اللہ کے محبوبﷺکاحلیہ مبارک

حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل،
اللہ کے محبوبﷺکاحلیہ مبارک

Advertisements
julia rana solicitors

جب حسن تھاان کاجلوہ نماانوارکاعالم کیاہوگا ہرکوئی فداہے بن دیکھے دیدارکاعالم کیاہوگا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ’’قسم ہے روزِ روشن کی اوررات کی جب وہ سکون کے ساتھ چھاجائے نہ آپ کے رب نے آپؐکوچھوڑااورنہ ہی ناراض ہوااورہرآنے والی گھڑی پہلی سے یقینابہترہے‘‘۔(سورۃ الضحیٰ پارہ 30)
یوں توسارے نبی محترم ہیں مگرسرورِانبیاء تیری کیابات ہے رحمتِ دوجہاں اِک تیری ذات ہے اے حبیب خداتیری کیابات ہے
اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی رشدوہدایت کے لئے کم بیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانیباء علہیم السلام کومبعوث فرمایا۔جنہوں نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کی۔رب تعالیٰ نے سارے انبیاء کومعجزات عطاکیے پَرجناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفیﷺکوسراپامعجزہ بناکربھیجا۔سب انبیاء علہیم السلام رحمت لے کرآئے۔پَرقربان جاؤں جناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفیﷺکی ذات اقدس پرجوسارے جہانوں کے لئے سراپارحمت بن کرتشریف لائے۔ یوں تو ا س دنیامیں ہزاروں حسین آئے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کودیکھ کرمصرکی عورتیں اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھتی ہیں ۔تذکرہ حسنِ یوسف علیہ السلام کاپھرکبھی آج ہم لجپال نبی کریم ﷺکے حسن وجمال کاتذکرہ کرتے ہیں۔
حسن ِیوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارندتوتنہاداری
آپﷺقدمبارک میں نہ زیادہ لمبے تھے اورنہ پست قدبلکہ میانہ قامت تھے ۔جب کسی طویل القامت کے ساتھ مل کرچلتے تواس سے بلندنظر آتے اوربسااوقات دوبلندقامت آدمیوں کے درمیان چلتے توان سے بلندترنظرآتے تھے۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺساتھ چلنے والے سے بلندقامت دکھائی دیتے ۔آپﷺدرمیانہ رفتارسے چلتے تھے ۔صحابہ کرام علہیم الرضوان فرماتے ہیں ہم میں سے تیزچلنے والابھی آقاﷺسے آگے نہیں نکل سکتاتھا۔اللہ کے محبوبﷺفرماتے ہیں کہ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی ہے‘‘۔ آپﷺکا جسم اطہرمیں فربہ پن نہ تھا۔جسم مبارک دبلامگرخوبصورت تھا۔چہرہ انوربالکل گول نہ تھابلکہ اس میں کسی قدرگولائی تھی۔
حضرت جابربن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺکوچاندنی رات میں دیکھاتوکبھی میں آپﷺکی طرف دیکھتااورکبھی چاندکی طرف آپﷺاس وقت سرخ لباس پہنے ہوئے تھے۔توآخرمیں نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ چاندسے بڑھ کرحسین ہیں۔(ترمذی شریف،مشکوٰۃ )
حضرت جامع بن شدادؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جس کانام طارق تھااس نے ہمیں بتایاکہ میں نے آپﷺکومدینہ طیبہ میں اسوقت دیکھاجب میں انہیں نہیں جانتاتھا۔میں مدینہ طیبہ سے باہرایک جگہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھاکہ رسول اللہﷺتشریف لائے اورفرمایا ’’کیاتمہارے پاس کوئی چیزہے جسے تم فروخت کرناچاہتے ہو‘‘۔توہم نے عرض کی جی ہاں یارسو ل اللہ ﷺ!ایک اونٹ ہے جسے ہم فروخت کرناچاہتے ہیں۔آپﷺنے اس اونٹ کی قیمت دریافت فرمائی توہم نے ایک مقدارکھجوروں کی بتائی کہ ہم اتنی کھجوروں کے عوض یہ اونٹ فروخت کریں گے ۔توآپﷺنے فرمایامجھے منظورہے اورآپﷺنے اونٹ کی مہارپکڑی اورفرمایاکہ کھجوریں تمہیں پہنچادی جائینگی۔ آپﷺاونٹ لے کرچلے گئے اورہم نے آپس میں گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اپنااونٹ اس شخص کودے دیاہے۔جسے ہم جانتے تک نہیں ۔ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی خاتون تھی جب اس نے ہماری یہ گفتگوسنی توکہنے لگی تم اونٹ کی فکرمت کرو’’میں اونٹ کی قیمت کی ضامن ہوں میں نے اس کے چہرہ کوچودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتادیکھاہے۔ایسے حسین چہرے والاتم سے کئے گئے وعدے کوضرورپوراکرے گا۔چنانچہ جب اگلی صبح ہوئی توایک شخص کھجوریں لے آیااورکہنے لگامجھے رسول اللہﷺنے تمہاری طرف بھیجاہے ان کھجوروں میں سے کھابھی لواوراپنے اونٹ کی قیمت بھی پوری کرلو۔(مواہب لدنیہ )
سیدنابراء بن عازب ؓ سے کسی نے سوال کیاکہ کیااللہ کے محبوبﷺکاچہرہ انورتلوارکی طرح صاف تھا۔توآپؓ نے جواب دیا’’وہ چاندکا ٹکڑاتھا‘‘ (بخاری،شمائل ترمذی)حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ خوشی کے وقت آپﷺکے چہرہ انورسے نورکی شعاعیں پھوٹنے لگتی تھیںاورچہرہ اقدس یوں لگتاتھاجیسے چاندکاٹکڑاہے۔اورہم آپ کی حالت سرورکواس سے پہچان جاتے تھے۔(بخاری ومسلم )آپﷺکاسایہ مبارک زمین پرنہ پڑتاتھا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے ’’آپﷺکاسایہ مبارک نہیں تھاجب آپﷺسورج کے سامنے کھڑے ہوتے توآپﷺ کے چہرہ انورکی چمک ودمک اورضیاء اورنورانیت سورج کی ضیاء ونورانیت پرغالب آجاتی اورجب کبھی چراغ کے ساتھ کھڑے ہوتے توآپ کی ضیائیں چراغ کے نورپرغالب آجاتیں‘‘۔
حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ خواب میں آپﷺکی مجھے زیارت ہوئی تومیں نے عرض کیایارسول اللہﷺ!کہ مصری عورتوں نے جب حُسن ِ یوسف کودیکھاتواپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے مگرآپﷺکودیکھ کرکسی کی حالت ایسی نہیں ہوئی۔توآپﷺنے فرمایا’’میراجمال لوگوں کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چُھپارکھاہے اگروہ ظاہرہوجائے تولوگوں کی حالت اس سے بھی زیادہ دارفتہ ہوتی۔جیساکہ یوسف علیہ السلام کودیکھ کرہوتی‘‘۔
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصرمیں انگشت زناں سرکٹاتے ہیں تیرے نام پرمردان ِ عرب
آپﷺکارنگ مبارک سفیدسرخی مائل تھا۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺکارنگ روشن اورچمکدارتھااورآپﷺکاپسینہ گویاموتی تھااورکسی دیباوریشم کے کپڑے کومیں نے آپﷺکی مبارک ہتھیلیوں سے نرم نہیں پایا۔اورمیں نے کوئی ایسامشک وعنبرنہیں سونگھاجس کی خوشبوآپﷺکے جسم مبارک کی خوشبوسے بڑھ کرہو۔(بخاری،مسلم )حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے منقول ہے کہ آپﷺکارنگ مبارک سفیدتھاجس پرسرخی جھلکتی تھی جیسے چاندی پرسونے کاپانی چڑھایاگیاہو۔مدینہ طیبہ کی گلیاں آپﷺکے پسینہ مبارک کی خوشبوسے معطرہوجاتی تھیں۔
آپﷺکاپسینہ مبارک خالص کستوری سے زیادہ پاکیزہ اورمہک والاہوتا۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺجب کسی راستہ سے گزرتے پھرآپﷺکے بعدجوبھی اس راستہ سے گزرتاتوآپﷺ کے پسینہ مبارک کی خوشبومحسوس کرلیتاکہ حضورﷺادھرسے تشریف لے گئے ہیں۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورنبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اللہﷺ!کہ مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے اورمیں چاہتاہوں کہ آپ میری معاونت فرمادیں۔آپﷺنے فرمایا’’کل میرے پاس آنااورایک کھلے منہ والی بوتل اوردرخت کی ایک چھوٹی سی لکڑی ہمراہ لانا‘‘۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیںکہ آپ نے اس لکڑی کے ساتھ اپنی کلائیوں سے پسینہ پوچھناشروع فرمایااوربوتل میں جمع فرمانے لگے حتیٰ کہ وہ بھرگئی ۔پھرآپ نے فرمایااس کولے جااورگھروالوں سے کہناجب خوشبولگانے کاارادہ ہوتواس لکڑی کوبوتل میں ڈبوکر بدن پرلگائیں ان کے لئے عظیم خوشبوثابت ہوگی۔جب اس گھروالے اس خوشبوکوبدن پرلگاتے توسب اہلِ مدینہ اس خوشبوکوسونگھنے آتے بلکہ اس گھروالوںنام ہی’’خوشبووالے لوگ‘‘پڑگیا۔حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روزنبی کریمﷺہمارے گھرتشریف لائے اوردوپہرکے وقت قیلولہ فرمایاچونکہ آپﷺکوخواب میں بہت پسینہ آیاکرتاتھاتومیری والدہ نے جن کانام ’’ام سلیم‘‘ہے شیشی لے کرآپﷺکاپسینہ مبارک لے کراس میںجمع کرنے لگی ۔آپﷺکی آنکھ مبارک کھل گئی ۔آپﷺنے فرمایا’’اے ام سلیمؓ!کیاکررہی ہو۔عرض کیایارسو ل اللہﷺآپ کاپسینہ مبارک جمع کررہی ہوں۔تاکہ میں بطورِ خوشبواستعمال کروں کیونکہ اس کی خوشبوسب سے زیادہ بہترہے۔(مسلم شریف)
آپﷺکے گیسومبارک نہ بالکل پیچداراورنہ بالکل سیدھے تھے بلکہ قدرے گھنگریالے تھے۔حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انسؓ سے رسول اللہﷺکے بالوں کے بارے میں دریافت کیاتوآپؓ نے فرمایاآپﷺکے بال رجل(نرم)تھے۔آپﷺبالوں میں کثرت سے کنگھی کیاکرتے تھے۔
چشمان مقدس نہایت سیاہ تھیں اورپلکیں درازتھیں۔جوڑوں کی ہڈیاںجسیم تھیں دونوں شانوں کی درمیانی جگہ پرگوشت تھا۔جسم اقدس پرزیادہ بال نہ تھے ۔بلکہ سینہ اقدس سے ناف مبارک تک بالوں کی پتلی لکیرتھی۔آپﷺکے ہاتھ پائوں پرگوشت تھے ۔آپﷺجب چلتے توقدموں کوقوت کے ساتھ اٹھاتے ۔ایسے لگتاکہ بلندی سے نیچے کی طرف اُتررہے ہیں ۔جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے ۔توپورے بدن کوپھیرکرتوجہ فرماتے۔ آپﷺکے دونوں شانوں کے درمیان ’’مہرنبوت‘‘تھی۔آپﷺخاتم الانبیاء تھے ۔طبیعت مقدسہ سب سے زیادہ نرم اورقلب اطہرسب سے زیادہ سخی تھا۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا’’کیاتم جانتے ہوکہ سب سے بڑاسخی کون ہے صحابہ نے عرض کیااللہ اوراس کے رسول ﷺبہترجانتے ہیں۔آپﷺنے فرمایا’’سب سے بڑاسخی اللہ ہے اورپھراولادِ آدم میں سب سے بڑاسخی میں ہوں‘‘۔(مشکوٰۃ )
