چراغ کبھی نہیں بجھتے۔۔۔۔نذر محمد چوہان

ایک خاتون ایک بزرگ کے مزار پر چراغ جلا رہی تھی ، تو پاس والے شخص نے کہا کہ  آپ روز ان چراغوں کو جلانے آتی ہیں ، اس خاتون نے جواب دیا کہ  جب سورج غروب ہوتا ہے تو بہت سارے لوگ ان کو جلانے والے خود بخود آ جاتے ہیں میں بھی دراصل ان لوگوں میں سے ایک ہوں ۔
یہاں ہفتہ والے دن ، ایک دوست کے بچوں کا ایک پالتو آسٹریلین طوطا مر گیا ۔ بچوں کو اس سے بے حد پیار تھا ، رونا دھونا ڈال دیا ۔ فیصلہ ہوا   اس کو گھر کے گارڈن میں دفنایا جائے تا کہ مرنے کے بعد بھی پاس رہے ۔ مائنس دس درجہ حرارت کی وجہ سے زمین اتنی سخت تھی کہ  کھودنا ایک عذاب لیکن ایسا کیا گیا کیونکہ بچوں کی خواہش تھی ۔ ویسے کچھ لوگ تو ایسے پرندوں یا جانوروں کو stuff بھی کروانے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔
انسانوں کے انتقال پر کچھ جسد خاکی کو جلا دیتے ہیں اور راکھ کو یا تو مرتبان میں محفوظ کر لیتے ہیں یا پھر چلتے پانی میں بہا دیتے ہیں ۔ زیادہ تر اموات میں مردہ جسم کو ہزاروں من مٹی تلے دفن کیا جاتا ہے ۔ کچھ مذاہب میں تو اسی مردہ جسم کو چیلوں کے کھانے کے لیے ٹاور پر ڈال دیتے ہیں ۔ کچھ کو اعزازات کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے اور کچھ ایک بہت بڑا گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔
جب کچھ نہیں تھا تو خدا تھا اور خدا ہمیشہ رہے گا ۔ یہ ساری تخلیق اسی کی وجہ سے nothingness سے وجود میں آئی  اور تب سے تقریباً ۴ بلین سال ہو گئے ہیں یہ زمین اور ڈیڑھ بلین سال سے اس پر انسان قائم و دائم ہیں ۔ یہ روشنی ، یہ چراغ اور یہ زندگی ، بغیر تعطل کے زندہ ہے اور ہمیشہ ہی زندہ رہے گی ۔ اس آلاؤ کو جلانے والے آتے رہیں گے اور اسے جلاتے رہیں گے اور پھر وہ مشعل کسی اور کے ہاتھ دے کر خود دوبارہ اس روشنی کا حصہ جلنے کی صورت میں بنتے رہیں گے ۔ پہلے وہ چراغ جلاتے تھے اب وہ خود چراغ بن کر روشنی پھیلائیں گے ۔
کینیڈا کی  ایک مشہور لکھاری جب پانچ سال کی تھی اس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ  کیا آپ اس زندگی کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں ۔ بچی نے پھر کہا “تو اس کا مطلب ہے کہ  آپ کے مرنے کے بعد آپ کی زندگی ختم ہو جائے گی ؟” باپ نے فوراًًً  جواب دیا ، “بالکل نہیں ، تم اور تمہارے بہن بھائی  میرے بعد اس زندگی کا حصہ ہوں گے ، تم لوگ میری  جگہ اس شمع کو جلائے رکھو گے جسے زندگی کہتے ہیں “۔
معاملہ اتنا سادہ ، اتنا خوبصورت اور سب کے لیے win win ہے کہ  سبحان اللہ !
جی ، صرف روشنی کو جلائے رکھنا ، اور اس کا ایندھن صرف اور صرف پیار اور محبت ۔ جذبہ شلرگزاری اس کی طاقت ۔ ایک امریکی لکھاری بینیڈکٹ ویلز نے
End of Loneliness
کے نام سے ایک کتاب لکھی جسے اس نے ایک جملہ میں کچھ یوں بیان کیا ؛
“I have known a death long time, but now death knows me “
اور اسی کو مشہور امریکی اداکار وُڈی ایلن نے کہا کہ۔۔۔
It’s not that I am afraid to die, I don’t just want to be there when it happens ..
یہ ہے وہ راز ، وہ سچ اور حکمت جس کے ساتھ رہ کر اپنی زندگیاں منور کرنی ہیں ۔ معاملات خراب صرف اور صرف ہمارے دوسروں کی زندگیوں کے کنٹرول کی خواہش سے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدتر سے بدترین ہو گئے ۔ اور اس میں سب سے بڑا بگاڑ سیاستدان اور سرمایہ دار نے پیدا کیا، سرکاری ملازمین بخوشی اس فساد کے ایلچی بنے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ، نہ عزت محفوظ اور نہ زندگیاں ۔ ایک عجب قیامت خود ہی کی برپا ۔
آسٹریلین طوطا پہلے بھی بہت خوش تھا اب بھی اس کی روح مطمئن ۔ میری ہمشیرہ اس رقص کی کوریوگرافر اس دنیا کی زندگی میں خود نہیں بنی ، چلیں اب بن جائے گی ۔ وہ جب بچی تھی تو دنیا کی بدترین نقل مکانی دیکھی اور جب اس برائے نام آزاد مملکت میں بڑی ہوئی  اور بڑھاپا پایا تو تھانہ ،کچہری اور ظلمتوں کی تاریک شامیں دیکھیں ۔
اگر ہم نے اپنی زندگیوں میں حقیقی سکون لانا ہے تو اس رقص کو دوبارہ سبحان اللہ و بحمدہ کے سنگ سجانا ہو گا ۔ وگرنہ یہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والا معاملہ ہی رہے گا ، ناچ خود نہیں آتا اور الزام قدرت کو ۔
بہت خوش رہیں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply