دعا کی کیا ضرورت ہے ؟ ۔۔۔۔ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

ایک دن   اس کے ذہن میں  آیا کہ دعا کی کیا ضرورت ہے ۔میں انتہائی مشاق ماہر اور محتاط ڈرائیور ہوں۔ میری بائیک سپرفٹ ہے اس کی بریکیں دیگرتمام پارٹس وغیرہ سب بالکل صحیح ہیں۔میں ہر وقت چوکس ہوں ایک بریک میرے ہاتھ میں اور دوسری بریک پر میں پاؤں رکھتا ہوں۔ ایسی صورت میں میرا ایکسیڈنٹ کیسے ہوسکتاہے؟
شہزاد بہت ہی محتاط ذہن کا آدمی تھا۔وہ ہر معاملے میں مثبت اورمنفی پہلوؤں کو سامنے رکھ کرلمبی پلاننگ اورحکمت عملی سے کام لیتا اور کبھی بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا۔یہی وجہ ہے کہ جب اس نے نے موٹر بائیک لینے کا ارادہ کیا تو پہلے اس نے ایک دوست کی بائیک پر بہت مشق کی۔ جب وہ بہت ماہر اور مشاق ہوگیا تو اس نے اپنی نئی موٹر بائیک خرید لی۔اس کی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ وہ ہر وقت اپنی بائیک کی دیکھ بھال کا مکمل خیال رکھتا ۔ بائیک چلانے سے پہلے اسے اچھی طرح چیک کرتا،کہ پیٹرول مناسب ہے، بریکیں صحیح ہیں، ہیڈ لائٹ اوربیک لائٹ،انڈی کیٹر وغیرہ سب صحیح ہیں۔وہ ٹریفک کے تمام اصول وقوانین کی مکمل پیروی کرتا۔سڑک پر یہ سوچ کر نکلتا تھا کہ تمام گاڑیاں اس ہی کوٹکر مارنے آرہی ہیں، مجھے ہی احتیاط کرنی ہے۔ کوئی پید ل فرد بھی اچانک کوئی غلطی کرسکتاہے اس سے بھی مجھے ہی محتاط رہنا ہے۔ الغرض وہ انتہائی محتاط شخص تھا۔جب گاڑی پر سوار ہوتا وہ دعا پڑھ کر سوار ہوتا۔اورجب گاڑی سے اترنے لگتا تو بھی سواری سے اترنے کی دعا پڑھتا۔اس طرح اسے بائیک چلاتے ہوئے چھ سات برس گزرگئے اوراس کا کبھی بھی ہلکا سا ایکسیڈنٹ بھی نہ ہوا۔ بلکہ اسے کبھی کوئی خراش تک نہ آئی۔
ایک دفعہ اس کے قریبی عزیز کا بائیک ایکسیڈنٹ ہوا۔یہ اس کی عیادت کے لئے گیا۔ اس کے خیال میں وہ ایکسیڈنٹ اس کے عزیز کی ہی غلطی سے ہواتھا۔ بہرحال اس نے اپنے عزیز سے کہا دیکھو میراکبھی کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ۔اگر تم بھی اتنی ہی احتیاط سے کام لو تو تم بھی محفوظ رہ سکتے ہو۔
اگلی صبح جب یہ باہر نکلنے لگا اس کے سامنے اس کے عزیز کی تصویر آگئی اورنجانے کیا ہوا کہ جب وہ اپنی بائیک پر سوار ہونے لگا تو اس کے ذہن میں آیا کہ میں انتہائی ماہر ،مشاق اور محتاط ڈرائیور ہوں۔ میں نہ صرف خود کوئی غلطی نہیں کرتا بلکہ ہر طرف سے آنے والی گاڑیوں اورپیدل افراد کی غلطیوں کو بھی مد نظر رکھتاہوں۔ رفتا ر بھی ہلکی رکھتا ہوں۔اس کے باوجود اگرکبھی کوئی غلطی ہوبھی گئی تواس کے باوجود ہینڈل میرے ہاتھوں میں ہے۔ میری بائیک سپرفٹ ہے ۔اس کی بریکیں اوردیگرپارٹس وغیرہ سب بالکل صحیح ہیں۔میں انتہائی الرٹ (چوکس) ہوں ایک بریک میرے ہاتھ میں اور دوسری بریک پر میں پاؤں رکھتا ہوں۔ کہ اچانک کوئی افتاد پڑے تو میں اس سے بآسانی نبرد آزما ہوجاؤں۔ایسی صورت میں میرا ایکسیڈنٹ کیسے ہوسکتاہے؟ لہذا مجھے دعا کی کیا ضرورت ہے ؟
بہرحال یہ سوچ آنا تھی کہ اس کی گردن اکڑ گئی ،فاخرانہ انداز سے وہ گھرسے باہرنکلا اور اس نے دعا نہ پڑھی ۔اس دن اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے بائیک پرسوارہواورانتہائی مہارت اور احتیاط سے چلاتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔
جب وہ مین روڈ پر آیا تو اس نے دیکھا دو مزدے انتہائی تیزر رفتاری سے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے آرہے تھے۔ ان مزدوں کی چھتوں پر بھی افراد سوار تھے ۔ جب وہ مزدے انتہائی فراٹے بھرتے اس کے پاس سے گزرنے لگے تو اوپر سے اچانک ایک شخص ٹھیک اس کے سامنے نیچے گرا۔یہ شخص اچانک پڑنے والی افتاد سے گھبرا کر دوسری جانب مڑا جہاں سے تیسرا مزدا فراٹے بھرتا ہوا اس سے ٹکراتا (سائیڈ مارتا)ہوا کچھ اس انداز سے گزرا کہ یہ اپنی بائیک سے بہت دور جاکر گرا۔ابھی یہ سنبھلنے بھی نہ پایاتھا کہ ایک کار نے اسے ٹکرمارتی ہوئی چلی گئی۔ دوافراد اسے وہاں قریبی ہسپتال لے گئے ۔جہاں ایکسرے کرانےسے معلوم ہوا کہ اس کی کلائی اور ٹانگ کی ہڈی میں فریکچر آگیا۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دو ہفتوں کے بعد اجازت ملی۔اس مکمل صورتحال پرذکیہ غزل کا ایک شعر اس کے ذہن میں گونجنے لگا:
وہ جو محتاط تھے رویوں میں
وہی عنواں بنے فسانے کا
ہسپتال میں اچانک ایک لطیفہ اس کے ذہن میں آیا جو اس نے کبھی سناتھا کہ ایک بار ایک دیہاتی شخص گائے خریدنے گھر سے نکلا۔ مولانا صاحب نے دریافت کیا کہ کہاں جارہے ہو۔اس نے کہا کہ میں گائے خریدنے جارہا ہوں۔ مولانا صاحب نے اس دیہاتی سے کہا کہ انشاء اللہ بھی کہہ لو۔ اس دیہاتی نے کہا انشاء اللہ کی کیا ضرورت ہے۔گائے تومیں پیسوں سے خریدوں گا جو کہ میری جیب میں ہے۔بہرحال وہ وہاں سے رخصت ہوا۔ شام کو مولانا صاحب جب اس سے ملے کہ بھائی گائے کتنے کی ملی۔ اس نے کہا ۔انشاء اللہ کیا بتاؤں ۔انشاء اللہ میں گائے لینے گیا ، انشاء اللہ بازار میں میری جیب کٹ گئی، انشاء اللہ بغیر گائے لئے لٹ پٹ کر میں واپس آگیا۔
یہ خیال آتے ہی تکلیف کے باجوداس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ نمودارہوئی۔ اس نے سوچا ٹھیک یہی میرا حال ہوا ہے۔کہ نکلتے وقت غرور وتکبر کے باعث آج میں نے دعا بھی نہیں پڑھی تھی۔ اورمیرے ذہن میں آنے والے متکبرانہ خیال ہی کی وجہ سے میرا انجام بھی اسی لطیفہ والے دیہاتی کی طرح ہوا۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آئی”گناہوں سے توبہ کرنے والاایسا ہے گویااس نے گناہ ہی نہیں کیا” بہرحال ۔اس خیال نے اسے پرسکون کردیا ۔اس نے اسی وقت توبہ کی ۔اور سوچا واقعی حفاظت کرنے والی ذات رب کریم کی ہے۔ کوئی مہارت، عقلمندی،فراست،ذہانت ،صیانت انسان کو آفت ومصیبت سے نہیں بچاسکتی۔اللہ رب العزت ہمیں غرور وتکبر سے محفوظ رکھے اورہم پر ہمیشہ رب کی عافیت ،رحمت،اوربرکت سایہ فگن رہے ۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply