لاپتا افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔۔۔عدیل رضا عابدی

ایم کیو ایم پاکستان کو پی آئی بی اور بہادرآباد میں تقسیم ہوئے پورا ایک سال گزر گیا, اسی دوران الیکشن بھی ہوگئے, ایم کیو ایم بہادرآباد حکومت کا حصہ بھی بن گئی, علی رضا عابدی جو کہ لاپتا  افراد کیس میں ایک فریق کی حیثیت رکھتے تھے قتل کردیئے گئے لیکن لاپتا  افراد اور بے گناہ اسیروں کا معاملہ اپنی جگہ موجود ہے۔.
گزشتہ سال انہی دنوں پی آئی بی اور بہادرآباد کے درمیان پریس کانفرنس کا ٹیسٹ میچ جاری تھا۔ فیصل سبزواری جس ادا اور لہجے کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے نظر آتے اس سے لگتا ہے کہ ساری قوم کا درد یہ ہی فرد واحد رکھتا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر فاروق ستار میڈیا کے سامنے قسمیں کھاتے نظر آئے کہ   ان کے ساتھ گیم کی  جا رہی  ہے  وہ  اپنی جانب سے بالکل مخلص ہیں  دوسرا گروہ انہیں مائنس کررہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
خیر کوئی مائنس ہو یا پلس مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہاں  مگر  جب  بات  شہداء  کے  لواحقین یا  لاپتا کارکنان و ہمدردوں کے اہلخانہ سے متعلق ہوگی تو میں بولنے کا حق رکھتا تھا اور رکھتا ہوں۔
10فروری 2018 کی شام فیصل سبزواری نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا ” ہم لاپتا افراد, شہداء کے لواحقین اور کارکنان کو جوابدہ ہیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے”
جس وقت آپ یہ پریس کانفرنس کررہے تھے اس وقت کارکنان کی بڑی تعداد تو خود گھروں میں بیٹھ چکی تھی جس کا آپ نے پریس کانفرنس کے دوران اعتراف بھی کیا کہ م ق م کے 90 فیصد کارکنان گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔دو فیصد ہمارے ساتھ اور آٹھ فیصد پی آئی بی میں موجود ہیں۔
اب یہ آٹھ اور دو فیصد وہی تھے جو آپ کی طرح اپنی بھی بچارہے تھے۔ آپ انہیں جواب دیں یا نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں شیلٹر چاہئے بس!
باقی رہ گئے شہداء کے اہلخانہ۔۔ انہیں تو آپ عرصہ ہوا چھوڑ چکے ہیں۔ اور بائیس اگست کے بعد تو بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں لہذا انہیں بھی جانے دیں کیونکہ  جانے والے چلے گئے۔ مزے آپ سب کے لگ گئے ہیں۔
اب رہ گئے لاپتا افراد کے اہلخانہ۔۔  آپ نے فرمایا کہ آپ انہیں بھی جوابدہ ہیں، آپ یہ بتائیں کہ آج آپ کس منہ سے خود کو ان لاپتا افراد کے لواحقین کو جوابدہ ہونے کا اعلان کررہے ہیں جبکہ عدالت میں دائر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں م ق م پاکستان کی عدم دلچسپی پہلے دن سے عیاں تھی اور رہی سہی کسر ایس ایس پی کورنگی بلال مشتاق نے عدالت میں یہ تحریری جواب جمع کروا کے پوری کی جس میں کہا گیا تھا کہ لاپتا افراد کا تعلق م ق م لندن سے ہے اور م ق م پاکستان اس حوالے سے کوئی تعاون نہیں کر رہی ہے ۔۔

بائیس جون دوہزار گیارہ کو عدالت نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے بھی لاپتا کارکنان کی فہرست طلب کی۔۔
رابطہ کمیٹی بشمول ڈاکٹر صاحب اور تمام صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین بشمول آپ اور علی رضا عابدی ( جو کہ سینیٹ معاملے پر فریق تھے) ذمہ دار تھے کہ عدالت میں بروقت فہرست جمع کرواتے۔ تاخیر ہوئی اور بہت تاخیر ہوئی۔ بانی ایم کیو ایم کے بار بار کہنے کے باوجود بھی فہرست جمع نہیں کروائی گئی آخر کیوں؟؟
دو مئی دوہزارسولہ، عتیق الرحمان صاحب کے توسط سے عدالت میں لاپتا افراد کی فہرست جمع   کروائی جاتی ہے جو کہ لازمی بات ہے کہ بانی ایم کیو ایم کے شدید غصے کے اظہار کے بعد ہی جمع کروائی گئی۔ اگر ایسا نہیں تھا تو تاخیر کا سبب کیا تھا؟۔۔ عدالت جب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سوال کرتی ہے تو آپ کے ساتھ ساتھ وہ بھی لاپرواہی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے جواب جمع کروانے میں اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ بائیس اگست جیسا ” سانحہ ” وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد بائیس ستمبر کو ادارے عدالت میں جواب داخل کرتے ہیں کہ کوئی لاپتا نہیں سب روپوش ہیں۔ اس پر بھی آپ چپ رہے۔. عدالت نے کیس کو ازخود آگے بڑھاتے ہوئے پی آئی بی رہنماوں کو طلب کیا کہ وہ وضاحت دیں لیکن کوئی بھی سماعت کے موقع پر عدالت نہیں پہنچا۔ (واضح رہے اس حوالے سے میں نے علی رضا عابدی سے رابطہ کرکے ان کا موقف لینے کی بھی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا)
دو جنوری دوہزار سترہ۔۔ عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ م ق م رہنما لاپتا افراد کیس میں حاضر نہیں ہوتے۔.
تین فروری دوہزار سترہ کراچی میں ہونے والی سپریم کورٹ کی خصوصی سماعت کے موقع پر عدالت میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے اعلی افسران جواب جمع کرواتے ہیں کہ ” م ق م رہنما لاپتا افراد سے متعلق تحقیقات میں تعاون نہیں کررہے”۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا تھا کہ وہ تو باربار بلانے پر عدالت میں بھی نہیں آتے۔ (اخبارات آن ریکارڈ)
چھ مارچ دوہزار سترہ۔۔۔ عدالت میں سندھ پولیس کی جانب سے یہ جواب داخل کیا جاتا ہے کہ لاپتا افراد کے لواحقین تک م ق م رہنما رسائی نہیں دے رہے!
مندرجہ بالا تمام باتیں لوکل پرنٹ / الیکڑانک میڈیا میں بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن سے آپ نہ نظر چرا سکتے ہیں نہ منہ موڑ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے لاپتا افراد کے لواحقین ہیں جنہیں آپ کو جواب دینا ہے۔ کیونکہ جو آپ کے جواب کے کئی سالوں سے منتظر ہیں انہیں تو آپ کسی طور گردانتے نہیں۔۔۔ کاش آپ نے انہیں بروقت جواب دیا ہوتا تو کم از کم ان کے دل سے نکلی دعا ہی آپ کو اور آپ کے گروہ کو یوں گلی گلی رسوا ہونے سے بچائے رکھتی لیکن اب جبکہ ذلت مقدر ہوتو کچھ ہو نہیں سکتا کیونکہ وقت نزاع پر تو پڑھا گیا کلمہ قابل قبول نہیں۔ یہ تو ایموشنل بلیک میلنگ ہے!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply