حافظ غلام قاسم مرحوم۔۔۔ جرات، عظمت اور عزیمت کا استعارہ

نواب آف کالاباغ، نواب ملک امیر محمد خان۔۔۔سابق گورنر مغربی پاکستان اپنی ایڈمنسٹریشن کی صلاحیت کے حوالے سے معروف ہیں، ان کے پائے کا کوئی شخص پاکستان میں ابھی تک دوبارہ نہیں آیا۔ اندازہ لگائیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں پر مشتمل ون یونٹ تھا اور نواب صاحب اس پورے مغربی یونٹ کے گورنر تھے۔ نواب صاحب کی ایڈمنسٹریشن کے بے شمار قصے مشہور ہیں لیکن دوسری طرف ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ظالم بھی بہت تھے، ان کے خلاف مقامی سطح پر ان ہی کی سٹیٹ کالاباغ سے ایک مزاحمتی تحریک اٹھی جسے “بغوچی محاذ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کالاباغ فرنٹ(بغوچی محاذ) کے نام سے مَلکوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ کافی عرصہ تک خفیہ طور پر جاری رہا۔ لیکن ان کی کاروائیاں زیادہ تر فکری محاذ پر محیط تھیں ۔ان کاروائیوں میں محرم اور عید میلادالنبیﷺ کے جلوسوں پر پمفلٹ پھینکنا ، اور خفیہ میٹنگز میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے جیسی باتیں تھیں۔ فرنٹ کے سرکردہ افراد میں حاجی فیض پراچہ، اکرم خان، یوسف خان، خالد نیازی، حافظ غلام قاسم ، قاضی امیر عبداللہ اور عالم خان خمینی جیسی شخصیات شامل تھیں۔حافظ غلام قاسم مرحوم کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور وہ جماعت اسلامی کی ضلعی شوریٰ کے رکن اور امیر جماعت اسلامی تحصیل عیسی خیل تھے،ان کے والد پرانے احراری تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ تحصیل عیسی خیل کے صدر بھی تھے۔ حافظ غلام قاسم کپڑے کا بزنس کرتے تھے. بغوچی محاذ تحریک میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے اس تحریک میں بے شمار قربانیاں دیں. انہیں بے شمار صعوبتوں سے بھی دو چار کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بار حافظ غلام قاسم بازار میں سودا سلف لینے کے لئے گھر سے آئے تو نواب کے غنڈوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہاں موجود کچھ لوگوں کو کہا کہ ان کے چہرے پر سیوریج کی نالی کا کیچڑ ملیں، نواب صاحب کا رعب اور خوف عام آدمی پر چھایا ہوا تھا، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، حافظ غلام قاسم کے چہرے پر گندی نالی کا کیچڑ مل دیا، حافظ صاحب نے بہتیرا کہا کہ میرے چہرے پہ سنت رسول کا احترام کرو لیکن وہ باز نہ آئے، اسی طرح ایک بار نواب کے کارندے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے لئے بازار میں ان کی دکان کی طرف آرہے تھے تو انہیں خبر ہو گئی، تاہم وہ مکمل اطمینان کے ساتھ اپنی دکان پر موجود رہے، کارندوں کے ہتھے سب سے پہلے مشتاق پراچہ بغوچی تحریک کے سرکردہ افراد میں سے ایک اہم فرد چڑھ گئے انہیں اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ بے ہوش ہو گئے،اس سے غنڈوں کا حوصلہ مزید بڑھا اور وہ حافظ غلام قاسم کی دکان کی طرف بڑھے تا کہ اصل بندے کو نشانہ بنا سکیں۔حافظ صاحب نے غنڈوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو پستول نکال کر ہوائی فائر کر دیا۔(ان دنوں اسلحہ کی نمائش عام تھی)، غنڈوں کو یہ توقع ہرگز نہیں تھی، چنانچہ وہ جس جگہ تھے وہیں سے الٹے پاؤں واپس بھاگ گئے، حافظ صاحب نے دیگر لوگوں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تاہم وہ ایک بنگلے میں جا کر مورچہ بند ہو گئے اور فائرنگ شروع کر دی لیکن ان کی یہ فائرنگ لاحاصل ثابت ہوئی۔
حافظ غلام قاسم مرحوم نے انتہائی جرات اور پامردی کے ساتھ بغوچی محاذ کے پلیٹ فارم سے ملکان کے خلاف مزاحمت کی اور کسی تکلیف کی پرواہ نہیں کی. یہ وہ دور تھا جب نواب آف کالاباغ کا عروج تھا اور اس کی مرضی کے بغیر چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔
نواب کے خلاف یہ مزاحمتی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ نواب آف کالاباغ کے قتل کے بعد اگرچہ یہ تحریک باقی رہی تاہم رفتہ رفتہ ملکان بھی بوہڑ بنگلے تک محدود ہو گئے اور لوگوں کو آزادی مل گئی۔ تاہم یہ منزل حاصل کرنے کے لئے تحریک کئی مرحلوں سے گزری اور اس سے وابستہ افراد کو طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔
حافظ غلام قاسم 6 فروری 2000ء کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تاہم ان کی ناقابل فراموش قربانیاں اور جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ (ماخوذ)

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply