یہ کون آرہا ہے؟۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

تعصب ایک ناقابل علاج بیماری ہے، یہ انسان سے ظالم و مظلوم کی پہچان کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے، جس کا سائنس تمام تر ترقی کے باوجود کوئی علاج دریافت نہیں کرسکی۔ اس کے نتیجے میں انسان جادہ اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ذاتی تعصبات کو اس حد نہ بڑھنے دیا جائے کہ انسان قاتل سے محبت اور مقتول سے نفرت کرنے لگے، ظالم کے استقبال کے لیے بے چین ہو اور مظلوم کی چیخیں اسے  سنائی نہ دیتی ہوں، بھوک سے ہڈیوں کا ڈھانچے بنے انسان بھول جائے اور توندیں بڑھائے شکم پر  کے دسترخواں کی شان بڑھنے کی تیاریوں میں لگ جائے، ننگے پاوں اور آدھے ڈھکے جسم کے ساتھ بار بار آسمان کی طرف دیکھتے قابل رحم لوگوں کی امیدیں نظر نہ آئیں اور جن کا مرکز حکم واشنگٹن و تل ابیت ہے، وہ ہیرو بن جائیں۔ اہل اسلام پر یہ وقت نہ پہلی بار آیا ہے اور نہ ہی یہ آخری بار ہے، مشکل وقت میں پرچم اسلام سربلند کیے ہوئے دیوانوں کو خبر دو، یہ تاریخ ہمیشہ انہیں یاد رکھے گی، فلسطین سے لیکر یمن تک یہ عالم اسلام کی امیدیں ہیں۔

محمد بن سلمان پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور ان کے ساتھ  مہمانوں کا ایک ہزار رکنی وفد بھی پاکستان کو زینت بخشے گا۔ مہمان چاہے علی اکبر بن حسینؑ کا قاتل ہی کیوں نہ ہو، ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں، لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ آنے والے مہمان کا تعارف کیا ہے؟ ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ  آنے والے مہمان نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دے چکے ہیں اور مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب سے ہمارے مہمان گرامی سعودی عرب کے اقتدار کل کے مرکز بنے ہیں، اس وقت سے اہل مذہب پر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ بہت سے سلفی علماء جن میں شیخ علی العمری اور شیخ محمد العریفی شامل ہیں، کو گرفتار کیا گیا، اسی طرح امام کعبہ شیخ ڈاکٹر صالح الطالب کی گرفتاری کی خبر خاصی گرم رہی۔ اخوان المسلمین سے متعلقہ کسی بھی عالم کو برداشت نہیں کیا جا رہا، اخوان پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی ہے۔

حد یہ ہے کہ 2 دسمبر 2015ء کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء، سید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرضاوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کہاں وہ دن کہ مولانا مودودی کو اسلامی دنیا کا پہلا نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ دیا گیا اور کہاں یہ دور کہ ان کی تصنیفات پر ہی پابندی لگا دی گئی، کیونکہ یہ محمد بن سلمان کا دور ہے۔ شیعہ علماء اور کارکنوں کی بات کرکے کچھ قارئین کو بدمزا نہیں کرنا چاہتا ہے، کہیں وہ اس کی کوئی مذہبی بنیاد نہ تراش لیں۔ سعودی معاشرے کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے 35 سال بعد سینما گھر کھولے گئے، جبکہ پہلی بار فیشن ویک کا اہتمام بھی کیا گیا۔ سینما گھروں کو  اسلامی تہذیب کے احیاء کے لیے استعمال کیا جائے تو اچھی چیز ہیں، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ مغربیت کی طرف دوڑ کی رفتار بڑھانے کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح  ایک میلے کا اہتمام کیا گیا، 2 ماہ تک چلنے والے اس طویل ثقافتی میلے میں جہاں بہت سے گلوکار فن کا مظاہرہ کریں گے، العلا شہر کی انتظامیہ نے ثقافتی میلے اور میوزک فیسٹیول کا انعقاد ایسے مقامات پر کیا ہے، جو کم سے کم 5 ہزار سال کی تاریخ رکھتے ہیں۔ مغربی طرز پر کنسرٹس عام کر دیئے گئے ہیں، جہاں  مغربی گلوکار آتے ہیں، یہ اسلامی تہذیب کے مرکز پر ثقافتی حملہ ہے۔

امریکہ  کی خوشنودی اور اپنی حکومت کے دوام کے لیے پچھلے چند سالوں میں اسرائیل سعودی اتحاد معرض وجود میں آچکا ہے۔ ایران کا خوف پیدا کرکے اسرائیل کے ساتھ درپردہ خفیہ تعلقات قائم کر لیے گئے ہیں، سینئیر سعودی شہزادوں نے  اسرائیلی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں اور ان کو کہا ہے کہ اب آپ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ فلسطین پر قابض ہر روز نہتے اہل فلسطین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والی ناجائز ریاست اب ارض حرمین کے نئے صاحب اقتدار لوگوں کے لیے دشمن نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطین کی حمایت کے لیے اٹھنے والی سب سے توانا اور سب سے مضبوط آواز ارض حرمین سے آتی، جو  اہل اسلام کے لئے خوشی اور اہل فلسطین کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوتی، مگر کیا کیا جائے، جن کی حمایت کی امید تھی وہ مدمقابل آگئے۔

یمن کے مظلوم لوگوں پر مسلسل عرصہ حیات تنگ رکھا ہوا ہے۔ دسیوں ملکوں کی افواج تیار کر لی ہیں، جو ان ننگے پاوں والوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے یمن میں 85000 بچے شہید ہوچکے ہیں، 50 لاکھ بچے قحط کا شکار ہیں۔ سکول، ہسپتال، پل، رہائشی عمارتیں اور حتیٰ مساجد تک کو بمباری کا نشانہ بنا کر تباہ و برباد کر دیا۔ یہ اہل یمن کون ہیں؟ ایک مرتبہ عینیہ بن حصن فزاری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے سامنے اہل نجد کو سب سے بہتر لوگ قرار دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا: ’’کذبت، بل خیر الرجال اھل الیمن، والا یمان یمان، وانا یمان‘‘ تم نے غلط کہا، بلکہ سب سے بہتر لوگ اہل یمن ہیں اور ایمان یمنی ہے اور میں بھی یمنی ہوں۔(مجمع الزوائد ج ۱۰ص ۴۴بحوالہ طبرانی و احمد و رجال الجمیع ثقات)۔ حضرت اویس قرنیؒ سے اللہ کے نبی ﷺ کی محبت اظہر الشمس ہے۔ اویس قرنی ؒ کے ہم وطن مصیبت میں ہیں اور ان پر یہ مصیبت کفار و مشرکین کی طرف سے نہیں بلکہ اس نئی سعودی پالیسی کا نتیجہ ہے، جس میں وہ اربوں ڈالر کا اسلحہ یمن میں استعمال کر رہا ہے۔

جمال الخاشقجی کے سعودی سفارنخانے میں سفاکانہ قتل کے بعد پوری دنیا میں  محمد بن سلمان کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سعودی عرب جس سفارتی تنہائی کا شکار ہوا ہے، خود کو اس سے نکالنے کے لیے پاکستان آنے والے مہمان کے یہاں بھی بہت سے قدردان دستیاب ہیں۔ کاش محمد بن سلمان اہل فلسطین کی آواز ہوتا، کاش سعودی عرب کی جیلیں سلفی اور اخوانی علماء کا مسکن نہ ہوتیں، کاش محمد بن سلمان اسلامی تشخص کے لیے کوشاں ہوتے، کاش یہ سفارتخانوں کو مذبح خانوں میں تبدیل نہ کرتے تو یقین جانیئے ہم آج سڑک پر ہاتھ میں محمد بن سلمان کی تصویر لیے کھڑے ہوتے۔ جس شخص کے ہاتھ یمن کے اہل ایمان کے خون سے رنگین ہوں، فقط پیسوں کے لیے اس کا یوں استقبال اچھا نہیں لگ رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہhttps://www.islamtimes.org

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply