرتے، بس ان کے نزدیک دسمبر سال کا آخری مہینہ نہیں بلکہ محبوب کو کوسنے اور عاشقانہ جگالی کا آفیشئیل مہینہ ہے، یہ لوگ جس طرح دسمبر میں ماتم کناں ہوتے ہیں اسے دیکھ کر اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ یہ کہیں دسمبر کا تعزیہ نکالنا بھی نہ شروع کر دیں۔
ایک اندر کی بات بتاؤں؟
دسمبر بیچارہ بہت بردبار اور متانت انداز مہینہ ہے، وہ زبان سے تو کچھ نہیں کہتا لیکن زبان حال سے یہ ضرور پوچھتا ہے کہ

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے کوسنے والو
میں کوئی گلو بٹ ہوں کیا؟
نہ میں نے تمھارا معشوق اٹھایا
نہ میں نے اسے تمھارے خلاف ورغلایا
نہ میں نے اس کی سیٹنگ کسی اور سے کرائی
جب عشق کرنے کا سلیقہ نہیں آتا تو نہ کیا کرو یار
یا پھر اپنے اپنے محبوب کسی ڈھنگ کے ساتھ ہینڈل کیا کرو
یار پھر ان ان مہینوں میں رویا کرو جن جن مہینوں میں جدا ہوتے ہو
ہر مہینے کا ملبہ آ جا کے آخر میں دسمبر پہ کیوں ڈال دیتے ہو بھائی
عجیب لوگ ہو کہ جیسے تیس نومبر اور پہلی جنوری کو تو بڑے خوشحال ہوتے ہو لیکن دسمبر چڑھتے ہی صف ماتم بچھ جاتی ہے اور پورا مہینہ اسی بے سکونی میں نکل جاتا ہے کہ جس کو دیکھو میرے لتے لئے جا رہا ہے
معاف کردو مجھے بابا لوگ
میں کونسا عاشقوں کیلئے گلو بٹ ہوں یار؟
لیکن شوراءکرام دسمبر کو کبھی بھی معاف نہیں کرتے، یہ اسے عاشقوں کا گلو بٹ ہی سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ بہنوں کو بھائی بہت عزیز ہوتے ہیں وہ بھائی کی بیعزتی کبھی برداشت نہیں کرتیں، یہ جنوری فروری دسمبر کی بہنیں ہیں، جب لوگ دسمبر کی واٹ لگانے سے باز نہیں آتے تو پھر یہ دونوں آتی ہیں اور باری باری سب کی واٹ لگاتی ہیں، ان کے آگے کوئی بولتا بھی نہیں، یہ اتنی پٹاکیاں ہیں کہ ان کے سامنے جو کچھ بولنے کی کوشش کرے یا زرا سی زبان کھولے تو اس کے دانت بجنے لگتے ہیں۔
مس جنوری فروی کے سامنے سب کو نہ صرف عشق وشق بھول جاتا ہے بلکہ دو وقت کی روٹی سے زیادہ دو وقت کا سویٹر یاد رہتا ہے، یہ سویٹر صرف دوپہر کے وقت ہی لوگ اتار کر کندھے پہ رکھ سکتے ہیں جب سزا میں چار گھنٹے کی نرمی یا وقفہ کرتی ہیں، تب دسمبر دور کھڑا ہنستا ہے کہ نامرادو کسی کی شرافت کا یوں ناجائز فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہئے، اب بھگتو اپنے پاپ کی سزا۔
ان شوراءکرام کو میرا ایک مخلص مشورہ ہے کہ عشق کرنا ہے تو چیونٹی سے سیکھو جو سرد موسم کے آغاز سے پہلے ہی اپنے بل میں سردیوں کے سیزن کا اناج اکٹھا کر لیتی ہے تاکہ منجمد ماحول میں اسے باہر نہ نکلنا پڑے، سیانے لوگ بھی سردیاں شروع ہونے سے پہلے محبوب کا انتظام کرکے سردتے ہیں تاکہ سردیاں آرام اور تمازت میں نکل جائیں، اس لئے سیانے بنو شوراءکرام نہ بنو۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ دسمبر میں بہت سے لوگوں کی برتھ ڈے اور بہت سے شادی شدگان کی اینی۔ورسری بھی ہوتی ہے، چلو شادی شدہ بندہ تو گرفتارِ عمل ہے وہ صبر بھی کرلے گا لیکن جو برتھڈے کی خوشی منانا چاہتے ہیں وہ بیچارے ہکا بکا کھڑے سوچتے ہیں کہ اس کہرام میں کون انہیں مبارکباد دینے آئے گا۔
آخر میں بس یہی عرض ہے کہ دسمبر گزیدہ عاشقوں اور شوراءکرام کو پہلے عزت و احترام کے ساتھ سمجھاؤ لیکن جو پھر بھی سمجھنے کو تیار نہ ہو اور اس طرح کے اشعار پوسٹ کرے کہ
دسمبر ختم ہونے کو ہے
اور تم میری آخری کھڑپینچی ہو
تو اس بندے کی پوسٹ کے منہ پر ایسا کمنٹ مارو کہ پانچوں انگلیوں کے نشان پڑ جائیں اور ایسے اسٹیٹس کے گلے پہ انگوٹھا رکھ کے زور سے لائیک بھی دبا دو، خس کم جہاں پاک

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”دسمبر۔عاشقوں کا گلو بٹ

Leave a Reply