حضرت علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں۔’’پیشانی مبارک کشادہ اوربھنویں ملی ہوئی تھیں۔آپﷺکی بینی مبارک ایسی نورانی اورروشن تھی کہ دیکھنے والاجب تک بغورنہ دیکھے یہی گمان کرتاتھا۔کہ آپ کی بینی شریف بلندہے ۔حالانکہ بلندنہ تھی ۔بلکہ یہ بلندی نورکی تھی جوہرایک شٔے کونمایاں دکھاتا۔سیدناجابرؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہﷺفراخ دہان تھے‘‘(صحیح مسلم)حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے کبھی بھی آپﷺکواس طرح قہقہ لگاکرہنستے نہ دیکھاتھاجس سے لہوات نظرآجائیں‘‘۔(بخاری)
آپﷺکی بول وبراززمین اپنے اندرسمالیتی تھی ۔روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آقا ﷺکابول شریف پی لیاتھاتواس کے جسم سے ہمیشہ خوشبوپھولتی رہی حتیٰ کہ اس کی اولادمیں کئی نسلوں تک خوشبوباقی رہی ۔(مدارج النبوۃ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابوسفیان کے (قافلہ کی شام سے)آنے کی خبرپہنچی توحضورنبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایاحضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہوکرعرض کیایارسول اللہ ﷺ!اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ اگرآپ ﷺہمیں سمندرمیں گھوڑے ڈالنے کاحکم دیں توہم سمندرمیں گھوڑے ڈال دیں گے اگرآپ ﷺہمیں برک الغمادپہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں توہم ایسابھی کریں گے تب رسول اللہ ﷺنے لوگو ں کو بلایالوگ آئے اوروادی بدرمیں اترے ۔پھرحضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:یہ فلاں کافرکے گرنے کی جگہ ہے آپ ﷺزمین پراس جگہ اورکبھی اس جگہ اپنادستِ اقدس رکھتے حضرت انس ر ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن دورانِ جنگ ) کوئی کافرحضورنبی اکرم ﷺکی بتائی ہوئی جگہ سے ذرابرابربھی ادھرادھرنہیں مرا۔ (رواہ مسلم،ابودائود)
آپﷺکے گستاخ کوزمین بھی قبول نہیں کرتی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جوحضورنبی کریم ﷺکے لئے کتابت کیاکرتاتھا وہ اسلام سے مرتدہوگیااورمشرکوں سے جاکرمل گیااور کہنے لگامیں تم میں سب سے زیادہ محمدمصطفی ﷺکوجاننے والاہوں اورمیں ان کے لئے جوچاہتاتھالکھتاتھا سووہ شخص جب مرگیاتونبی کریم ﷺنے فرمایااسے زمین قبول نہیں کرے گی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایاوہ اس جگہ آئے جہاں وہ مراتھاتودیکھااس کی لاش قبرسے باہرپڑی تھی ۔پوچھااس(لاش)کاکیامعاملہ ہے؟لوگوں نے کہاہم نے اسے کئی باردفن کیامگرزمین نے اسے قبول نہیں کیا(رواہ مسلم ،احمدبن حنبل)
اللہ رب العزت ہم سب کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کومعاف فرمائے ۔بروزِقیامت آقاﷺکی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply